شبِ برات۔۔۔ تحریر: مولانا    عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

11:23AM Fri 11 Dec, 2020

۔(۱۵منٹ کی یہ تقریر لکھنؤ ریڈیواسٹیشن سے ۱۴ستمبر۱۹۴۰ءکوشب برات کے موقعہ پر نشرہوئی، اس میں مولانا مرحوم نے بڑے لطیف اوربلیغ انداز میں اس کی جزئیات بیان کی ہیں، اورصحیح اسلامی نقطۂ نظرکوپیش کیاہے۔ ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بات آج کی نہیں کوئی۳۵۔۳۶ سال ادھرکی ۔ جاڑوں کا زمانہ اورچاند کا مہینہ، یہی راتیں اور تاریخ ۔۱۰۔۱۱سال کا ایک لڑکا شب برات منا رہا ہے ۔ اردگرد حالی موالی جمع۔ آتش بازی ٹوکری میں جمع ہوئی۔  کچھ چھُٹ رہی ہے کچھ رکھی ہے، ادھر چھچھوندر اور انار ادھرمہتاب کی بہار۔  اتنے میں خدا جانے کیا بجوگ پڑتا ہے چراغ کا گل آتش بازی کے ٹوکرے پرگرتاہے، یہ کیا کہ یک بیک سارے ذخیرہ نے بھک سے آگ پکڑ ہی تو لی۔  کوئی چیخا کوئی بھاگا، اورقریب تھا کہ ہنسی کھیل کا تماشہ درد وغم کا حادثہ بن جائے، توبہ! آگ کاکھیل بھی کوئی کھیل ہے! بارے آئی گئی ایک پانچ برس کے غریب لڑکے پر ہوئی۔  خوب جلا، جھلسا، بھلسا، مہینوں مرہم پٹی ہوئی جب کہیں جا کر دوبارہ زندگی پائی۔

جگ بیتی نہ تھی آپ بیتی تھی، اس وقت کا آتش باز لڑکا اس وقت تقریر و بیان کی پھل جھڑی چھوڑنے حاضر ہے، ہول ایسا اس گھڑی سے دل میں سمایا کہ پھرکبھی آگ اور دھوئیں کا سوانگ ہی نہ رچایا۔  آنکھوں دیکھے نہ سہی کانوں سنے واقعات ایسے بلکہ اس سے بڑھ چڑھ کر واقعات آپ کے علم میں بھی باربار آچکے ہوں گے۔  اخباروں میں تو کوئی سال ناغہ ہوتا نہیں جو یہ خبریں نہ چھپتی ہوں کہ اب کی شب برات میں فلاں شہر میں بچّے اتنے جلے اور بوڑھے اتنے مرے!

تو ایک شب برات تو یہ ہوئی کہ رات بھر خوب روپیہ پھونکا اڑایا، ہوا میں خوب ہی بدبو پھیلائی پوٹاس کی، مینسل کی، بارودکی، نہ خود سوئے نہ کسی کوسونے دیا۔ دھنا دھن پھٹاپھٹ سے محلہ والوں کی نیندحرام کردی۔  بیماروں اور ان کے تیمارداروں سے خوب خوب کوسنے حاصل کیے اورجو روپیہ کہیں قرض کا ہوا جب تو سچ مچ ”گھر پھونک تماشہ دیکھا“ پھر ایک ہی رات نہیں، آتش بازی(ٹھیٹھ ہندوستانی ترجمہ آگ کاکھیل) کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کئی دن پہلے سے، اورجاری رہتاہے کئی دن بعدتک! ہندوستان جیسے لق ودق ملک کے ایک ایک شہر ایک ایک قصبہ اور ایک ایک گاﺅں میں ہرسال جتنا روپیہ اس مدمیں اٹھتا ہے پھنکتاہے دھواں بن کر اڑتا ہے سب کی میزان کوئی لگانے بیٹھے توعقل چرخ ہوجائے۔

