جناب محمد شاہد حنیف صاحب نے لاہور سے الفرقان لکھنو کی مطلوبہ فائلوں کے بارے میں علم وکتاب گروپ پر استفسار کیا ہے، شاہد حنیف صاحب کا شمار اردو مجلات کے چوٹی کے اشاریہ نگاروں میں ہوتا ہے، آپ نے بیسیوں قدیم مجلات کے اشارئے بڑی دیدہ ریزی سے مرتب کرکے ان مجلات کی افادیت کو عام کیا ہے۔
اس طرح علم وتحقیق کے وہ لاکھوں صفحات جو گزشتہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے ادھر ادھربکھرے پڑے تھے، ان سے استفاد کو آسان کردیا ہے، ان اشاریوں سے جہاں ان مجلات کی علمی قیمت کئی گنا بڑھ گئی ہے، وہیں انٹرنٹ پر ان کی دستیابی سے مردوں میں نئی جان ڈال دی ہے، محمد شاہد حنیف کی اس جد و جہد کو علمی دنیا صدیوں یاد رکھے گی۔
معیاری علمی مجلات کی حیثیت قوم کی علمی تحریک کی ایک ڈائری کی ہوتی ہے، یہ ایک غیر مرتب انسائیکلوپیڈیا کی طرح ہوتے ہے، جس میں معلومات تو ہوتی ہیں، لیکن مطلوبہ معلومات تک رسائی کے لئے مدتوں لگ جاتی ہیں۔ لیکن اشاریہ تلاش میں مہینوں اور ہفتوں کا فاصلہ چند سکنڈوں اور منٹوں میں سمیٹ لیتا ہے۔
مجلات میں شائع ہونے والے مضامین، مقالات اور تحقیقات کی عمر بہت محدود ہوتی ہے،انہیں کم ہی دوبارہ کھولا جاتا ہے، بھلا ہو ان یونیورسٹیوں کا کہ ڈاکٹریٹ وغیرہ کے مقالات میں مجلات کو بھی ایک بنیادی مرجع بنادیا،اس ضرورت نے مجلات کے ذخیرے کھنگھالنے اور ان پر پڑی دھول ہٹانے کی ذمہ داری ان اسکالروں پر ڈال دی ہے ، مجلات میں جو مضامین اور مقالات شائع ہوتے ہیں ، ایک اندازے کے مطابق ان میں سے ساٹھ فیصد سے زیادہ تعداد کو کتابی شکل دیکھنا نصیب نہیں ہوتا، اس طرح وہ عظیم مفکرین اور مولفین جنہیں اپنی کتابوں کی اشاعت کے لئے وسائل نہ آسکے گمنامی کے تاریک غار میں چلے جاتے ہیں۔ یہ اشارئے اب ان پر نئی روشنی ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔
چونکہ ہمارا زیادہ تعلق عربی اور اردو لٹریچر سے ہے تو کہ سکتے ہیں کہ عربی زبان کے کئی ایک معیاری مجلات علامہ رشید رضا کا المنار، احمد حسن زیات کا الرسالہ ، کرد علی کا المقتبس، احمد زکی شادی کا اپالو وغیرہ بہت سارے قیمتی مجلات اشاریوں کی ترتیب کے بعد از سرنو شائع ہوچکے ہیں، اور کئی ایک مجلات ٹیکسٹ میں سرچ کی سہولت کے ساتھ بھی دستیاب ہوچکے ہیں۔ المنار کا اشاریہ جاپان سے اور الرسالہ کا چار جلدوں میں مصر سے کافی معیاری اور مفصل ہیں۔
ارو مجلات کے اشارئے کافی تاخیر سے شروع ہوئے ہیں، اور ان میں ایک بڑی تعداد غیر معیاری اور عجلت میں تیارکی گئی ہے، خدابخش لائبریری پٹنہ نے اپنے متحرک سربراہ عابد رضا بیدار کے دور سے مجلات کے اشاریوں کی طرف خاصی توجہ دی ہے، لیکن جو یہاں سے شائع شدہ جو اشارئے ہماری نظر سے گزرے ہیں بہت ہی ناقص ہیں، اور ان کی حیثیت دارالکتب العلمیۃ بیروت کی مطبوعات کی سی ہوگئی ہے، کہ یہاں سے کوئی کتاب چھپنے کے بعد دوسرا ناشر اس کتاب کا کوئی دوسرا اور معیاری ایڈیشن شائع کرنے کا خطرہ لینا نہیں چاہتا، لیکن اس چھپی ہوئی کتاب کی عبارتوں پر کوئی محقق بھروسہ کرنا بھی نہیں چاہتا، غیر معیاری اور ناقص اشاریوں کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ان کے بھروسہ پر نہیں کہا جاسکتا کہ کسی مجلہ میں کسی مقالہ نگار سے متعلق جملہ مواد آگیا ہے۔
