بابری مسجد انہدام کی ایک اور برسی گزرگئی۔۔۔۔از: ! ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

04:16PM Fri 7 Dec, 2018
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... ہندوستانی تاریخ کے سیاہ 6دسمبرکا دن پھر ایک بار کیلنڈر کے صفحے پر آیا جب چارسوسالہ بابری مسجد کوحکومت اور محافظ دستوں کے ناک کے نیچے زمین بوس کردیاگیا تھا اور یہ دن ہماری زندگی سے بالکل اسی طرح چپ چاپ سرک گیا جس طرح پچھلی دددہائیوں سے گزرتا رہا ہے۔ 1992سے 2018 تک 26 سال کا عرصہ کبھی امیدوں کی شمعیں جلاتا رہاہے تو کبھی خوف ودہشت کی دستکیں دیتا رہا ہے۔اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ پورے ملک کے تقریباً ساڑھے سترہ کروڑ مسلمان اپنی قیادت کی ڈھیلی پڑتی ہوئی گرفت اور مخالفین کی شدت اختیار کرتی ہوئی سازشوں اور سینہ زوریوں کے درمیان آنکھ پر کالی پٹی بندھی ہوئی عدلیہ کی مورت کے ہاتھ میں تھمے ہوئے ترازو کو امید ویاس کے ساتھ تکنے کے سوا کچھ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہے۔ بابری مسجد انہدامی کارروائی: آج سے چھبیس سال قبل جب بابری مسجد ڈھادی گئی تھی تو اس وقت کے کانگریسی وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے قوم کے نام خطاب کرتے ہوئے بھروسہ دلایا تھا کہ ڈھائی گئی مسجد کو دوبارہ تعمیر کردیا جائے گا۔ حالانکہ وزیراعظم کی حیثیت سے ان کے لئے مسجد کے انہدام کو روکنا زیادہ آسان کام تھا، جو انہوں نے نہیں کیا۔ اس تعلق سے کچھ جانکار حلقوں کا یہ یقین بھی رہا ہے کہ درپردہ ان کی حمایت کارسیوا کے نام پر ہونے والی انہدامی کارروائی کو حاصل تھی۔کیونکہ مسجد اور مندر کے تنازعے میں مندر کے لئے راستہ ہموار کرنے والی ساری کارروائیوں کا سلسلہ کانگریسی دورحکومت سے ہی جاکر ملتا ہے۔انہدام کے اس تخریبی منصوبے میں اترپردیش میں اس وقت برسراقتدار کلیان سنگھ کی بی جے پی حکومت کا کلیدی کردار اس وجہ سے بھی جگ ظاہر رہا ہے کہ بابری مسجد کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچانے کا تیقن تحریری طور پر عدالت میں دے کر اس نے فریب سے کام لیا۔ پھر مسجد ڈھائے جانے کے بعد عارضی پنڈال والا makeshift مندر بناکر’ رام للا‘کی مورتی کو وہاں براجمان کرنے کا عمل پورا ہونے تک محافظ دستوں کو اس مقام سے دور رکھا گیا اورجب کارسیوک تمام کارروائیاں منصوبے کے مطابق انجام دے چکے تو لاٹھیاں لہرانے کے لئے محافظ دستوں کو آگے بھیجا گیا۔