آتش بازیوں کا تو اصلی وقت رات کا وقت ہوتا ہے، لیکن حلوے کی تیاریاں دن ہی سے پوری طرح شروع ہوجاتی ہںت۔  میوہ آرہا ہے ،سوجی آرہی ہے، چنے کی دال پس رہی ہے ، شکرکی بوریاں چلی آرہی ہیں،گھی ترازو میں تل رہا ہے ،پتیلے صاف ہو رہے ہیں۔  کہیں خود گھر والیوں کہیں ان کی ماماﺅں اصلیوں کی جوتیوں کی سٹ سٹ، دیگچون میں کفگیروں کی کھن کھن، ہرگھرمیں ایک عجیب چہل پہل، بڑے اور چھوٹے سب مگن ۔ بچے کود رہے ہیں، دوڑ رہے ہیں، زقند بھر رہے ہیں۔ عورتیں نہال ہوئی جارہی ہیں ۔ شب برات گویا واقعی بارات کی رات! شام کو نیاز ہوگی اور ”خوش عقیدگی“ کی دنیا میں مردوں کی روحیں آئیں گی۔ جب نام آگیا فاتحہ درود کا، تو کسی کے منہ میں زبان ہے جوحرف گیری پر کھلے اور اپنے لیے خطابات حاصل کرے ”وہابی“ کے ”مردود“ کے !لیجیے شام ہوگئی اور میٹھا تیار ہوگیا، کہیں خشک اورکہیں تر۔  ساتھ ساتھ ”توشہ“ کی روٹیاں بھی حاضر، تنّوری یا خمیری، اورکھاتے پیتے گھروں میں شیرمال بھی! قسمت جاگ اٹھی تکیہ داروں کی ، نصیبے کھل گئے تکیہ داروں کے !۔

حلوے کی قتلیاں کٹنے لگیں، قلاقند کی لوزیّات برفیوں کی شکل میں دھلنے لگیں۔ سینیوں میں طباقوں میں خوانوں میں جمنے لگیں۔  ناریل کے لچھے کترے ہوئے، پستہ کی ہوائیاں پڑی ہوئیں، بادام کشمش طرح طرح کے میوے، کیوڑے کی خوش بو دماغ مہکائے ہوئے، چاندی کے ورق چمچماتے ہوئے۔  فاتحہ کا ثواب سیدالشہدا حضرت امیرحمزہؓ کی روح کو خدا معلوم کس طبع زاد تاریخ اور خانہ ساز تحقیق کے مطابق آج ۱۴شعبان کوفرض کرکے بخشا گیا، اورپھرگھر کے سارے مردوں کو۔  نام ایک ایک کے یاد کرکر کے، حافظہ پر زور ڈال ڈال کے لیے گئے، اس کے بعد حصّے تقسیم ہونے شروع ہوئے، عزیزوں دوستوں محلہ والوں برادری والوں گھرکے خدمتیوں چاکروں سب میں، اورگھرکے لڑکے اس سے پہلے ہی کچھ نوچ کھسوٹ لے بھاگے۔ حصہ باہر سے آرہا ہے، حصہ اندرسے جارہا ہے۔  نائیوں اور ناونوں کی بن آئی ہے، سر پرخوان اورخوان میں حصے ۔ گھروں میں اورسڑکوں پر آمدو رفت، بازاروں میں رونق حلوائیوں اور نانبائیوں کی دوکانوں پرہجوم کا آدھی رات تک! عید اور رات شبّ برات آخر کہتے کسے ہیں! عجب نہیں جو یہی چہل پہل دیکھ نواب مرزا شوق غریب شبِ برات کوشب عیش کے معنی میں سمجھ بیٹھے اورجب ہی توراز ونیاز کے موقع پر یہ مصرعہ فرماگئے :

ع      سمجھو اس کوشب برات کی رات

غرض دوسری قسم شبِ برات کی یہ ہوئی ۔ پہلی کا نام اگر رکھیے ”شیطانی“ تو اس دوسری کو کہیے ”نفسانی“ اورتیسری کے لیے گرہ لگائیے اسی ردیف وقافیہ میں ”روحانی“

