علی گیرین ، فرنگی محلی۔۔۔۔ تحریر : فرزانہ اعجاز

Bhatkallys

Published in - Other

07:21PM Wed 18 Oct, 2017

’ علی گیرین ‘ فرنگی محلی فرزانہ اعجاز کوئ بھی گروہ۔ قوم یا انسان اس وقت تک مکمل نہیں بن سکتا جبتک اس نے مکمل تعلیم و تربیت نہ حاصل کر لی ہو ، محسن قوم حضرت سر سید احمد خان نے بس یہی ایک نکتہ سمجھ لیا اور جی جان سے اس کوشش میں مصروف ہو گۓ کہ انکے ملک والے، انکی قوم والے اپنے مروج علم کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم بھی صحیح طریقے سے حاصل کریں ،تب کہیں جاکر انکی حالت سدھرے گی ، ایسا بھی نہیں تھا کہ سب کی حالت ابتر تھی، ہاں، یہ بات ضرور تھی کہ زمانے کی ترقی سے مستفید ہونے کے لۓجس علم و سمجھ کی ضرورت تھی وہ بہت کم لوگوں کو میسر اور حاصل تھی ، سید صاحب نے اس کمی کو دور کرنے کے لۓ جنگ آزادی کے بعد ایک مدرسہ قائم کیا ،جہاں علوم دینوی کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان اور سائینس کے علاوہ دیگر جدید مضامین کو بھی بہت اہمیت دی ، ابتدأ ہی سے بہت سے لوگ انکی روشن خیالی کے حامی اور بہت سے دوست مخالف بھی رہے ، سر سید کا کارواں جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا ۔’لوگ ساتھ آتے گۓ ‘سر سید احمد خاں صاحب نے ملک و قوم کوایک ایسا نادر اور نایاب تحفہ’علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ‘ کی شکل میں دیا کہ جس کی مہک آج تمام عالم میں پھیل چکی ہے ، کسی بھی ملک یا شہر میں جانا ہوتا ہے تو ایک نہ ایک ’علی گیرین ‘ ضرور مل جاتا ہے ، اور اچھا اس وقت زیادہ لگتا ہے جب سابق طلبا ٔ نۓ ساتھیوں کا پرجوش استقبال کرتے ہیں ، جیسے وہ کوئ اجنبی نہ ہو بلکہ انکے اپنے خاندان کا ایک فرد ہو ۔ دنیا میں جتنے بھی چھوٹے بڑے ملک ہیں تقریبا ً ہر جگہ علی گڑھ یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل طلبا ٔ مصروف عمل ہیں ، یہ تو یاد نہیں کہ شروعات میں سر سید احمد خان کی تحریک میں علماۓ فرنگی محل شامل رہے یا نہیں ،لیکن ، جہاں تک ہم نے دیکھا اور سنا ہے تو اہل فرنگی محل میں اکثر حضرات کو یاتو طالب علم کی حیثیت سے یا پھر وہاں علم بانٹتے ہوۓ دیکھا اور سنا ہے ۔ خود ہماری بڑی خواہش تھی کہ ہم علیگڑھ مسلم یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے مگر اقتصادی مجبوریاں ہماری راہ میں حائل رہیں ۔ سو ، لکھنؤ میں رہ کر لکھنؤ یونی روسٹی سے اعلی۱ تعلیم حاصل کی ، ہمارے بھائ شائق رضا انصاری کی بھی بڑی خواہش تھی کہ وہ علی گڑھ یونی ورسٹی میں پڑھے ۔ وہ خوش قسمت رہا کہ اس نے وہاں پڑھا ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا پہلے بھی بہت بڑا نام و مقام تھا اور اب بھی ہے ، غیر ممالک سے بھی لوگ یہاں پڑھنے آتے ہیں ، وہاں کے بڑے بڑے ہوسٹلز ، انکی طرز رہائش اور انکی شوخی اور بر جستگی ،انکا ڈریس کوڈ یعنی کالی شیروانی ٹوپی ،سفید علی گڑھ کٹ پائجامہ ،شیروانی کے کالر پر یونی ورسٹی کا مونو گرام ،مقررہ وقت پر اپنے ہاسٹلز میں موجودگی ،وہاں زندگی بہت منظم اور خوبصورت لگتی ہے ، مسلم یونی روسٹی ، محض ایک تعلیمی ادارہ ہی نہیں ، وہاں رہ کر طلبا ٔ زندگی بہتر طریقے سے گزارنے کا فن بھی سیکھ جاتے ہیں ۔ افراد فرنگی محل میں بہت سے لوگوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور بہت سے حضرات نے وہاں معلمی بھی کی ، معلمی کرنے والوں میں سب سے پہلا نام مولوی ، مولانا حافظ مفتی محمد شفیع صاحب انصاری فرنگی محلی کا ہے ، مولانا صاحب پھر کلکتہ چلے گۓ اور مولانا آزاد کے مدرسے سے منسلک ہو گۓ ،بعد میں ڈھاکہ چلے گۓ ، لیکن ، سقوط ڈھاکہ کے بعد انڈیا آگۓ اور علی گڑھ میں اپنے بیٹے ڈاکٹر نسیم انصاری کے پاس قیام کیا ، جہاں سن اٹھتتر میں انکا وصال ہو گیا ، انکے بیٹے ڈاکٹر نسیم انصاری ، اور انکی بیوی ڈاکٹر زینت انصاری لندن سے ’ ایف ،آر ۔سی ۔ ایس کرکے آۓاور رٹایئرمنٹ تک علی گڑھ یعنی ورسٹی کے مڈیکل کالج سے منسلک رہے ، ڈ اکٹر نسیم انصاری ’ منٹو سرکل‘میں پڑھا کرتے تھے ، پھر والد کے ساتھ ڈھاکہ چلے گۓ ،وہاں سے ڈاکٹری پاس کی ، کمیونسٹ پارٹی سے منسلک رہے ، اور پھر ایف آر سی ایس کرنے لندن چلے گۓ تھے ، انکے تینوں بچوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے انجینیرٔنگ کی اور ڈاکٹر کی ڈگریاں حاصل کیں ، ڈاکٹر نسیم انصاری سے زرا پہلے ڈاکٹر انور انصاری صاحب اور انکی بیوی ڈاکٹر غزالہ انور انصاری بھی لندن سے آکر علی گڑھ میں معلم ہو گۓ تھے ، انکے بھی چاروں بچوں نے علی گڑھ ہی سے تعلیم حاصل کی ،دو بیٹیاں ڈاکٹر اور بیٹا انجینئر ہے ، جناب محمد مہدی انصاری صاحب جب کئ سال مکہ شریف میں تعلیم حاصل کر کے ، کئ حج کرکے، قاہرہ سے تعلیم مکمل کر کے واپس لکھنؤ آۓ تو وہ بھی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں مصروف عمل ہو گۓ ،انکی بیوی سعیدہ صاحبہ پہلے ہی سے مولانا آزاد لائبریری میں کام کرتی تھیں ، مہدی انصاری صاحب نے اپنے گھر کا کتب خانہ جو مولانا عبدالحئ صاحب کا کتب خانہ تھا ، مولانا آزاد لایئبریری کو دے دیا ، مہدی صاحب کے بیٹے فرید انصاری نے وہیں سے انجینئرنگ کی اور اس وقت انجینیئرنگ کالج میں استاد ہیں ، اس وقت مسلم یونی ورسٹی میں وہی واحد ’ فرنگی محلی ‘استاد ہیں ، ڈاکٹر انور انصاری اور انکی اہلیہ غزالہ انور ، ڈاکٹر نسیم انصاری ’ایف ،آر ،سی ، ایس ‘اور انکی اہلیہ ڈاکٹر زینت انصاری، مہدی انصاری اور انکی اہلیہ سعیدہ انصاری ، انکے بیٹے فرید انصاری ، سن اننیس سو انسٹھ میں ہمارے والد جناب الحاج مفتی ،مولانا ، حافظ محمد رضا انصاری صاحب کو بھی علی گڑھ کے وائس چانسلر ڈاکٹر علیم صاحب لکھنؤ سے علی گڑھ یونی ورسٹی کے شعبۂ سنی دینیات ’میں لے گۓ ، جن لوگوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کی ، انکی فہرست بہت طویل ہے اور برسوں پر پھیلی ہوئ ہے ، ہمارے علم میں سب سے سینیئر مولوی محمد سمیع اللہ انصاری فرنگی محلی [کمشنر انکم ٹیکس ] کا نام آتا ہے جنہوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ’قرض‘ لیکر علی گڑھ میں پڑھا اور نوکری ملنے کے بعد وہ قرض ادا کیا ، یہاں تک کہ جاب سے سبک دوش ہونے کے بعد تا عمر خاموشی سے اپنی درسگاہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کو ایک مقرر رقم بھجواتے رہے ،یہ بات انکی وفات کے بعد انکے بیٹوں کو معلوم ہوئ ۔ ،مولوی حیات اللہ انصاری صاحب اور مولوی ،حافظ فرحت اللہ انصاری صاحب ،امام عیدگاہ لکھنؤ ابو طیب احمد میاں ، مولانا حبیب الحلیم صاحب ،مولانا فاخر میاں صاحب ، مولانا حسن میاں صاحب ، عبدالوہاب انصاری ،جناب وحیدالدین انصاری صاحب جو بہت نا مساعد حالات میں علی گڑھ پڑھنے گۓ ،لیکن مولاناعبدالباری فرنگی محلی کےانگریزوں سے ’نان کوآپریشن موومنٹ ‘کی کال پرواپس چلے آۓ اور بعد کو ریاست حیدرآباد بغرض ملازمت چلے گۓ، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اہل فرنگی محل کبھی ’امیر ‘ نہیں رہے سواۓ دو گھرانوں کے ، ایسے حالات میں دوسرے شہر جاکر پڑھائ کرنا بہت مشکل تھا ، پھر بھی لوگ اپنی ضروریات کو نظر انداز کرکے بچوں کو وہاں علم کی پیاس بجھانے کو بھیجتے رہے ، مولوی وحیدالدین انصاری صاحب کےتین بیٹے ہیں ، بڑے بیٹے کو علی گڑھ کے قریب نوکری ملی تو وہ اپنی والدہ اور بھایئوں کے ساتھ علی گڑھ چلے گۓ اور آفتاب منزل کے ایک حصے میں مقیم ہوۓ انکے دونوں چھوٹے بھایئوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کی ۔ ڈاکٹر انورانصاری صاحب ، حسن نظام الدین انصاری، مشیر نظام الدین انصاری ، محترمہ قمرالنسأصاحبہ ، ڈاکٹر نسیم انصاری ، ڈاکٹر محمد طلحہ انصاری ، ڈاکٹر محمد زبیر انصاری ، عیشت اللہ انصاری ، عشرت اللہ انصاری ، ممتاز ہاشم ، نشاط ممتاز ہاشم، شائق رضا انصاری ، ندیم حبیب اللہ انصاری ،صبوحی ندیم حبیب اللہ انصاری ، محمد احمد حبیب اللہ انصاری ، محمد ارشد حبیب اللہ انصاری ، عائشہ حبیب اللہ انصاری ، امامہ زہرہ علیم انصاری ، محترمہ زہرہ اسلم انصاری ،ڈاکٹر زیبا نسیم انصاری ، زویا نسیم انصا ری ،سلیم نسیم انصاری ، ڈاکٹر تنویرانور انصاری ،ڈاکٹر انجم انور انصاری ، عارف انور انصاری ، شمع انور انصاری، محمد سعد انصاری ، ڈاکٹر محمد فرخ انصاری ، انوارالحق انصاری،عون عبداللہ، محمد فائق رضا انصاری ،وغیرہ وغیرہ ، اس کے علاوہ کئ لوگوں نے پرائیویٹ طور پر امتحان بھی دیا ، دردانہ رضا انصاری ،نگار انصاری ، خالدہ انصاری ،حنا انصاری ، سہانہ انصاری وغیرہ وغیرہ ، ہمیں ہمیشہ خواہش رہی کہ ہم بھی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں پڑھتے ، مگر اس نامکمل خواب کو ہم نے اپنے بیٹوں ڈاکٹر عرفان اللہ اور رضوان اللہ کو وہاں تعلیم دلا کرپورا کیا ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے تعلیم یافتہ کئ ’فرنگی محلیوں ‘ نے کافی نام کمایا ، الحاج محمد سمیع اللہ صاحب کمشنر انکم ٹیکس ہوۓ ، بہت عبادت گزار اور متقی بزرگ تھے ، اپنے عزیزوں کا بہت خیال کرتے تھے اور چپکے چپکے امداد بھی کیا کرتے تھے ،طہارت اور پاکیزگی کا بہت اہتمام کرتے تھے ، جناب حیات اللہ انصاری صاحب کو ہر اردو والا جانتا ہے ، بہت محنت اور جذبے کے ساتھ علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی ، پکے نیشنلسٹ ، مشہور اخبار ’قومی آواز‘ کے اڈیٹر ، اردو زبان کی محبت میں سرشار ، اردو کی بقا کے لۓ تحریک چلائ اور لاکھوں دستخطوں کی ایک لمبی عرضداشت صدر جمہوریہ کو پیش کی ، اس کام میں سیکڑوں لوگ انکے شانہ بشانہ تھے ، آسانی سے اردو سیکھنے کے لۓ ’دس دن میں اردو ‘ نامی ایک کارآمد قاعدہ مرتب کیا ، ایم ایل اے اور ایم پی بھی رہے ۔ الیکشن بھی لڑا لیکن کار حادثے میں بری طرح مجروح بھی ہوۓ ، بلکہ پورا خاندان زخمی ہوا ، حیات اللہ صاحب اس حادثے کے بعد کبھی جھک کر بیٹھ نہ سکے ، کوئ ریسرچ کرنے والا انکے کارناموں کو محفوظ ضرور کررہا ہوگا ، مولوی حافظ فرحت اللہ انصاری صاحب غضب کے ذہین اور بہترین مقرر تھے ،ایک لمحے میں طلبا ٔ کے مجمع کو کنٹرول کر لیا کرتے تھے ، لکھنؤ کرسچین کالج میں پڑھتے تھے ، ٹینس کے بہترین کھلاڑی تھے ، ایک حادثے میں ایک ٹانگ زخمی ہوکر زرا چھوٹی ہو گئ تھی ، پھر بھی پھرتی سے کھیلتے تھے ،یو پی حکومت کے انفارمیشن محکمے میں افسر ، ’نیا دور ‘ یو پی سرکارکے رسالے کے اڈیٹر بھی رہے ، آخری عمر میں گورنر کے مشیر ہو گۓ تھے ، انکے عزیز ترین دوست ، مجاز لکھنوی ، علی سردار جعفری ، علی جواد زیدی ،جاں نثار اختر ، معین احسن ’جذبی ‘سید اسلم رضوی اور صباح الدین عمر صاحبان تھے ،اسلم صاحب اور صباح الدین صاحب کے علاوہ تمام دوست علی گڑھ یونی ورسٹی میں انکے ساتھی بھی تھے ، ایک بہت اہم کتاب ’ادب اور تہذیب ‘بھی لکھی جو آج بھی یاد کی جاتی ہے ۔ الحاج ، مفتی ، مولوی حافظ محمد رضا انصاری صاحب عالم کے ساتھ ہی منجھے ہوۓ صحافی اور پکے نیشنلست بھی تھے ، کسی زمانے میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ خیالات سے بہت متأثر بھی رہے ،سید سبط حسن اور صلاح الدین عثمان ، سید مسیح الحسن رضوی صاحب انکے قریبی دوست تھے ۔ انکی لکھی خبریں اور یو پی اسمبلی کی کاروائ جو وہ کور کرتے تھے بہت معتبر مانی جاتی تھیں ، کئ کتابوں کے مصنف بھی تھے ، ایک کتاب انکی وفات کے بعد شائع ہو سکی ، رمضان کے پندرہ دن نامساعد حالات میں بھی تراویح میں محلے کی مسجد میں قرآن شریف ضرور سناتے تھے ، انکے مقتدی تمام علماۓ فرنگی محل ہوا کرتے تھے ، عید ، بقرعید کی نماز کی امامت بھی کرتے تھے ، اتحاد بین المسلمین کے سخت حامی تھے ،آخری دو رمضانوں میں کمزوری اور علالت کے سبب زبردستی انکو قرآن شریف نہیں سنانے دیا گیا ، جسکا انہیں بہت رنج تھا اور تمام رمضان رویا کرتے تھے ۔ فی زمانہ علی گڑھ کے فارغ التحصیل ممبران تمام دنیا میں اپنے علم سے دنیا کو منور کر رہے ہیں ، اور اس وقت آمنہ نفیس انصاری نامی ایک طالبہ علی گڑھ یونی ورسٹی میں فرنگی محل کی نمایندگی کر رہی ہے ، اور اساتذہ میں محمد فرید اںصاری فرنگی محل کی کمی کو پورا کر رہے ہیں ۔ فرنگی محل کی بیٹیوں کے بچوں نے بڑی تعداد میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کی ، اس وقت ،وقت کی کمی کے باعث ان سب سے مناسب رابطہ نہیں ہوسکا ، اس لۓ فرنگی محل کے ’نواسے ، نواسیوں ‘کے ’علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ‘سے متعلق معلومات اکٹھا کرنے سے ہم قاصر رہ گۓ۔ ختم شد farzanaejaz@hotmail. Com

