سنڈے میگزین کے تازہ شمارے (۳۰!اپریل تا۶مئی) میں دونئے محاورے نظر سے گزرے ۔یہ ٹھیک ہے کہ زبان وہی برقرار رہتی اور وسعت پاتی ہے جس میں انجذاب کی صلاحیت ہو،یعنی وہ دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر جذب کرکے ان کو اپنے طور پر نئے معنی بھی پہناسکے۔لیکن کسی بھی زبان میں محاوروں سے چھیڑ چھاڑنہیں کی جاتی۔
مذکورہ شمارے میں ایک ادیبِ طبیب شیر شاہ سید کا انڑویوشائع ہوا ہے جسے تحریر کرنے والے بھی ایک شاعر اور ادیب ڈاکٹر نثار احمد نثارہیں ۔ڈاکٹر شیر شاہ کے افسانوں کے مجموعوں کی تعداد ۸ہے اور وہ ۱۲ برس کی عمر سے لکھ رہے ہیں۔یہ خود انھوں نے کہا یا ڈاکٹر نثار کا سہو ہے کہ ’’سرکاری اسپتال بد عنوانوںکے ہاتھ چڑھ گئے ہیں‘‘۔حضرت ہاتھ چڑھنا یہ محاورہ ہے نہ روز مرہ۔یہ’’ ہتھے چڑھنا ‘‘ ہوتا ہے ۔ اسی طرح یہ ادیب طبیب فرماتے ہیں ’’بہت سے اینکرز کو دیکھ کر مجھے رحم آتا ہے ،وہ اپنی روٹیاں سیدھی کررہے ہیں‘‘۔یہ پڑھ کر ہمیں بھی اردو پر رحم آیا ۔’’روٹیاں سیدھی کرنا کہاں کا محاورہ آیا؟جوتیاں سیدھی کی جاتی ہیں یاالّو سیدھا کیا جاتا ہے جو نامعلوم کیوں ٹیڑھا ہوجاتا ہے اورکیسے سیدھا ہوتا ہے ۔ڈاکٹر صاحب کو شکوہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا میں جو اینکربنے بیٹھے ہیں انھیں اردو زبان وادب سے کچھ لینا دینا نہیں،نہ وہ ٹھیک اردو بولتے ہیں اور نہ انگریزی ٹھیک سے بولتے ہیں۔اس جملے کا آخری حصہ بھی غیر ضروری ہے اور اسے ’’انگریزی ‘‘ پر ختم ہوجانا چاہیے۔اب چونکہ ’’روٹیاں سیدھی کرنا ‘‘ ایک ادیب کے منہ سے نکلاہے چنانچہ احتیاطاًکئی لغات بھی دیکھ ڈالیں کہ شاید یہی صحیح ہو۔یہ روٹیاں تو سیدھی نہ ہوئیں البتہ روٹی کے حوالے سے بہت سے محاورے مل گئے ۔نوراللغات میں روٹی کا پہلا ہی مطلب پریشان کن ہے ۔مطلب دیا ہے ’’مسلمان مُردے کے چہلم کا کھانا‘‘محاورے میں ’’روٹی اڑجانا ،روٹی پر بوٹی رکھ کر کھانا ،روٹی پر روٹی رکھ کر کھانا ،روٹی چپڑنا ،روٹی دینا،روٹی ڈالنا ،روٹی کا مارا ،روٹی کمانا،روٹی کو رونا،روٹیاں توڑنا،روٹیاں لگنا،روٹیوں پر پڑنا‘‘ وغیرہ ۔ لیکن روٹیاںسیدھی کرنا نہیں ملا۔یہ محاورہ مذکورہ دوڈاکٹروں کی ایجاد ہے۔امید ہے کہ شیر شاہ سید برا نہیں مانیں گے کیونکہ ان کا ارشاد ہے کہ ’’ادیبوں میں تنقید(سہنے ) کا حوصلہ نہیں،ہر قلم کار اپنی توصیف چاہتا ہے۔‘‘
اردوکے حولے سے کچھ ذکر رشید حسن خان کا ہوجائے ۔مرحوم نے زبان کے حوالے سے بڑامؤقر کام کیاہے۔ان کے یہ جملے تمام لکھنے والوں ،استادوں اور طالبانِ علم کے لیے رہنما ہیں کہ ’’لفظ کسی طرح لکھاجائے ،یہ املا کا مسئلہ ہے۔جملہ کس طرح لکھاجائے ،یہ انشاکا مسئلہ ہے ۔گویا املااور انشاکا تعلق لکھنے سے ہے۔مگر جو کچھ لکھاگیا ہے،اسے پڑھا بھی جائے گا،یوں تلفظ بھی اس عمل کا ضروی حصہ بن جاتاہے ۔لفظ کا صحیح املامعلوم ہو،یہ ضروری ہے۔یہ بھی اسی قدر ضروری ہے کہ اس لفظ کا صحیح تلفظ معلوم ہو۔عبارت کی خوبیوں اور خامیوں کا تعلق بھی انشا سے ہوتاہے۔‘‘