خشک سیدھے سادے لوگ بڑے کھرّے مسلمان، ساڑھے تیرہ سو سال پہلے کا دین و شریعت ان کا ایمان ۔  اِ ن بیچاروں کے ہاں نہ یہ نہ وہ ۔  نہ آتش بازی کی ٹیم ٹام،  نہ حلوے توشہ کی دھوم دھام، چاند نظرآیا شعبان کا کہ دھیان بندھ گیا رمضان کا ۔ اب ہروقت روزوں کی فکر و اہتمام ماہِ مبارک ہی کی پیشوائی کا انتظام، اور جو ہمت یاوری کرگئی تو اسی مہینہ سے روزے رکھنا شروع کردیے کہ ہمارے آقا سردار رسول اللہ ﷺ کا دستوریہی تھا۔ خدمت میں رہنے والے صحابیوں کا بیان ہے کہ روزے تو آپ جب تب رکھا ہی کرتے تھے، لیکن شعبان تو کہنا چاہیے روزوں ہی کی نذر ہوجاتا تھا اورخود اس سرور  و سردار نے فرمایا بھی تو ہے کہ رمضان میرے اللہ کا مہینہ ہے اورشعبان خود میرا مہینہ ۔ رمضان کا مرتبہ تو ظاہر ہی ہے لیکن کیا کہنے ہیں اس مہینے کے بھی جسے اللہ کے رسول اپنا مہینہ کہہ جائیں!۔

خیرسارے مہینے کے روزے رکھ ڈالنا تو ہمت وروں کا کام ہے، باقی اتنی ہمت نہ ہوئی جب بھی مہینہ میں کم از کم ایک روزہ ۱۵شعبان کا تو رکھ ہی لیا۔ ۱۴ دن ختم ہوا اور پندرہویں شب آئی کہ مصلیٰ دعا و عبادات کا بچھا کر بیٹھ گئے۔ خواہ مسجد میں خواہ گھر میں۔  آج کی رات برکت والی، رحمت والی، مغفرت والی رات ہے، شریعت کی زبان میں لیلة البرأت ہے۔  اور براءت کے معنی نجات کے، قید سے چھوٹنے اور عذاب سے آزاد ہونے کے ہیں ۔  لطف و نوازش کی دولت لٹتی ہررات کو ہے، آج اور زیادہ لٹے گی، رحمتوں کانزول ہوتا تو ہر رات کو ہے آج اور زیادہ رہے گا۔  مانگنے والے آج خوب خوب مانگیں گے، پانے والے آج خوب خوب پائیں گے۔  نمازیں پڑھتے تو ہررات کو ہیں آج اورزیادہ پڑھیں گے۔ نفلوں کی تعداد آج معمول سے بڑھائیں گے۔  رات کے زیادہ سے زیادہ حصّے جاگ کربسر کریں گے۔ نیند اڑائیں گے داستانیں سن سن کر نہیں، ناٹک، سوانگ، اوپیرا دیکھ دیکھ کرنہیں، گلے کی تانوں اورباجوں کی الاپوں میں گم ہوکرنہیں، نمازیں پڑھیں گے قرآن مجید کی تلاوت کریں گے۔  دعائیں مانگیں گے اپنے لیے بھی، دوسروں کے لیے بھی۔  زندوں کے لیے بھی مردوں کے لیے بھی۔  عشاکے بعد گشت کو نکل جائیں گے۔ گشت بازاروں کا تماشا گاہوں کا سیروتفریح کی دوکانوں کا نہ ہوگا، قبرستان کا ہوگا! ہم سب کی مائی حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ پندرہویں تاریخ کی شب میں میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتی ہوں کہ میرے اور سب کے والی رسول اللہ ﷺ بسترمبارک سے اٹھ رہے ہیں آہستہ آہستہ کہ میں جاگ نہ پڑوں، اٹھے آہستہ آہستہ، چلے آہستہ آہستہ، کواڑ کھول باہرقدمِ مبارک رکھے آہستہ ۔ مجھے حیرانی ہوئی اور بدگمانی بھی کہ کہیں کسی دوسری بیوی صاحبہ کے ہاں کا ارادہ تو نہیں ہے، چپکے سے اٹھ دبے پاﺅں پیچھے ہولی۔  اب آگے آگے آپ پیچھے پیچھے میں، دیکھتی ہوں کہ آپ شہر کے باہرمدینہ کے مشہورقبرستان جنت البقیع میں پہنچے اورکھڑے ہو کر لگے میتوں کے حق میں دعائیں کرنے اور التجائیں کرنے!