دارالمصنفین اعظم گڑھ نے اپنے وسائل کی کمی کے باوجود معارف کی پوری فائل اسکین کرکے بڑا کارنامہ انجام دیا ہے،
اس تاریخی ادارے نے معارف کے اشارئے تین جلدوں میں مرتب کرنے کا پروجکٹ بنایا ہے، مضامین کے لحاظ سے ترتیب شدہ ڈاکٹر جمشید احمد ندوی کی ترتیب کردہ پہلی جلد منظر عام پر آچکی ہے، لیکن عنوانات اور مصنفین کی ترتیب سے یہ اشاریہ مکمل نہ ہونے کی وجہ سے فنی طور پر بلندی کے باوجود اس کی افادیت محدود ہے، اور اس سے استفادہ وقت طلب ہے، ڈاکٹر نگار سلطانہ ظہیر کے زیر سرپرستی ڈاکٹر محمد سہیل شفیق کا اشاریہ بہت مفید ہے، دار المصنفین کے بعض رفقاء کے اس پر تحفظات کے باوجود اس کی افادیت کچھ کم نہیں ہے، خاص طور پر مصنفین اور عنوانات کی ضرورت اس سے کافی حد تک پوری ہوتی ہے۔ ترجمان القرآن ، زندگی رامپور کی اسکیننگ انفرادی طور پر ذاتی دلچسپیوں سے مختلف افراد نے کی ہے، ترجمان القرآن کے دو اشارئے ترتیب دئے جاچکے ہیں ایک اشاریہ نعیم الدین زبیری صاحب کا ہے جومضامین کی ترتیب کے ساتھ ہے، مصنفین اور عناوین کی ترتیب پر نہیں ہے، محمد شاہد حنیف کا اشاریہ جامع اور مفید ہے، اس میں بھی بعض نواقص کی نشاندہی ہورہی ہے، الکمال للہ ، ایسے کاموں میں ایک آنچ رہ ہی جاتی ہے، لیکن جب محنت اور عجلت کے بجائے محنت اور معیاری بنانے کی کوششیں جب نظر کے سامنے ہوں تو پھر ان کی قدر اور تعریف ہونی چاہئے۔ صرف نقائص پر توجہ دینے کا شیوہ اچھا نہیں۔
ہماری نظر سے جو اشارئے گذرے ہیں حجم میں کم ہونے کے باجود مجلۃ المنار کا جاپان سے شائع شدہ اشاریہ بہت پسند آیا، اس میں موضوعات کو فنون اور اقسام کی ترتیب پر تقسیم کئے بغیر براہ راست مفتاح کنوز السنۃ کی ترتیب پر الف بائی ترتیب پر مرتب کیا گیا ہے، محمد شاہد حنیف اور محمد سہیل شفیق کے اشاریوں میں مصنفین کا اشاریہ تشنہ ہے، ان میں شمارہ اور نمبر صفحات کا اہتمام کیا گیا ہے، اس سے ہر جلد اور صفحہ کو کھول کر دیکھنا پڑتا ہے، جس میں بہت وقت ضائع ہوتا ہے۔ ہماری ناقص رائے میں اشاریوں میں جس طرح سلسلہ وار عنوانات کو اہمیت دی جاتی ہے، اسی طرح مصنفیں کے نام کے نیچے مضمون کا عنوان بھی دینا چاہئے، تاکہ پہلی نظر میں خلاصہ سامنے آجائے۔ ہم جیسا عام قاری مضامین کی تلاش میں مصنف کے ذریعہ مضمون کی تلاش کو اول ترجیح دیتا ہے۔
محمد شاہد حنیف صاحب سے الفرقان لکھنو کے اشارئے کی تیاری جان کر بڑی خوشی ہوئی، اہل علم حضرات کو اس کار خیر میں اپنا بھی کچھ حصہ ڈالنا چاہئے، الفرقان کی بہت ساری فائلیں اسکین ہوچکی ہیں، لہذا جن کے پاس فائل مکمل نہیں ہے وہ ناقص فائلوں کی نشاندہی کریں، تاکہ جن کے پاس یہ ناقص فائلیں برقی یا ورقی حالت میں موجود ہیں، یا ان کی دسترس میں ہیں وہ ان کی اسکیننگ پر توجہ دیں، اس طرح بہت سارا علمی ذخیرہ قابل استفادہ ہوجائے گا، اور بہت ساری علم دوستوں کی دعائیں مل جائیں گے، اور وہ اپنے محسنین کے کارناموں کی حفاظت کا ذریعہ بنیں گے۔ اس وقت الفرقان لکھنو، برہان دہلی ، تجلی دیوبند ، زندگی رامپور کی بہت ساری فائلیں اسکین شدہ ادھر ادھر پڑی ہیں، چند شمارے ناقص ہیں، ان کی تکمیل پر احباب توجہ دیں۔ زیادہ کام ہوچکا ہے، تھوڑا سا نقص باقی ہے۔ اس تھوڑی سی توجہ سے بڑا کام ہوسکتا ہے،اللہ حامی وناصر ہو۔