کوئ بھی گروہ۔ قوم یا انسان اس وقت تک مکمل نہیں بن سکتا جبتک اس نے مکمل تعلیم و تربیت نہ حاصل کر لی ہو ، محسن قوم حضرت سر سید احمد خان نے بس یہی ایک نکتہ سمجھ لیا اور جی جان سے اس کوشش میں مصروف ہو گۓ کہ انکے ملک والے، انکی قوم والے اپنے مروج علم کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم بھی صحیح طریقے سے حاصل کریں ،تب کہیں جاکر انکی حالت سدھرے گی ، ایسا بھی نہیں تھا کہ سب کی حالت ابتر تھی، ہاں، یہ بات ضرور تھی کہ زمانے کی ترقی سے مستفید ہونے کے لۓجس علم و سمجھ کی ضرورت تھی وہ بہت کم لوگوں کو میسر اور حاصل تھی ، سید صاحب نے اس کمی کو دور کرنے کے لۓ جنگ آزادی کے بعد ایک مدرسہ قائم کیا ،جہاں علوم دینوی کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان اور سائینس کے علاوہ دیگر جدید مضامین کو بھی بہت اہمیت دی ، ابتدأ ہی سے بہت سے لوگ انکی روشن خیالی کے حامی اور بہت سے دوست مخالف بھی رہے ، سر سید کا کارواں جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا ۔’لوگ ساتھ آتے گۓ ‘سر سید احمد خاں صاحب نے ملک و قوم کوایک ایسا نادر اور نایاب تحفہ’علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ‘ کی شکل میں دیا کہ جس کی مہک آج تمام عالم میں پھیل چکی ہے ، کسی بھی ملک یا شہر میں جانا ہوتا ہے تو ایک نہ ایک ’علی گیرین ‘ ضرور مل جاتا ہے ، اور اچھا اس وقت زیادہ لگتا ہے جب سابق طلبا ٔ نۓ ساتھیوں کا پرجوش استقبال کرتے ہیں ، جیسے وہ کوئ اجنبی نہ ہو بلکہ انکے اپنے خاندان کا ایک فرد ہو ۔ دنیا میں جتنے بھی چھوٹے بڑے ملک ہیں تقریبا ً ہر جگہ علی گڑھ یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل طلبا ٔ مصروف عمل ہیں ، یہ تو یاد نہیں کہ شروعات میں سر سید احمد خان کی تحریک میں علماۓ فرنگی محل شامل رہے یا نہیں ،لیکن ، جہاں تک ہم نے دیکھا اور سنا ہے تو اہل فرنگی محل میں اکثر حضرات کو یاتو طالب علم کی حیثیت سے یا پھر وہاں علم بانٹتے ہوۓ دیکھا اور سنا ہے ۔ خود ہماری بڑی خواہش تھی کہ ہم علیگڑھ مسلم یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے مگر اقتصادی مجبوریاں ہماری راہ میں حائل رہیں ۔ سو ، لکھنؤ میں رہ کر لکھنؤ یونی روسٹی سے اعلی۱ تعلیم حاصل کی ، ہمارے بھائ شائق رضا انصاری کی بھی بڑی خواہش تھی کہ وہ علی گڑھ یونی ورسٹی میں پڑھے ۔ وہ خوش قسمت رہا کہ اس نے وہاں پڑھا ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کا پہلے بھی بہت بڑا نام و مقام تھا اور اب بھی ہے ، غیر ممالک سے بھی لوگ یہاں پڑھنے آتے ہیں ، وہاں کے بڑے بڑے ہوسٹلز ، انکی طرز رہائش اور انکی شوخی اور بر جستگی ،انکا ڈریس کوڈ یعنی کالی شیروانی ٹوپی ،سفید علی گڑھ کٹ پائجامہ ،شیروانی کے کالر پر یونی ورسٹی کا مونو گرام ،مقررہ وقت پر اپنے ہاسٹلز میں موجودگی ،وہاں زندگی بہت منظم اور خوبصورت لگتی ہے ، مسلم یونی روسٹی ، محض ایک تعلیمی ادارہ ہی نہیں ، وہاں رہ کر طلبا ٔ زندگی بہتر طریقے سے گزارنے کا فن بھی سیکھ جاتے ہیں ۔ افراد فرنگی محل میں بہت سے لوگوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور بہت سے حضرات نے وہاں معلمی بھی کی ، معلمی کرنے والوں میں سب سے پہلا نام مولوی ، مولانا حافظ مفتی محمد شفیع صاحب انصاری فرنگی محلی کا ہے ، مولانا صاحب پھر کلکتہ چلے گۓ اور مولانا آزاد کے مدرسے سے منسلک ہو گۓ ،بعد میں ڈھاکہ چلے گۓ ، لیکن ، سقوط ڈھاکہ کے بعد انڈیا آگۓ اور علی گڑھ میں اپنے بیٹے ڈاکٹر نسیم انصاری کے پاس قیام کیا ، جہاں سن اٹھتتر میں انکا وصال ہو گیا ، انکے بیٹے ڈاکٹر نسیم انصاری ، اور انکی بیوی ڈاکٹر زینت انصاری لندن سے ’ ایف ،آر ۔سی ۔ ایس کرکے آۓاور رٹایئرمنٹ تک علی گڑھ یعنی ورسٹی کے مڈیکل کالج سے منسلک رہے ، ڈ اکٹر نسیم انصاری ’ منٹو سرکل‘میں پڑھا کرتے تھے ، پھر والد کے ساتھ ڈھاکہ چلے گۓ ،وہاں سے ڈاکٹری پاس کی ، کمیونسٹ پارٹی سے منسلک رہے ، اور پھر ایف آر سی ایس کرنے لندن چلے گۓ تھے ، انکے تینوں بچوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے انجینیرٔنگ کی اور ڈاکٹر کی ڈگریاں حاصل کیں ، ڈاکٹر نسیم انصاری سے زرا پہلے ڈاکٹر انور انصاری صاحب اور انکی بیوی ڈاکٹر غزالہ انور انصاری بھی لندن سے آکر علی گڑھ میں معلم ہو گۓ تھے ، انکے بھی چاروں بچوں نے علی گڑھ ہی سے تعلیم حاصل کی ،دو بیٹیاں ڈاکٹر اور بیٹا انجینئر ہے ، جناب محمد مہدی انصاری صاحب جب کئ سال مکہ شریف میں تعلیم حاصل کر کے ، کئ حج کرکے، قاہرہ سے تعلیم مکمل کر کے واپس لکھنؤ آۓ تو وہ بھی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں مصروف عمل ہو گۓ ،انکی بیوی سعیدہ صاحبہ پہلے ہی سے مولانا آزاد لائبریری میں کام کرتی تھیں ، مہدی انصاری صاحب نے اپنے گھر کا کتب خانہ جو مولانا عبدالحئ صاحب کا کتب خانہ تھا ، مولانا آزاد لایئبریری کو دے دیا ، مہدی صاحب کے بیٹے فرید انصاری نے وہیں سے انجینئرنگ کی اور اس وقت انجینیئرنگ کالج میں استاد ہیں ، اس وقت مسلم یونی ورسٹی میں وہی واحد ’ فرنگی محلی ‘استاد ہیں ، ڈاکٹر انور انصاری اور انکی اہلیہ غزالہ انور ، ڈاکٹر نسیم انصاری ’ایف ،آر ،سی ، ایس ‘اور انکی اہلیہ ڈاکٹر زینت انصاری، مہدی انصاری اور انکی اہلیہ سعیدہ انصاری ، انکے بیٹے فرید انصاری ، سن اننیس سو انسٹھ میں ہمارے والد جناب الحاج مفتی ،مولانا ، حافظ محمد رضا انصاری صاحب کو بھی علی گڑھ کے وائس چانسلر ڈاکٹر علیم صاحب لکھنؤ سے علی گڑھ یونی ورسٹی کے شعبۂ سنی دینیات ’میں لے گۓ ، جن لوگوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کی ، انکی فہرست بہت طویل ہے اور برسوں پر پھیلی ہوئ ہے ، ہمارے علم میں سب سے سینیئر مولوی محمد سمیع اللہ انصاری فرنگی محلی [کمشنر انکم ٹیکس ] کا نام آتا ہے جنہوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ’قرض‘ لیکر علی گڑھ میں پڑھا اور نوکری ملنے کے بعد وہ قرض ادا کیا ، یہاں تک کہ جاب سے سبک دوش ہونے کے بعد تا عمر خاموشی سے اپنی درسگاہ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کو ایک مقرر رقم بھجواتے رہے ،یہ بات انکی وفات کے بعد انکے بیٹوں کو معلوم ہوئ ۔ ،مولوی حیات اللہ انصاری صاحب اور مولوی ،حافظ فرحت اللہ انصاری صاحب ،امام عیدگاہ لکھنؤ ابو طیب احمد میاں ، مولانا حبیب الحلیم صاحب ،مولانا فاخر میاں صاحب ، مولانا حسن میاں صاحب ، عبدالوہاب انصاری ،جناب وحیدالدین انصاری صاحب جو بہت نا مساعد حالات میں علی گڑھ پڑھنے گۓ ،لیکن مولاناعبدالباری فرنگی محلی کےانگریزوں سے ’نان کوآپریشن موومنٹ ‘کی کال پرواپس چلے آۓ اور بعد کو ریاست حیدرآباد بغرض ملازمت چلے گۓ، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اہل فرنگی محل کبھی ’امیر ‘ نہیں رہے سواۓ دو گھرانوں کے ، ایسے حالات میں دوسرے شہر جاکر پڑھائ کرنا بہت مشکل تھا ، پھر بھی لوگ اپنی ضروریات کو نظر انداز کرکے بچوں کو وہاں علم کی پیاس بجھانے کو بھیجتے رہے ، مولوی وحیدالدین انصاری صاحب کےتین بیٹے ہیں ، بڑے بیٹے کو علی گڑھ کے قریب نوکری ملی تو وہ اپنی والدہ اور بھایئوں کے ساتھ علی گڑھ چلے گۓ اور آفتاب منزل کے ایک حصے میں مقیم ہوۓ انکے دونوں چھوٹے بھایئوں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کی ۔ ڈاکٹر انورانصاری صاحب ، حسن نظام الدین انصاری، مشیر نظام الدین انصاری ، محترمہ قمرالنسأصاحبہ ، ڈاکٹر نسیم انصاری ، ڈاکٹر محمد طلحہ انصاری ، ڈاکٹر محمد زبیر انصاری ، عیشت اللہ انصاری ، عشرت اللہ انصاری ، ممتاز ہاشم ، نشاط ممتاز ہاشم، شائق رضا انصاری ، ندیم حبیب اللہ انصاری ،صبوحی ندیم حبیب اللہ انصاری ، محمد احمد حبیب اللہ انصاری ، محمد ارشد حبیب اللہ انصاری ، عائشہ حبیب اللہ انصاری ، امامہ زہرہ علیم انصاری ، محترمہ زہرہ اسلم انصاری ،ڈاکٹر زیبا نسیم انصاری ، زویا نسیم انصا ری ،سلیم نسیم انصاری ، ڈاکٹر تنویرانور انصاری ،ڈاکٹر انجم انور انصاری ، عارف انور انصاری ، شمع انور انصاری، محمد سعد انصاری ، ڈاکٹر محمد فرخ انصاری ، انوارالحق انصاری،عون عبداللہ، محمد فائق رضا انصاری ،وغیرہ وغیرہ ، اس کے علاوہ کئ لوگوں نے پرائیویٹ طور پر امتحان بھی دیا ، دردانہ رضا انصاری ،نگار انصاری ، خالدہ انصاری ،حنا انصاری ، سہانہ انصاری وغیرہ وغیرہ ، ہمیں ہمیشہ خواہش رہی کہ ہم بھی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں پڑھتے ، مگر اس نامکمل خواب کو ہم نے اپنے بیٹوں ڈاکٹر عرفان اللہ اور رضوان اللہ کو وہاں تعلیم دلا کرپورا کیا ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے تعلیم یافتہ کئ ’فرنگی محلیوں ‘ نے کافی نام کمایا ، الحاج محمد سمیع اللہ صاحب کمشنر انکم ٹیکس ہوۓ ، بہت عبادت گزار اور متقی بزرگ تھے ، اپنے عزیزوں کا بہت خیال کرتے تھے اور چپکے چپکے امداد بھی کیا کرتے تھے ،طہارت اور پاکیزگی کا بہت اہتمام کرتے تھے ، جناب حیات اللہ انصاری صاحب کو ہر اردو والا جانتا ہے ، بہت محنت اور جذبے کے ساتھ علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی ، پکے نیشنلسٹ ، مشہور اخبار ’قومی آواز‘ کے اڈیٹر ، اردو زبان کی محبت میں سرشار ، اردو کی بقا کے لۓ تحریک چلائ اور لاکھوں دستخطوں کی ایک لمبی عرضداشت صدر جمہوریہ کو پیش کی ، اس کام میں سیکڑوں لوگ انکے شانہ بشانہ تھے ، آسانی سے اردو سیکھنے کے لۓ ’دس دن میں اردو ‘ نامی ایک کارآمد قاعدہ مرتب کیا ، ایم ایل اے اور ایم پی بھی رہے ۔ الیکشن بھی لڑا لیکن کار حادثے میں بری طرح مجروح بھی ہوۓ ، بلکہ پورا خاندان زخمی ہوا ، حیات اللہ صاحب اس حادثے کے بعد کبھی جھک کر بیٹھ نہ سکے ، کوئ ریسرچ کرنے والا انکے کارناموں کو محفوظ ضرور کررہا ہوگا ، مولوی حافظ فرحت اللہ انصاری صاحب غضب کے ذہین اور بہترین مقرر تھے ،ایک لمحے میں طلبا ٔ کے مجمع کو کنٹرول کر لیا کرتے تھے ، لکھنؤ کرسچین کالج میں پڑھتے تھے ، ٹینس کے بہترین کھلاڑی تھے ، ایک حادثے میں ایک ٹانگ زخمی ہوکر زرا چھوٹی ہو گئ تھی ، پھر بھی پھرتی سے کھیلتے تھے ،یو پی حکومت کے انفارمیشن محکمے میں افسر ، ’نیا دور ‘ یو پی سرکارکے رسالے کے اڈیٹر بھی رہے ، آخری عمر میں گورنر کے مشیر ہو گۓ تھے ، انکے عزیز ترین دوست ، مجاز لکھنوی ، علی سردار جعفری ، علی جواد زیدی ،جاں نثار اختر ، معین احسن ’جذبی ‘سید اسلم رضوی اور صباح الدین عمر صاحبان تھے ،اسلم صاحب اور صباح الدین صاحب کے علاوہ تمام دوست علی گڑھ یونی ورسٹی میں انکے ساتھی بھی تھے ، ایک بہت اہم کتاب ’ادب اور تہذیب ‘بھی لکھی جو آج بھی یاد کی جاتی ہے ۔ الحاج ، مفتی ، مولوی حافظ محمد رضا انصاری صاحب عالم کے ساتھ ہی منجھے ہوۓ صحافی اور پکے نیشنلست بھی تھے ، کسی زمانے میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ خیالات سے بہت متأثر بھی رہے ،سید سبط حسن اور صلاح الدین عثمان ، سید مسیح الحسن رضوی صاحب انکے قریبی دوست تھے ۔ انکی لکھی خبریں اور یو پی اسمبلی کی کاروائ جو وہ کور کرتے تھے بہت معتبر مانی جاتی تھیں ، کئ کتابوں کے مصنف بھی تھے ، ایک کتاب انکی وفات کے بعد شائع ہو سکی ، رمضان کے پندرہ دن نامساعد حالات میں بھی تراویح میں محلے کی مسجد میں قرآن شریف ضرور سناتے تھے ، انکے مقتدی تمام علماۓ فرنگی محل ہوا کرتے تھے ، عید ، بقرعید کی نماز کی امامت بھی کرتے تھے ، اتحاد بین المسلمین کے سخت حامی تھے ،آخری دو رمضانوں میں کمزوری اور علالت کے سبب زبردستی انکو قرآن شریف نہیں سنانے دیا گیا ، جسکا انہیں بہت رنج تھا اور تمام رمضان رویا کرتے تھے ۔ فی زمانہ علی گڑھ کے فارغ التحصیل ممبران تمام دنیا میں اپنے علم سے دنیا کو منور کر رہے ہیں ، اور اس وقت آمنہ نفیس انصاری نامی ایک طالبہ علی گڑھ یونی ورسٹی میں فرنگی محل کی نمایندگی کر رہی ہے ، اور اساتذہ میں محمد فرید اںصاری فرنگی محل کی کمی کو پورا کر رہے ہیں ۔ فرنگی محل کی بیٹیوں کے بچوں نے بڑی تعداد میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کی ، اس وقت ،وقت کی کمی کے باعث ان سب سے مناسب رابطہ نہیں ہوسکا ، اس لۓ فرنگی محل کے ’نواسے ، نواسیوں ‘کے ’علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ‘سے متعلق معلومات اکٹھا کرنے سے ہم قاصر رہ گۓ۔ ختم شد farzanaejaz@hotmail. Com