کیسے کہیں کہ غلطی کس کی ہے؟(حفیظ نعمانی)

Bhatkallys

Published in - Other

10:16AM Sun 27 Sep, 2015
حفیظ نعمانی مکہ مکرمہ میں حج کے سب سے اہم رکن عرفات کے قیام کے بعد اور منیٰ کے خیموں میں واپس آنے کے بعد جو روح کو تڑپا دینے والا حادثہ پیش آیا۔ اس کی خبریں سب سے پہلے ٹی وی سے سنیں جن میں کہا جارہا تھا کہ یہ دردناک حادثہ شیطان کو کنکری مارنے کے دوران ایسے ہی hafeez-noumaniپیش آیا جیسے پہلے بھی چند حادثے ہوچکے ہیں۔ میڈیا اخبار کی شکل میں ہو یا ٹی وی کی یا ریڈیو کی ان کا مزاج ہے کہ بغیر کسی تحقیق کے حکومت کو ذمہ دار قر دے لو۔ چاہے ذمہ داری ہماری ہو۔ کنکری مارنے کے لئے حکومت نے جیسے انتظام کئے ہیں اس کے بعد اگر ایک کروڑ حاجی بھی کنکری مارنے کے لئے آئیں گے تو انہیں کسی طرح کی کشمکش سے گذرنا نہیں ہوگا۔ شیطان کی نشانی کے لئے پہلے تین ستون کافی موٹے اور اونچے بنے ہوئے تھے لیکن اب تین دیواریں بنا دی گئی ہیں کہ اندھا بھی مارنا چاہے تو وہ کامیاب ہوجائے اور پل کو پانچ منزل بنا دیا گیا ہے جس میں سیڑھیاں نہیں ہیں بلکہ ہر پل کا رابطہ سڑکوں سے ہے اور جو سڑکیں جس منزل کی طرف آتی ہیں ان سے کوئی دوسرے پل پر آہی نہیں سکتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان پلوں پر بڑے بڑے اے سی پلانٹ لگا دیئے گئے ہیں جن کے پاس سے گذرنے والے انتہائی گرم موسم اور تیز دھوپ میں بھی سردی محسوس کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے سخت ہدایت ہے کہ حاجی نہ کوئی بیگ لائے گا نہ کوئی اور سامان۔ اسی طرح بوڑھے مرد یا عورتوں کو پولیس پل سے پہلے ہی روک دیتی ہے اور ان کی طرف سے دوسروں کو کنکری مارنے کی ہدایت دیتی ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی کو کمزوری کا احساس ہو یا گرمی کی وجہ سے چکر آجائیں تو پولیس انتہائی پیار سے اسے اے سی کے پاس سایہ میں بٹھا دیتی ہے اور کنکری کے بعد اسے خیمہ تک پہونچاتی ہے۔ اس حادثہ کی وجہ صرف وہ فطرت اور نفسیات ہے جو ہم ہر دن اپنے شہروں میں دیکھتے ہیں کہ ہم پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں ہمارے پاس ریل کا ٹکٹ ہے، ہماری سیٹ ریزرو ہے لیکن جیسے ہی ٹرین آئے گی ہم کوشش کریں گے کہ اُترنے والوں کے اترنے سے پہلے ہم اندر گھس جائیں۔ جبکہ ریزرویشن کے بعد ہم سب کے اُترنے کے دس منٹ کے بعد بھی ڈبہ میں جائیں گے تو ہماری برتھ خالی ملے گی۔ ٹرین کے علاوہ ٹکٹ کی لائن ہو یا کسی بھی راشن کی دکان کی لائن ہو ہم کوشش کریں گے کہ ہمیں لائن سے ہٹ کر وہ چیز مل جائے چاہے سب لائن میں کھڑے رہیں۔ انتہائی ذمہ دار اور مکہ میں ہی پیدا ہوکر اب دو بچوں کا با پ ہوجانے والا ہمارا ایک نواسہ آجکل ہمارے پاس ہے۔ اس کا نام بھی مکّی ہے جو علاج کی وجہ سے آیا ہوا ہے۔ اس کی معلومات ایک معلم سے کم نہیں ہیں اور اس واقعہ کے بعد سے اب تک ہر پل کی مستند خبر اس کے پاس اس جہ سے آرہی ہے کہ اس کی ماں بہن بھائی بیوی بچے سب مکہ میں ہیں اور وہ خود ایک پانچ ستارہ ہوٹل کی انتظامیہ میں ہے اور اس کا چھوٹا بھائی لقمان ایئرپورٹ پر ملازم ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس سال نہیں ہمیشہ ہر حاجی جو ہندوستان جیسے غیرتربیت یافتہ ملک والا ہو وہ عرفات اور مزدلفہ تک تو معلم کے ہر حکم کی پابندی کرتا ہے۔ اس کے بعد اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ حاجی ہوگیا پھر اس کے بعد وہ معلم کا کوئی حکم ماننا غلامی سمجھتا ہے۔ ہر معلم کے پاس تربیت یافتہ اسٹاف ہوتا ہے جن میں ایک مرشد ہوتا ہے۔ معلم کا جھنڈا اس کے پاس رہتا ہے وہ بتاتا ہے کہ گروپ کو کس وقت سے کس وقت کنکری مارنے کے لئے جانا ہے۔ حاجیوں کی ضد یہ ہوتی ہے کہ ہم جلد سے جلد کنکری مارلیں اور قربانی کرادینے کے بعد سر کے بال منڈوا دیں یا کٹوادیں اور اہرام کھول دیں۔ ہر حاجی کے دماغ میں یہ ہوتا ہے کہ معلم کی پابندی اس لئے ضروری ہے کہ حج کا کوئی رکن نہ رہ جائے اور جب ہم حاجی ہوگئے تو معلم کی پابندی ختم اسی زعم میں وہ بغاوت پر اترتے ہیں اور پابندی توڑکر اور اپنے طور سے کنکری مارنے کے لئے چل پڑتے ہیں۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام میں جو پابندیاں ہیں ان میں سب سے اہم اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔ اطیعواللہ و اطیعو الرسول والی الامرمنکم۔ اللہ کی اطاعت کرو اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور جسے تم نے اپنا امیر مان لیا ہو۔ اور اس کی بھی تاکید ہے کہ کہیں بھی سفر کرو ایک کو اپنا امیر بنالو پھر اس کے حکم پر عمل کرو۔ حج میں تو سب سے زیادہ سکھایا جاتا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی خوشی کے لئے تمہیں وہ وہ کرنا ہے جو تم نے کبھی نہیں کیا۔ جیسے اہرام بغیر سلے دو کپڑوں میں حج کرنا۔ یا میدان عرفات میں ظہر اور عصر نماز ایک ہی وقت میں اسی امام کے پیچھے پڑھنا کتنے طواف کرنا۔ صفا مروہ پہاڑیوں کے درمیان سات بار دعائیں پڑھتے ہوئے چلنا، یہ سب وہ کام ہیں جو معلم کے مددگار حاجیوں کو بتاتے رہتے ہیں۔ پھر یہ کیسی ضد ہے کہ ہم سب سے پہلے کنکری مار لیں سب سے پہلے ہماری قربانی ہوجائے اور سب سے پہلے ہم بال صاف کراکے اہرام کھول کر اپنے کپڑے پہن لیں۔ وہ اہرام جو حاجی کی شان ہے اور اسی کے لئے کہا گیا ہے کہ ’’نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز‘‘ اسی شان کو مٹانے میں ایسی عجلت نہ اپنی جان کی پرواہ کریں نہ دوسرے کی۔ انتظام اور تیاری کا تو یہ عالم ہے کہ آدھے سے زیادہ حاجی میٹرو سے جاتے ہیں جو اُن کے خیموں سے بہت قریب ملتی ہے وہ سیدھی ان پلوں میں سے اس پر اُتار دیتی ہے جہاں شیطان کی علامت دیوار ہے اور حاجی کنکری مارکر اسی میٹرو سے اپنے کیمپ میں واپس آجاتے ہیں اور یہ سب کام معلم کے مرشد کراتے ہیں۔ حاجیوں کو بار بار بتایا جاتا ہے کہ مفتئ کرام نے فتویٰ دے دیا ہے کہ اگر کنکری مارنے، قربانی کرانے اور بال منڈوانے کی ترتیب میں غلطی ہوجائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے یہ فتویٰ شاید اس لئے دینا پڑا ہوگا کہ اب ہر حاجی اپنی قربانی خود نہیں کرتا بلکہ کچھ حضرات بینک سے کوپن لے لیتے ہیں اور مدرسہ صدیقیہ یا دوسرے دینی ادارے اپنا انتظام کرتے ہیں میرے نواسے میاں مکّی کے کچھ عرب دوست گروپ بناکر حاجیوں کے لئے قربانی کرتے ہیں اور آج بھی کچھ وہ حضرات ہیں جو بکرا خود خریدتے اور خود ذبح کرکے گوشت بھی لے آتے ہیں۔ ایسے میں یہ بہت مشکل ہے کہ ہر حاجی کو یہ معلوم ہو کہ میرے نام کے بکرے یا دوسرے کسی جانور کی قربانی ہوگئی؟ معلم حضرات اپنے ٹائم کی پابندی کرتے ہیں اور قربان گاہ میں آدمی کو جانور کا پابند ہونا پڑتا ہے۔ ہر جگہ حج کو جانے سے پلے ہر شہر اور قصبہ میں عازمین حج کو تربیت دی جاتی ہے۔ اس میں ہر ایک کو بتایا جاتا ہے کہ واپسی کے لئے ایئرپورٹ آنے کے وقت تک ہر قدم پر معلم کی ہدایت پر عمل کریں۔ لیکن اس فطرت کو کیا کیا جائے کہ ڈاکٹر کے بتائے ہوئے پرہیز کی پابندی نہ کرنے کی جو عادت پڑی ہے وہ حج میں بھی پرہیز نہیں کرنے دیتی۔ اور جس اہرام کو پہنتے وقت ہر عازم حج کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم شاہی عبا پہن رہے ہیں وہی اہرام حج مکمل ہوتے ہی کانٹوں کی طرح چبھنے لگتا ہے اسے اُتارنے کی عجلت میں معلم سے بھی لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ ہم نہ سعودی حکومت کے وظیفہ خوار ہیں نہ ہمارا کوئی مدرسہ یا اسکول ہے جس کی مدد کے لئے ہمیں سعودی سفارت خانہ کی عنایت کی ضرورت۔ لیکن پوری دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ ایک اتنی زبردست آندھی جس میں آدمی اُڑے جارہے تھے اس میں ایک کرین ٹوٹ کر گرگئی جس کی زد میں آکر شہید ہونے والوں کی تعداد 100 کے قریب تھی اور زخمی بھی سیکڑوں تھے۔ سعودی حکومت نے ہر شہید ہونے والے کے وارثوں کو دس لاکھ ریال اور ایسے زخمیوں کو جو معذور ہوگئے دس لاکھ ریال اور جو ایسے زخمی ہوئے جن کا علاج ہوسکتا ہے ان کا شاہانہ علاج اور ایمبولینس پر لٹا کر سب کو حج کرایا جن کے لئے 150 ایمبولینس منیٰ عرفات مزدلفہ اور شیطان تک لے جائی گئیں اور اس کے علاوہ انہیں پانچ لاکھ ریال اور جو شہید ہوگئے تھے ان کے وارثوں میں سے کسی بھی دو مردوں یا عورتوں کو آئندہ سال حج کا پورا خرچ دیا جائے گا۔ یہ خبر دنیا پڑھ چکی ہے کہ کرین کے گرنے کی تحقیقات سے ثابت ہوگیا کہ بن لادن کمپنی کی کسی حد تک غفلت تھی۔ اب ذرا حساب لگایئے کہ ایک ریال ہندوستان کے 18 روپئے کا ہوتا ہے تو دس لاکھ اور پانچ لاکھ ریال کتنے ہوئے؟ اور یہ بھی کہ حادثہ کی تحقیقات بھی ایک ہفتہ میں ہوگئی جبکہ ہندوستان میں ہر ٹرین اور ہوائی حادثہ کی تحقیقات کے نتیجہ کے انتظار میں نوجوانوں کے بال سفید ہوجاتے ہیں۔ میاں مکی سلمہٗ نے جو اس زمانہ میں وہیں تھے ان کا بیان ہے کہ معاوضہ کے اعلان کے بعد عازمین حج کی بڑی تعداد کرینوں کے پاس گھومتی دیکھی گئی اور ہر کسی کی خواہش تھی کہ ایک آندھی اور آجائے اور ایک بار کرین اور گرجائے تو ہماری چار نسلوں کا انتظام ہوجائے گا اور یہ بھی دنیا کے ہر ٹی وی چینل نے دکھایا تھا کہ سعودی عرب کے شاہ سلمان جو اپنے کو خادم الحرمین الشریفین کہتے اور دیکھتے ہیں مریضوں کی عیادت کرتے ہوئے اسپتالوں میں گھومتے ہوئے دیکھے گئے۔ منیٰ میں ایک سال جو منیٰ کے خیموں میں آگ لگی تھی اس کے بعد اب وہ خیموں کا ایک شہر بنا دیا گیا ہے جو اسی جگہ رہتا ہے حج کے بعد پردے لپیٹ دیئے جائیں گے اور اس کی سفید چھت میلوں تک چمکتی رہتی ہے۔ وہ سارے خیمے آگ پروف ہیں اور ہر ایک میں اے سی لگے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی باتھ روم بنائے گئے ہیں جو شیشے کی طرح چمکتے رہتے ہیں۔ ہر سال ایک بہت بڑا عنصر افریقی حاجیوں کا ہوتا ہے جو کالے حاجی کہے جاتے ہیں ان کے بارے میں یہ سب جانتے ہیں کہ وہ اپنی من مانی کرتے ہیں اور ان کی عورتیں بھی دوسرے ملکوں کے مردوں سے زیادہ طاقتور ہوتی ہیں اس لئے لوگ ان سے کتراتے ہیں۔ حج کا زمانہ ہو یا عام دن سعودی پولیس کے کسی جوان کے پاس نہ لاٹھی ہوتی ہے نہ ڈنڈا وہ صرف زبان اور ہاتھ سے کنٹرول کرتے ہیں لیکن یہ افریقی ان کے قابو میں بھی نہیں آتے اور وہ ہمیشہ ہر جگہ گروپ بناکر چلتے ہیں۔ شبہ یہ کیا جارہا ہے کہ ہوسکتا ہے بھگدڑ کا سبب وہی بنے ہوں۔ بہرحال صحیح خبر ابھی نہیں ہے۔ اور کوشش ہورہی ہے کہ اصل وجہ معلوم ہوجائے۔ پروردگار سب کے درجات بلند کرے اور آئندہ ایسی کوئی دلخراش خبر سننے میں نہ آئے۔ اس لئے کہ حج تو ہر سال ہوگا اور انسان کتنا بھی وسائل والا ہوجائے خاک کا پتیلا ہی رہے گا۔ وہ انتظام تو کرسکتا ہے لیکن کسی ہونی کو روک نہیں سکتا اس لئے کہ اس کے اختیار میں دعا مانگنے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ آیئے ہم سب بھی دعا کریں۔ فون نمبر: 0522-2622300