کس نے وفا کے نام پہ دھوکا دیا مجھے کس سے کہوں کہ میرا گنہ گار کون ہے

پورے ملک میں سوگ: جب پیچھے مڑ کر میں اس دن کی طرف دیکھتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان ہی نہیں ہر امن پسند شہری کے لئے یہ ایک ہولناک واقعہ تھا۔ پورے ملک کے مسلمان اور جمہوریت پسند عوام نے اس کا سوگ منایا ۔ ملک کے مختلف مقامات پر فسادات ہوئے۔آگ و خون کی آندھیاں چلیں۔ بھٹکل میں ہم لوگوں نے پرامن طریقے پر اپنا احتجاج درج کرنے کے لئے صرف مسلمانوں سے دکانیں بند کرنے کی زبانی اپیل کی اوربازار بند کردیا گیا۔ اس تخریبی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے ہمارے مرکزی سماجی و ثقافتی ادارے کی طرف سے سرکار کو میمورنڈم دیا گیااور بابری مسجد کو دوبارہ اسی مقام پر تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔اس کے بعد ملّی قائدین کی رہنمائی کے مطابق چند سال تک 6 دسمبر کو یوم سیاہ منانے کا سلسلہ چلتا رہا ۔اس زمانے میں عوام او ر نوجوانوں میں ایک جوش تھا، جذبہ اور عزم تھا کہ بابری مسجد بچانے میں ناکام رہے تو کیا ہوا اسے ازسرنو تعمیر کروانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ عدالت پر بھروسہ کام نہ آیا: مسلمان قیادت اورعوام دونوں کو بھروسہ تھا کہ عدالت بابری مسجد ڈھانے والے فسطائی لیڈروں کو کیفر کردار تک پہنچائے گی اور ہر حال میں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے بابری مسجد کی تعمیر نو کا راستہ صاف کردے گی۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ عدالتی کارروائیاں ایسی موشگافیوں کا شکار ہوگئیں کہ ایک طرف بابری مسجد ڈھانے کے گناہگارملک کے قانونی شکنجے سے ابھی تک باہر ہیں اور آزاد گھوم رہے ہیں ، تو دوسری طرف اس سانحے کو چوتھائی صدی گزرگئی ہے جس کے دوران بابری مسجد دوبارہ تعمیر کرنے کے خلاف صف بندی کرنے والی اور انتہائی مسموم ذہنیت رکھنے والی ایک پوری نئی نسل تیار ہوگئی جو پرانی نسل سے زیادہ پرتشدد رویے اور جارحانہ نظریات سے لیس ہے اور مرکزی و ریاستی سطحوں پر سرکاری سرپرستی میں محفوظ و مامون ہے۔ قدرت نے اپنا حساب لے لیا: بابری مسجد کے تنازعے کو جذباتی عروج کی انتہا پر لے جانے اور سیاسی مفادات کے زعم میں اللہ کے گھر کو زمیں بوس کروانے والوں کو دنیاوی عدالت نے ابھی تک چاہے کوئی سزا نہیں سنائی ہو۔ لیکن قدرت نے اپنا حساب بڑی حد تک چکا لیا ہے۔ بابری مسجد کے خلاف جارحانہ ماحول بنانے والی ٹولی کی سربراہی کا سہرا تو پاکستان سے ہجرت کرکے آنے والے سندھی مسٹر ایل کے ایڈوانی کے سر ہی سجاہوا تھااور ان کی نظریں ہندوستان کی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر ٹکی ہوئی تھیں۔ اس منافرت پھیلانے والے طائفے کے دوسرے کردارسادھوی اوما بھارتی، سادھوی رتمبرا(جس کی نفرت اور اشتعال انگیز تقریر کا کیسٹ نور مسجد کے پاس بجانے کی وجہ سے 17مئی 1991کو بھٹکل میں فساد پھوٹ پڑا تھا اورچند ہی گھنٹوں میں ہمارے دو نوجوان پولیس کی گولی سے شہید ہوگئے تھے!)، ونئے کٹیار، کلیان سنگھ، اشوک سنگھل اور مرلی منوہر جوشی وغیرہ شامل تھے جو سپہ سالاری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔یہ سب مل کر بی جے پی کی کہکشاں سجائے پھرتے تھے۔مگرآج یہ سب کے سب گمنامی اور رسوائی کے اندھیرے میں غائب ہوتے جارہے ہیں۔ سب سے بڑی مثال ایل کے ایڈوانی کی ہے، جنہیں وزارت عظمیٰ کی کرسی تک لے جاکر اس طرح واپس لوٹادیاگیا اور ذلت و خواری کے غار میں ڈال دیا گیا کہ آنکھیں رکھنے والوں کے لئے قدرت کے انتقام اور عبرت کی اس سے بہتر کوئی مثال ہوہی نہیں سکتی۔اس کے علاوہ راجیو گاندھی اور نرسمہا راؤ نے ہندوشدت پسندوں کے جو آسانیاں فراہم کی تھیں، ان کی عبرتناک موت شائد اسی کا نتیجہ ہو۔ ایک دو ر وہ بھی تھا: بابری مسجد کی شہادت کے بعد عدالتی کارروائیوں کی سست رفتاری کے ساتھ مسلمانوں کے خون میں جو جوش اور ولولہ تھا، وہ بھی دھیرے دھیرے سرد ہوتا گیا۔ایک وہ بھی دور تھا جب بابری مسجد کا یوم شہادت قریب آتے ہی پورے ملک کے مسلمانوں میں ایک اضطراب اور بے چینی شروع ہوجاتی تھی۔ ایک ٹیس اور کسک دل وجگر میں اٹھتی تھی۔غم و غصے سے دماغ جل اٹھتے تھے ۔اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ غالباً بابری مسجد کی شہادت کا تیسر ا یا چوتھا سال تھا۔ پانچ دسمبر کو ایک نرسری اسکول کی اپّر کنڈر گارٹن (UKG)یا شائدپہلی جماعت کا ایک معصوم سا طالب علم اپنی جیب میں ماچس کی ڈبیا(match box)لے آیا تھا۔ جب اس سے تفتیش کی گئی کہ اس نے ماچس کی ڈبیا اپنے ساتھ کیوں رکھی ہے، تو اس نے بے ساختہ کہا:’’ کل 6دسمبر ہے نا!‘‘ اور ہم لوگ اس کے اس جواب پر انگشت بدنداں ایک دوسرے کا منھ دیکھتے رہ گئے تھے۔اور اب جبکہ وہ بچہ ایک ہٹا کٹا نوجوان ہوچکا ہے، جب بھی میں اسے دیکھتا ہوں یا اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ اس دور کی تقریباً پوری نسل اب اس مسئلے کی حساسیت سے لاتعلق ہوچکی ہے۔اور میری زبان پر حفیظ میرٹھی مرحوم کا یہ شعر آجاتا ہے کہ:

