راجیہ سبھا کو سنگھ سے بچانا مسلمانوں پر فرض ہے

از: حفیظ نعمانی
مسلم ماہر تعلیم کمال قادری صاحب نے پریس سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’مایاوتی بی جے پی سے سمجھوتہ نہیں کرے گی‘‘ یہ بات انھوں نے اس بنیاد پر کہی ہے کہ مایاوتی نے ان سے کہا ہے۔ مایاوتی نے اس سے پہلے دوبا ر بی جے پی سے مل کر حکومت بنائی ہے اور ایک بار ملائم سنگھ کے ساتھ مل کربھی حکومت بنائی لیکن ہر بار ان کی شرط یہ رہی کہ دونوں پارٹیوں کا وزیر اعلیٰ چھ چھ مہینے رہے گا۔ اور تینوں بار مایاوتی پہلے وزیر اعلیٰ بنیں اور پھر دوسرے کو موقع نہیں دیا۔ اگر اب ان کے سامنے ایسی صورت آتی ہے تو ان کی شرط پھر وہی ہوگی اور کوئی ان کی اس شرط کو نہیں مانے گا کہ پہلے وہ وزیر اعلیٰ بنیں اور مایاوتی یہ برداشت نہیں کریں گی کہ وہ کسی وزیر اعلیٰ کے ماتحت رہ کر کام کریں۔ کمال فاروقی صاحب ان لوگوں میں نہیں ہیں اور نہ مولانا کلب جواد ان میں ہیں جو پیسے لے کر حمایت دیں۔ ان دونوں کو ملائم سنگھ سے شکایت ہے۔ فاروقی صاحب تو اس لیے ناراض ہوں گے کہ ۲۰۱۲ ء میں انھوں نے ملائم سنگھ کی حمایت کی تھی ، بعد میں تعلق بھی ختم کرلیا اور مولانا کلب جواد صاحب کو شکایت ہے کہ شیعہ وقف بورڈ میں اب تک وہ ہوتا تھا جو وہ چاہتے تھے لیکن اکھلیش کی حکومت میں بار بار کہنے کے باوجود وہ ہورہا ہے جو ان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ شیعہ وقف بورڈ سے ہم سنی وقف بورڈ کے مقابلہ میں کہیں زیادہ واقف ہیں، ہمارے دوست اور ہمارے ہی بنائے ہوئے ایم ایل اے امتیاز حسین (بابومیاں) کئی برس شیعہ وقف بورڈ کے کنٹرولر رہے ہیں اور نہ جانے کتنے ان شیعہ دوستوں نے جو لکھنؤ کے تھے اور زیادہ تر الٰہ آباد بنارس علی گڑھ وغیرہ کے تھے اور وہ اپنا معاملہ ہمارے پاس لے کر آتے تھے اور ان کے جائز مطالبات پورے ہوجاتے یا معذرت کرلی جاتی تھی۔ ان دنوں میں ہی معلوم ہوا تھا کہ کس کس کے پاس کون وقف ہے اور کو ن ان سے وہ کرانا چاہتا ہے جو صحیح نہیں ہے۔ اور وہ نذرانہ لے نہیں سکتا کہ انہیں بورڈ سے الگ ہونے کے بعد بھی لکھنؤ میں ہی رہنا ہے اور حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ مرنے کے بعد ہمیں بھی ہر بات کا جواب دینا ہوگا۔ اسی زمانہ میں امتیاز صاحب سے بھی بعض حضرات ناراض ہوگئے تھے، شیعہ اوقاف اترپردیش میں سنیوں کے اوقاف سے بہت زیادہ بڑے ہیں اور اسی لیے جو کوئی کنٹرولر ہوتا ہے اس سے متوالیانِ ذیشان سے اختلاف ہوجاتا ہے۔ ہم مایاوتی کے مخالف نہیں ہیں لیکن ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ صرف اپنا خزانہ بھرتی ہیں۔ انھوں نے سیاسی زندگی کی ابتدا میں کہا تھا کہ میرے دادا نے ۳۰ بیگھا زمین میرے باپ کو دی تھی کہ میری پوتی پڑھنا چاہتی ہے اس کی آمدنی سے وہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھانا، میں اب کچھ دلتوں کے لیے کرنا چاہتی ہوں تو سب یہ برداشت نہیں کرتے کہ ایک چماری کے پیٹ سے پیدا ہونے والی دلت لڑکی حکومت میں حصہ دار بنے اور اس کے بعد آج کس کو معلوم نہیں کہ کتنے لاکھ کروڑ کی جائیداد ان کے پاس ہے۔ اس پورے عرصہ میں ایک بار بھی ان کے کسی بھائی کا ذکر نہیں آیا۔ وزیر اعظم کی نوٹ بندی کے چکر میں پڑ کر پہلی بار ایک صورت ٹی وی پر دیکھی کہ یہ مایاوتی کے بھائی ہیں اور ۵۰ کمپنیوں کے مالک ہیں۔ یہ شہرت تو گلی گلی گھوم رہی ہے کہ وہ ٹکٹ پیسے لے کر دیتی ہیں اور یہ صرف ان کے ساتھ ہے۔ یا بی جے پی کے ناراض لیڈر الزام لگاتے ہیں کہ امت شاہ نے پیسے لے کر ٹکٹ دئے ہیں۔ ان کے علاوہ ملائم سنگھ اکھلیش یادو راہل گاندھی راج ببر کسی پر کیوں کسی نے الزام نہیں لگایا؟ مایاوتی یا تو اپنی ہیں یا دلتوں کی ہیں۔ ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۲ء تک انھوں نے ۵ سال حکومت کی اس زمانہ میں انھوں نے نہ جانے کتنے دلتوں کے گاؤں کو امبیڈکرگاؤں بنایا۔حالاں کہ وہ جانتی تھیں کہ ۲۰۰۸ء میں مسلمانوں نے پوری طرح ا نہیں ووٹ دئے تھے لیکن انھوں نے مسلمانوں کے گاؤں کی طرف جانے والی ایک سڑک پر بھی دھیان نہیں دیا اور جتنے ہزار کروڑ کے ہاتھی بنا ڈالے اور جتنے ہزار کروڑ انھوں نے مورتیاں اور مورتیوں کے مندر بنانے میں خرچ کردئے اس سے آدھے بلکہ چوتھائی بھی مسلمانوں کے لیے کردئے ہوتے تو ۲۰۱۲ء میں وہی واپس آتیں۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی کی سنتی نہیں اور انہیں بڑوں کو ذلیل کرکے خوشی ہوتی ہے۔ کیا ہم وہ دن بھول جائیں گے کہ لکھنؤ کے علما ان سے ملنے گئے تو سب کے جوتے اتروائے گئے اور جب خود کمرہ میں آئیں تو جوتے پہنے ہوئے تھیں۔ جبکہ مسلمانوں نے دلتوں سے چھوت چھات کا معاملہ نہیں رکھا۔ وہ ہندوؤں کے لیے جو بھی ہوں اسلام میں ہر انسان انسان ہے۔ وہ نہا دھو کر پاک ہوجائے تو ہماری مسجد میں امام بھی بن سکتا ہے۔ اور ہم نے خود مدینہ کے چند ا سپتال میں اس آدمی کے پیچھے نمازپڑھی جو وارڈوں میں فلش دھونے پر ملازم تھا اور 1967میں علی گڑھ میں جب بی پی موریہ اور ڈاکٹر بصیر مل کر الیکشن لڑ رہے تھے تو بھنگی مسلم بھائی بھائی کے نعرے لگتے تھے۔ اور اس رشتہ کو موریہ صاحب نے ہی توڑا۔ بصیر صاحب نے نہیں، وہی راجیہ سبھا کی لالچ میں کانگریس میں چلے گئے۔ یہ بات جس نے بھی پھیلائی ہو لیکن صوبہ میں ہر جگہ پرچے میں ہے کہ مایاوتی اگر اکثریت میں نہیں آئیں تو وہ بی جے پی کے ساتھ ملک کر حکومت بنا سکتی ہیں لیکن وہ انکار کریں یا نہ کریں ہمیں توقع نہیں کہ وہ کسی سے بھی مل کر حکومت بنائیں گی اور نہ بی جے پی سے توقع ہے کہ وہ مایاوتی سے مل کر حکومت بنائے گی۔ مسلمانوں کے بارے میں سوچنے والوں کو اگر مسلمانوں کا وقار عزیز ہے تو وہ جانتے ہیں کہ اگر اترپردیش کا الیکشن بی جے پی جیت گئی تو راجیہ سبھا میں اکثریت بی جے پی کی ہوجائے گی تو انہیں یہ مشورہ دینا چاہیے کہ جہاں سیکولر امیدوار جیت رہا ہو وہ ایس پی کا ہو یا بی ا یس پی کا یا کانگریس کا اس کوووٹ دینا چاہیے اور جو یہ سوچ کر کسی پارٹی کی حمایت کررہا ہے کہ وہ اپنی ذات کے لیے وہ کرالے گا جو اس کا مقصد ہے تو وہ مسلمان کی بھلائی کا سبق نہ سنائے۔ ہمارے قلم سے کانگریس کے لیے جو بھی نکلا ہے وہ قارئین نے پڑھا ہے لیکن اس وقت ہم اس کے اس امیدوار کو ووٹ دینے کی اپیل کرنے پر مجبور ہیں جو بی جے پی کے امیدوار کو ہرا رہا ہو اور اس امیدوار کی بھی کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں جو بی ایس پی کا ہو اور بی جے پی کو ہرانے کی طاقت رکھتا ہو۔ ہمارا مقصد صرف بی جے پی کو دور رکھنا ہے صرف اس لیے کہ راجیہ سبھا میں وہ کمزور رہے، اللہ گواہ ہے کہ بہار کے درد مند مسلمانوں کے فون کا تانتا لگا ہوا ہے کہ یوپی میں کیا ہورہا ہے؟یہ وہ حضرات ہیں جنھوں نے ہمارے کہنے پر ہی اویسی صاحب کو بیرنگ واپس کردیا تھا۔ انشاء اللہ اترپردیش میں بھی مسلمانوں کو کسی کے مشورہ کی ضرورت نہیں ہے اسے معلوم ہے کہ اسے اس الیکشن کے ذریعہ راجیہ سبھا کو مودی کی اکثریت سے بچانا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اسے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟
موبائل نمبر:9984247500