اللہ اللہ ! ساری خلقت نیند کے مزے لے رہی ہے اورایک یہ اللہ کابندہ بے نظیر وبے مثال اپناچین چھوڑے نیند سے منہ موڑے خالق کے حضور میں کھڑا مصروف ہے دعاﺅں میں مناجاتوں میں! اپنے آقا وسردارکے اس طریقہ کی پیروی میں سیدھے سادے مسلمان بھی آج رات کونرم نرم بستروں کوچھوڑکر نیندکے مزہ سے منہ موڑکر اپنے اپنے گھروں سے باہرنکلیں گے، یار دوستوں کے چہچہوں کے لیے نہیں، غفلت کے قہقہوں کے لیے نہیں، عبرت کے آنسوﺅں کے لیے، آہوں کے لیے دعاﺅں کے لیے! اس وقت کے سماں کا کیا کہنا! وہ پندرہویں کے پورے چاند کا نکھار،گویا آسمان سے زمین تک بارش انوار! وہ قبرستانوں کاسنّاٹا وہ دلوں میں عبدیت کا احساس، وہ زندوں کا مردوں کا حق میں دعائیں کرنا لجاجت کے ساتھ منّت، سماجت کے ساتھ! منظر اس سے بھی بڑھ کر مؤثر اورکون سا ہوگا‘ تعلق سننے سے نہیں دیکھنے سے ہے، اور دیکھنے سے بھی بڑھ کر خودعمل کرنے سے ہے! بندہ نواز کی بندہ نوازی جوش میں اب بھی نہ آئے گی تو کب آئے گی؟ مانگنے والے اب کون بتائے کیا کیا پاتے ہیں، واپسی میں کیا کیا لاتے ہیں۔  گھرآئے توکسی نے برائے نام سحری کھائی اورکسی نے ذری کی ذری کمر سیدھی کرلی۔  فجر میں اب دیرہی کتنی اورتہجد بھلا آج کیوں ناغہ ہونے لگی!

صبح ہوگئی، اورآج دن میں روزہ ہے ۔ خبردی ہے اس مخبرصادق نے جوہم سب سے کہیں زیادہ علم والاتھا کہ آج آسمان دنیا پر گویا ’سال تمام‘ کا دن ہوتا ہے۔ ہرشخص کا ’چٹھا‘ کٹ جاتا ہے۔  اس کی موت زندگی، بیماری تندرستی،تنگی خوش حالی، غم وشادمانی سب کاحساب سال بھرکے لیے آج ہی فرشتوں کے رجسٹرمیں درج ہوجاتا ہے، مبارک ہے وہ بندہ جس کا نام ایسے وقت رجسٹر میں درج ہو کہ وہ مالک کی چاکری میں کمربستہ پایا جائے۔  دن ہو تو روزہ دار، رات ہوتو تہجد گزار۔  خوش نصیب ہے وہ ملّت جس کا ایک فردآج اپنے نفس کی اصلاح و احتساب کا سالانہ پروگرام بنائے۔  بدی کی مخالفت کا، نیکی کی متابعت کا بیڑہ اٹھائے۔ رمضان کے فرض روزوں کے بعدپھر جن تاریخوں کے روزہ کارسول اللہ ﷺ کو خاص اہتمام تھا ان ہی میں سے ایک یہ روزہ پندرہ شعبان کا ہے، بس یہ ہے کل کائنات مذہبی حیثیت سے شبِ برات کی ۔ رات جگا نہ سنیما، کارنیوال نہ ڈراما، نہ نوبت نہ روشن چوکی، نہ آتش بازی نہ حلوے سازی، ناچ نہ رنگ نہ شرابیوں جواریوں کے ڈھنگ، رات کی عبادت اور دن کا روزہ، بس اللہ اللہ خیرصلاّ۔

(منقول: نشریات  ماجدی،  ترتیب  جدید  مع  تخریج  و  تحشیہ،  مرتبہ  زبیر  احمد  صدیقی، ۲۰۱۶ء)

٭٭٭

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/