نوٹ بندی کے پچاس دن: کون جیتا کون ہارا۔۔۔۔از: سہیل انجم

Bhatkallys

Published in - Other

10:53AM Mon 2 Jan, 2017
لیجیے جناب نوٹ بندی کے صبر آزما پچاس دنوں کا طویل وقفہ ختم ہو گیا۔ یہ دن بڑے ہنگامہ خیز رہے۔ پورا ملک ایک نئے قسم کے بحران میں مبتلا رہا۔ سوا سو کروڑ لوگ ان دنوں بینکوں اور اے ٹی ایم مشینوں کے سامنے قطار اندر قطار کھڑے رہے۔ ابتدا میں تو بڑی افرا تفری کا عالم رہا۔ گھنٹوں کھڑے رہنے کے باوجود کسی کو کیش ملا کسی کو نہیں ملا۔ کوئی پرانا نوٹ نئے نوٹ سے بدل پایا کوئی نہیں بدل پایا۔ دہلی جیسے شہر میں بھی بڑی بری حالت رہی۔ یہاں بھی لوگ پتہ کرکے کہ کس علاقے میں کس بینک کے سامنے چھوٹی قطاریں لگ رہی ہیں لوگ گنجان آبادیوں سے نکل کر ان علاقوں میں جا کر لائن لگاتے رہے۔ دہلی میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں آبادی تو بہت ہے مگر بینک بہت کم ہیں او رکچھ علاقے ایسے ہیں خاص طور پر پاش علاقے جہاں آبادی کم اور بینک زیادہ ہیں۔ اس لیے انتہائی عدم توازن رہا۔ کسی بینک کے سامنے ایک کلومیٹر طویل لائن رہی تو کسی کے سامنے ایک فرلانگ کی۔ دیہی علاقوں کی حالت تو اور بھی دگرگوں رہی۔ وہاں تو کئی کئی دنوں تک کیش ہی نہیں پہنچتا تھا۔ عوام کے تمام طبقات انتہائی دشواریوں میں مبتلا رہے۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ پر۔ لائنوں میں لگ کر اور کیش کی قلت کے سبب ایک سو سے زائد افراد کی موت ہو گئی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پچاس دن مکمل ہو گئے تو تمام پریشانیاں دور ہو گئیں۔ وہ اب بھی برقرار ہیں۔ کیش نکالنے کی حد اب بھی موجود ہے۔ اور بھی دوسری دشواریاں ہیں جن کی رپورٹیں اخباروں میں شائع ہو رہی ہیں اور نیوز چینلوں پر دکھائی جا رہی ہیں۔ آگے بھی دکھائی جاتی رہیں گی۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس دوران حکومت اور حزب اختلاف کے لوگ کیا کرتے رہے۔ اگر ایک جملے میں کہا جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن منتشر رہا اور حکومت متحد رہی۔ ایک موقع پر اپوزیشن میں اتحاد نظر آیا تھا جب پارلیمنٹ میں نوٹ بندی پر بحث کا مطالبہ ہو رہا تھا۔ حالانکہ وہ بھی مکمل اتحاد نہیں تھا۔ کانگریس کی قیادت میں حزب اختلاف کے ارکان نے پارلیمنٹ میں کوئی کام نہیں ہونے دیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ نوٹ بندی پر بحث کرائی جائے۔ پہلے کئی روز اس میں نکل گئے کہ بحث ہوگی کہ نہیں ہوگی۔ پھر کئی روز اس میں نکل گئے کہ کس ضابطے کے تحت ہوگی۔ اس پر ٹکراو ¿ کی صورت حال رہی۔ اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ بحث کے دوران وزیر اعظم ایوان میں موجود رہیں اور بحث کا جواب دیں۔ کئی دنوں کی ہنگامہ آرائی کے بعد وزیر اعظم ایوان میں آئے اور انھوں نے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی انتہائی سلجھی ہوئی مگر کاری زخم لگانے والی تقریر بھی سنی اور پھر جو لنچ کے وقفے میں گئے تو لوٹ کر نہیں آئے۔ ایک روز اور آئے لیکن فوری طور پر ایوان ملتوی کر دیا گیا۔ اس دوران بھی وہ ایوان میں بیٹھے رہے لیکن جب ایوان شروع ہوا تو اٹھ کر چل دیے۔ جہاں ایک طرف اپوزیشن اس پر بضد رہا کہ ایوان میں بحث ہو اور وزیر اعظم کے سامنے ہو وہیں حزب اقتدار کی جانب سے بحث نہ کرائے جانے کی پوری کوشش کی جاتی رہی اور وہ اس میں کامیاب رہے۔ اسی دوران اگسٹا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹر کا معاملہ سامنے آگیا۔ پھر کیا تھا حزب اقتدار کے ارکان کے ہاتھوں میں ایک ایشو آگیا۔ انھوں نے اس پر بحث کرانے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ جہاں نوٹ بندی پر حکومت دفاعی پوزیشن میں آگئی تھی وہیں اگسٹا معاملے پر کانگریس دفاعی پوزیشن میں آگئی۔ اس دوران فضائیہ کے سابق سربراہ مسٹر تیاگی کو گرفتار کر لیا گیا۔ سر دست وہ ضمانت پر چھوٹے ہوئے ہیں۔ اس طرح پارلیمنٹ کا پورا سرمائی اجلاس اس قضیے کی نذر ہو گیا اور کوئی کام نہیں ہوا۔ اگر دیکھا جائے تو اس پورے وقفے میں خاص طور پر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا پلڑا بھاری رہا۔ لیکن اپوزیشن پھر بھی پوری طرح متحد نہیں ہو سکا۔ جہاں جنتا دل یو کے سینئر لیڈر اور ممبر پارلیمنٹ شرد یادو اس معاملے پر اپوزیشن کے ساتھ رہے وہیں پارٹی صدر اور بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے وزیر اعظم نریندر مودی کے اس قدم کی حمایت کر دی اور کہا کہ اس سے کالے دھن پر روک لگانے میں مدد ملے گی۔ ادھر ایک اور اپوزیشن لیڈر اڑیسہ کے وزیر اعلی جے بی پٹنائک بھی نوٹ بندی کے حامی نظر آئے۔ اکا دکا دوسرے لیڈر بھی اس کی حمایت کرتے نظر آئے۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن اتحاد کا جو منظرنامہ دیکھنے کو ملا تھا اس میں تقریباً تمام پارٹیاں شامل رہی ہیں۔ بایاں بازو بھی پوری طرح ساتھ رہا اور ایس پی بی ایس پی بھی۔ این سی پی بھی اور اے آئی اے ڈی ایم کے بھی۔ لیکن این سی پی کے لیڈر شرد پوار نے کبھی نوٹ بندی کی حمایت کی اور کبھی مخالفت کی۔ اس طرح اپوزیشن کی مضبوطی میں دراڑیں بھی پڑتی رہیں۔ یہ دراڑیں پھر بھی ہلکی رہیں۔ لیکن کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے جو کہ اس معاملے پر سب سے زیادہ جارحانہ رخ اختیار کیے ہوئے تھے، اس دراڑ کو اور چوڑی کر دیا۔ انھوں نے ایک طرح سے اپوزیشن کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا۔ یہ ان کی نادانی تھی یا کیا تھا کہ انھوں نے پارلیمنٹ کے آخری دن اپنی پارٹی کے کچھ لیڈروں کے ساتھ کسانو ںکے معاملے پر وزیر اعظم سے ملاقات کر لی۔ اس ملاقات کا تو کوئی نتیجہ نہیں براآمد ہوا کیونکہ وزیر اعظم نے بقول راہل گاندھی کوئی وعدہ نہیں کیا۔ صرف اتنا کہا کہ وقتاً فوقتاً ملتے رہیے۔ لیکن اس ملاقات نے اپوزیشن کے اتحاد کو توڑ دیا۔ جس کی امید راہل گاندھی کو بھی نہیں رہی ہوگی۔ حالانکہ ایک سمجھدار لیڈر کے ذہن میں یہ بات ضرور آتی کہ اس وقت حکومت کے خلاف زبردست ماحول بنا ہوا ہے پورے ملک میں ہنگامہ ہے اس وقت وزیر اعظم سے ملاقات مفید ہونے کے بجائے نقصاندہ ہو جائے گی۔ لیکن راہل گاندھی کے دماغ میں یہ بات نہیں آئی۔
اس پوری مدت میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین ٹکراو ¿ کی صورت حال رہی۔ لیکن جس جارحانہ انداز میں حکومت کے لوگ نظر آئے اپوزیشن کے لوگ دکھائی نہیں دیے۔ اگر یہی قدم کسی دوسری حکومت نے اٹھایا ہوتا اور بی جے پی اپوزیشن میں ہوتی تو اس نے پورے ملک میں غضب کا طوفان کھڑا کر دیا ہوتا اور پورے ملک میں آگ لگ گئی ہوتی۔ لیکن اپوزیشن ہنگامہ کرنے میں ناکام رہا۔ لے دے کر صرف راہل گاندھی بولتے رہے۔ حالانکہ اب راہل گاندھی کو لوگ کچھ سنجیدگی سے لینے لگے ہیں۔ لیکن پھر بھی ایک اپوزیشن لیڈر میں جو بات ہونی چاہیے وہ ابھی ان کے اندر نہیں ہے۔ بی جے پی لیڈروں کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ راہل گاندھی ایک ہی بات کو گھما پھرا کر کہہ رہے ہیں۔ ان کی تقریروں کا لب لباب یہی ہے کہ وزیر اعظم نے نوٹ بندی کا جو فیصلہ کیا وہ عوام اور غریب مخالف اور امیر حامی ہے اور یہ قدم صرف چند بڑے صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا گیا۔ اپوزیشن کی جانب سے اور کوئی لیڈر کہیں تقریر کرتا نظر نہیں آیا۔ البتہ اکا دکا بیانات ضرور دیے جاتے رہے لیکن ان بیانوں سے حکومت پر کوئی حرف نہیں آیا اور نہ ہی اسے دفاعی پوزیشن میں لانے میں کوئی کامیابی ملی۔ ممتا بنرجی، مایاوتی اور اروند کیجری وال نے بھی حکومت کے خلاف مہم چلائی اور ممتا بنرجی کلکتہ سے دہلی آکر مہم چلانے لگیں۔ انھوں نے دھرنا بھی دیا اور تقریریں بھی کیں۔ تاجروں کے دمیان بھی گئیں۔ لیکن جو بات پیدا ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی۔ کیجری وال نے بھی دہلی سے باہر نکل کر تقریریں کیں لیکن ان کی تقریریں بھی کوئی اثر نہیں دکھا سکیں۔ راہل گاندھی نے ایک بار کہا کہ انھیں پارلیمنٹ میں بولنے نہیں دیا جا رہا ہے۔ اگر وہ بولیں گے تو زلزلہ آجائے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے پاس وزیر اعظم کے ذاتی کرپشن کا ثبوت ہے لیکن انھوں نے اس کو اجاگر نہیں کیا۔ کئی دنوں کے بعد جب گجرات کے مہسانہ میں ایک ریلی کے دوران انھوں نے الزام لگایا کہ وزیر اعظم نے سہارا اور برلا گروپوں سے کروڑوں روپے کی رشوت لی ہے تو سمجھ میں آیا کہ جس ذاتی کرپشن کی بات وہ کر رہے تھے وہ یہی تھا۔ اس کے بعد بھی وہ یہ الزام لگاتے رہے۔ بی جے پی والوں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ پرشانت بھوشن نے سپریم کورٹ میں رکھا تھا جس پر سپریم کورٹ نے ان کو ثبوت لانے کی ہدایت دی ہے۔ بی جے پی نے اس الزام کو بہت ہلکا کرکے پیش کیا اور اب اس کا کوئی اثر عوام کے ذہنوں پر نہیں ہے۔
جہاں تک حکومت اور بی جے پی کا سوال ہے تو اس دوران وہ اپوزیشن پر حاوی رہی۔ اگر صرف وزیر اعظم نریندر مودی کی عوامی جلسوں میں کی جانے والی تقریروں کا ہی جائزہ لے لیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ انھوں نے نوٹ بندی کے اپنے قدم کو نہ صرف جائز ٹھہرانے کی کوشش کی بلکہ وہ اس میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔ انھوں نے عوام میں یہ پیغام پہنچانے کی بھی کوشش کی کہ ان کے اس قدم کا مقصد جعلی نوٹوں اور انسانوں اور منشیات کی اسمگلنگ کے کاروبار کو بند کرنا، دہشت گردوں کی فنڈنگ کو روکنا اور بلیک منی کو ختم کرنا اور اس دھندے میں ملوث لوگوں کو بے نقاب کرنا تھا۔ صرف وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ بی جے پی کے دوسرے لیڈروں جیسے کہ امت شاہ وغیرہ بھی عوام کے درمیان اس قدم کی خصوصیات شمار کرانے میں کامیاب رہے۔ کئی مرکزی وزرا بھی اس محاذ پر لگے رہے اور حکومت کے فیصلے کی خوبیاں بیان کرتے رہے۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے بھی اپوزیشن کے الزامات کی ہوا نکالنے کی کوشش کی۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو حکومت اپوزیشن پر حاوی رہی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام نے کس کی باتوں کو قبول کیا اور کس کی باتوں کو نظرانداز کر دیا۔ عوامی فیصلے انتخابات میں ہوتے ہیں اور اترپردیش میں انتخابات ہونے والے ہیں جن پر پورے ملک کی بلکہ پوری دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ (اپوزیشن کا الزام ہے کہ یو پی کے الیکشن کو ذہن میں رکھ کر وزیر اعظم نے یہ قدم اٹھایا ہے)۔ غیر بی جے پی پارٹیاں اس وقت منتشر ہیں۔ یہاں تک کہ اتر پردیش میں برسراقتدار جماعت سماجوادی پارٹی کے اندر ہی دو دھڑے بن گئے ہیں۔ مایاوتی کا ایجنڈا الگ ہے۔ کانگریس کا الگ ہے۔ اجیت سنگھ کا الگ ہے۔ ایم آئی ایم بھی خم ٹھونک کر میدان میں کود پڑی ہے۔ اس صورت حال میں واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ بی جے پی اگر نوٹ بندی کا فائدہ نہیں اٹھا سکی تو کم از کم اپوزیشن کے انتشار کا فائدہ تو اٹھا ہی لے گی اور یو پی میں اسے کامیابی ملے گی۔