خاک سرگرمی دکھائیں بے حسی کے شہر میں برف کے ماحول میں رہ کر ٹھٹھر جاتی ہے آگ

اب مرکزی ادارے بھی خاموش ہیں: کچھ برسوں تک رسمی طور پر ہی سہی ہمارے مرکزی ادارے کی طرف سے ہر سال 6دسمبر کومرکزی سرکار کے نام ایک میمورنڈم بھیجا جاتا تھا، جس میں بابری مسجدکے انہدام کی مذمت کرتے ہوئے اسی مقام پر مسجد کی تعمیر نو کامطالبہ دہرایا جاتاتھااور شہر میں امن و امان کی بحال رکھنے کے مناسب انتظامات کرنے کی بھی مانگ کی جاتی تھی۔شائد دو ایک مرتبہ بابری مسجد تنازعہ کے تعلق سے عوامی بیداری کے اجلاس بھی منعقد کیے گئے تھے۔پتہ نہیں پھر کب سے یہ سلسلہ بند ہوگیا۔اور بابری مسجد ہمارے ذہنوں اور احساسات سے کب غائب ہوگئی۔سوشیل میڈیا پر ملنے والی خبروں کے مطابق بھٹکل میں ابھی گھٹنوں گھٹنوں چلنے کی کوشش میں لگی ہوئی ایک سیاسی پارٹی نے امسال اس مسئلے پر اسسٹنٹ کمشنر کی معرفت حکومت کو میمورنڈم دے کر ’فرض کفایہ‘ ادا کیا ہے۔باقی جہاں تک ہماری مقامی مرکزی قیادت کی بات ہے تو صاحبو! اس ضمن میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ اگر عدالت سے فیصلہ آ بھی گیا ..تو!: 1992میں مسجد کی شہادت کے بعدگزرنے والی چوتھائی صدی نے حالات کو جس موڑ پر لاکھڑا کیا ہے ، وہاں ایک طرف ہم یہ کہہ کر دل کو تسلی دے رہے ہیں کہ ہمیں ملک کے نظام عدل پر بھروسہ ہے ۔اور منصفانہ فیصلہ اگر ہوا تو وہ ہمارے ہی حق میں ہوگا۔ بصورت دیگر کوئی دوسرا فیصلہ ہوا اورہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی تب بھی ہم اسے قبول کریں گے۔ میں اسے تسلی دینا اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ حالات اب اس موڑ پر پہنچ گئے ہیں کہ ہمارے لئے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن جیسی صورتحال پید ا ہوگئی ہے۔ ہماری اپنی قیادت میں اس مسئلے پرشگاف ابھرچکے ہیں۔اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں نئے فامولے ہمارے اپنے کیمپ سے سامنے آرہے ہیں۔ ملت اسلامیہ کے وسیع تر اتحاد میں مسلکی اور مذہبی دیمک لگ چکی ہے۔ ایسے میں ٹھنڈے دل سے غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اگر مسجد کے حق میں عدالتی فیصلہ آ بھی جاتا ہے تو کیا ملک کے سماجی، سیاسی اور مذہبی ماحول کو جس طرح ایک گروہ نے زہر آلود کررکھا ہے ، اس میں مسجد کی تعمیر نو کا امکان ہوسکتا ہے! یہ احساس تو بہر حال رہے : آج جب میں موجودہ ماحول پر غور کرتا ہوں اور نوجوانوں کے جذبات سمجھنے کی کوشش کرتاہوں تولگتا ہے کہ ملک کے بدلتے ہوئے حالات کی وجہ سے ایک حد تک اعصاب شکنی کا دور شروع ہوا ہے۔فسطائی قوتوں کی جارحانہ پیش رفت اور قاتلانہ روش نے واضح اشارہ دے دیا ہے کہ آنے والا دور ہم سے کیسی سخت جانی کا مطالبہ کررہا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ہمارے ملّی قائدین بجا طور پر ہمیں عزائم اور حوصلے بلند رکھنے کی صلاح دیتے ہیں۔ قوم و ملت کی ہمت بندھانے کی سعی کرتے ہیں۔ عدلیہ پر بھروسہ ہونے کی بات کہتے ہیں۔ لیکن رات کتنی مہیب ہے اور ہوا کتنی بے درد ہے ، اس کا احساس بہرحال جلتے ہوئے دیے کی لو کو نہ ہوگا تو پھر کسے ہوگا !۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے حالات میں نوجوان نسل کی صحیح رہنمائی کی جائے اور آنے والی آندھی کے سامنے سینہ سپر رہنے اور اپنی ملّی شناخت کے ساتھ جینے کا لائحۂ عمل تیار کیا جائے اور اسی مناسبت سے نوجوان نسلوں کی ذہن سازی کی جائے ۔کہ اس کے بغیر کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔

رات تو وقت کی پابند ہے ڈھل جائے گی دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے

haneefshabab@gmail.com   (ضروری وضاحت: مضمون میں درج مواد سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)