تلفظ کے حوالے سے ایک بار پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ’’شکوہ اور شکوہ‘‘دونوں ایک طرح لکھے جاتے ہیں لیکن ان کا تلفظ اور معانی مختلف ہیں۔شِکوہ (شِک وہ)بمعنی شکایت،بروزن دعویٰ۔یہ فارسی کالفظ ہے۔عربی میں شکویٰ ہے اور’ ش ‘پر زبر ہے ۔شکوہ میں’ہ‘ کا اضافہ اہلِفارس نے کیاہے۔شکوہ بمعنی دبدبہ،شان۔اس میں پہلے اور دوسرے حرف پر پیش ہے یعنی شُکُوہ۔یہ بھی فارسی کا لفظ ہے۔
میر انیس کا شعر ہے:
ہر جا فرس شُکوہ دکھاتا تھا طور کی
بجلی قدم قدم پہ چمکتی تھی نو ر کی
ہم کئی بار نشاندہی کرچکے ہیں کہ ’’سب سے بہترین‘‘کی ترکیب غلط ہے،صرف بہتریں کہنا یا لکھناکافی ہے۔اسی بات کو رشید حسن خان نے مزید واضح کیاہے اور ہماری معلومات میں بھی اضافہ ہواہے۔انھوں نے لکھاہے کہ’’بہتر اسم صفت ہے،یہ مرکب لفظ ہے اور’بہہ‘اور ’تر‘سے مل کربناہے۔’بہہ‘کے معنی ہیں اچھا۔’تر‘کے معنی ہیںزیادہ۔اس طرح بہتر کے معنی ہوئے زیادہ اچھا یابہت اچھا۔ جب کسی اسم کے ساتھ ’’بہتر‘‘لایا جائے تو پھر اس کے ساتھ’’زیادہ‘‘ جیسے لفظ نہ لکھے جائیں۔مثلاًیہ جملہ کہ’ ’زیادہ بہتر یہ ہے کہ اس کام کو کیا ہی نہ جائے۔‘‘اس جملے میں زیادہ کی ضرورت نہیں،یوں کہ بہتر کے معنی ہیں زیادہ اچھا ۔بہتر کے ساتھ بہت لکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔لغت کے مطابق بِہ فارسی کا لفظ ہے۔(بکسراول وہائے معلقہ)
ایک شعر میں اس کا استعمال دیکھیے:
بھلا ہے یا براجو کچھ کہ ہے تیری عنایت ہے
ہمیں بجلی کا گرنا بھی بہ ازہادانِ رحمت ہے
ہندی میں بھی ایک لفظ ’بِہ‘ہے(بکسر اول)اور مطلب ہے عورتوں کے کان یا ناک کا سوراخ جس میں زیور پہنتی ہیں۔موتی کا سوراخ۔اس کا اردو میں استعمال نہیںہے۔
ایک محفل میں کسی نے ’’ترکی تمام ہوگئی‘‘ کی ضرب المثل استعمال کی تو کچھ لوگ اس کا مطلب پو چھنے لگے کہ کیا یہ ترکی کی حدود یا خلافتِ عثمانیہ ختم ہونے سے متعلق ہے؟ہماری بھی ترکی تمام تھی البتہ یہ معلوم تھا کہ فارسی محاورے ’’ترکی تمام شدن‘‘کا اردو میں ترجمہ ہے،چنانچہ لغت سے رجوع لائے ۔اس کا ایک مطلب تو سامنے کا ہے یعنی ترکوں کی بولی۔مزید ایک قسم کا گھوڑا (ترکی وتازی سناہوگا ) ۔ بطور صفت سپاہی پن ،مردانگی ،غرور ،نخوت وغیرہ۔ترکی تمام کرنا ،جیسے امیر کا شعر ہے:
نگہِ ناز کام کرتی ہے
دم میں ترکی تمام کرتی ہے
ترکی تمام ہونے کا مطلب ہے گھمنڈ جاتا رہنا،غرور ڈہنا (غرور کو نور اللغات کے مرتب نے ڈھایا ہے)غرور ڈہناسے زیادہ عام فہم ہے گھمنڈ نکلنا،خاتمہ ہونا،کچھ باقی نہ رہنا ،ساری بہادری وسپاہ گری نکل جانا ۔امیرہی کا شعر ہے:
اے ترک تو بھی اب نہ کرے گا کسی کو قتل
میں کیا تمام ہوں تری ترکی تمام ہے
ترکی بہ ترکی جواب دینابھی ایک محاورہ ہے جیسے ترکی کے صدر اردوان نے دیا ہے ،اور امیر خسرو کے شعر کا یہ مصرع تو بہت مشہور ہے کہ ’’زبان یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم‘‘۔ہماری ترکی یہیں تمام ہوئی۔