سچی باتیں۔۔۔ لو اسی سے لگاؤ۔۔۔ از مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:52PM Fri 22 Oct, 2021

1927-10-07

ابو طالب اپنی ضعیفی کے زمانہ میں بیمار پڑتے ہیں، اور بیماری بہت طول کھینچ جاتی ہے۔ابو جہلؔ، ولید بن مغیرہؔ، عاص بن وایلؔ اور ریاست مکہ کے دوسرے رئیس اور سردار آپس میں مشورہ کرتے ہیں، کہ اگر ابو طالب کا انتقال ہوگیا، اور اس کے بعد ہم نے محمد سے انتقام لینا چاہا، تو لوگ کہیں گے ، کہ ابو طالب کی زندگی میں کچھ نہ بول سکے، اور اُن کی آنکھ بند ہوتے ہی یہ بے مروتی اور بدسلوکی شروع کردی، اس لئے بہتر یہ ہے کہ ابو طالب کی زندگی ہی میں ان کو اُن کے بھتیجے کی تکلیف وروش کی بابت خبرکردی جائے، اور اُنھیں کے سامنے اس کا فیصلہ کرلیاجائے۔ اس مشورہ کے بعد یہ بڑے بڑے ’’لیڈرانِ قوم‘‘ ابو طالب کے بستر مرگ کے گرد جمع ہوئے، اپنی شکایتیں پیش کیں، ابو طالب نے بھتیجے کو بُلوابھیجا۔ حضورؐ  تشریف لائے۔ بدباطنوں نے بیٹھنے کی جگہ تک نہ دی۔ پائیں میں تشریف فرماہوئے۔ ’’قومی لیڈروں‘‘کے مطالبات سُنے۔ جواب میں ارشاد ہوا، کہ ’’میں تو صِرف ایک بات کہناچاہتاہوں، جس کے مان لینے سے سارا عرب تمہاری طرف جھُک آئے گا، اورسارے عجم کا خراج تمہیں ملنے لگے گا‘‘۔ یہ سنتے ہی جاہ ومال، امارت وریاست کے بھوکوں کے مُنہ میں پانی بھرآیا۔ ابو جہلؔ نے ہمہ تن شوق واشتیاق بن کر کہا، کہ ’’ایسی ایک بات کیا، اگر دس باتیں بھی کہو تو ہم ماننے کو تیار ہیں‘‘۔ دین ودنیا کے سردارؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ’’وہ ایک بات ، کلمۂ لاالہ الا اللہ ہے اور بس‘‘!

یہ واقعہ جزئی اختلافات کے ساتھ مُسند امام احمدؔ، جامع ترمذی، اور تفسیر کی قدیم ومشہور کتابوں میں درج ہے۔ سرور کائناتؐ  کی زبان مبارک سے یہ آخری اور مختصر جواب سُن کر ابو جہلؔ اوراُس کے لفٹنٹوں پر جو کچھ گذری، وہ تو گذرچکی، یہ فرمائیے ، کہ اس مبارک ارشاد کو سُن کر خود آپ پر کیا گذری؟ آپ کو خفیف سی توقع بھی اس جواب کی تھی؟ آپ کی عقلیت اور روشن خیالی، آپ کی دانشمندی اور معاملہ فہمی، آپ کی دانائی اور خوش تدبیری کو اس جواب سے کیسا سخت صدمہ پہونچا؟ آپ منتظر اس کے ہوئے، کہ قومی اسکول اور کالج کھولنے کا حکم ملے گا ، قومی یونیورسٹی کی اسکیم پیش فرمائی جائے گی، کسی لشکر جرار کی تیاری کی بابت ارشاد ہوگا، کسی بڑے صنعتی کارخانہ کے قائم کرنے کی ہدایت ہوگی، کسی بڑی تجارتی کمپنی کے افتتاح پر زور دیاجائے گا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تجارتی سود کی برکتیں، سودی کاروائی کی فضیلتیں ارشاد ہوں گی! یہ کوئی بھی توقع پوری نہیں ہوتی اور ارشاد ہوتاہے تو صرف یہ، کہ اپنے ذہن ودماغ، اپنے نفس وخیال کے ترشے ہوئے تمام بتوں سے قطع نظر کرکے، اکیلے اپنے اللہ پر بھروسہ ، اور اسی کی یکتائی کا کلمہ پڑھو!

بڑی بڑی ترقی یافتہ، مہذب اورمتمدن قوم اس وقت بھی آباد تھیں۔ رومہؔ وفارس’ کی زبردست شہنشاہیاں اُس وقت بھی قائم تھیں۔ قیصر وکسریؔ کے جاہ وحشم کے نظارے، اُس وقت بھی آنکھ کو خیرہ کررہے تھے۔ ہندوستان ؔوایرانؔ، چینؔو مصرؔ، یونانؔو رومہؔمیں بڑے بڑے علمی اور تمدنی مرکز قائم ہوچکے تھے، اور بعض اُس وقت تک نہ تھے، ’’علوم وفنون‘‘ اُس وقت بھی ترقی پر تھے، تجارتوں اور صنعتوں کا اُس وقت بھی فروغ تھا، مصوّری ونقاشی، ڈراما اور موسیقی کی گرم بازاری اُ س وقت بھی تھی۔ فلسفہ ومنطق، ہیئت وطب، ریاضی وتاریخ کے ماہرین فن و ’’اساتذہ‘‘ باکمال اُس وقت بھی پیدا ہوچکے تھے، لیکن یہ اُمّی معلّم ، دنیوی ترقی، مادّی عروج، مالی فلاح کا ذریعہ بھی اِن میں سے کسی کی تقلید وپیروی نہیں بتاتا، بلکہ کہتاہے تو صرف یہی، کہ علم وفن، تہذیب وتمدن، مالیات واقتصادیات کے تمام معبودان باطل کو پاش پاش کرکے اپنی لَو اُسی ایک اور اکیلے ،یکتا وبے ہتا، اسباب آفریں کی ذات سے لگالو ! لا الہ الا اللہ۔