انسان کا حوصلہ پست کرنے والی اور ہمت کی کمر توڑ دینے والی دنیا میں کوئی چیز غالباً افلاس سے بڑھ کر نہیں ہے۔ مفلسی میں پھنس کر آ دمی عزم کا استحکام اور ارادے کی استواری بالکل کھو بیٹھتا ہے، اور دل و دماغ کی شگفتگی جو تمام بلند خیالیوں کا سر چشمہ ہے قطعاً معدوم ہو جاتی ہے۔ اگر ایک سر سبز چمن کی سیرابی کے سارے ذرائع مسدود کردیے جائیں تو وہ مایۂ بہجت سراپا وحشت بن جائے گا ، اور ظاہر ہے کہ جس چمن کے نشو نما یافتہ گلبن جل ہَیزُمِ خشک ( ہَیزُم خشک : سوکھی لکڑی ، جلانے کی لکڑی ۔ ( نوراللغات) ) ہو جائیں اس میں تازہ نو بادوں کے اگنے کی کیا امید ہو سکتی ہے ۔ بعینہٖ یہی مصیبت افلاس کے ہاتھوں انسانی دل ودماغ پر نازل ہو تی ہے ، مفلسی نہ صرف موجودہ خیالات کا ستیاناس کرتی ہے ، بلکہ آئندہ حوصلوں اور امنگوں کا پیدا ہونا بھی بند کر دیتی ہے ۔
انچہ شیراں راکند روبہ مزاج احتیاج ست احتیاج ست احتیاج
خدا جانے کتنی قابلیتوں کا خون اس مردم خواردیو کی گردن پر ہے اور کس قدر استعدادیں اس بے درد کے ہاتھوں ضائع ہوئی ہیں ۔ جو بلند ہمت نوجوان اہنے بڑھتے ہوئے ارادوں میں افلاس کے پھندے میں پھنس کر مایوسی کے ساتھ بے دست وپا رہ جاتے ہیں، ان کی مثال بجنسہٖ ایسی ہے کہ ایک سیاہ ہرن اپنی طاقت اور قوت کے زعم میں اکڑ ا چلا جارہا ہے ، میدان کی وسعت اس کے دل میں امنگیں پیدا کر رہی ہے اور قدم قدم پر اس کی چال بڑھتی جاتی ہے ، ناگاہ و صیاد کے مضبوط پھندوں میں جو دور تک پھیلے ہوئے ہیں پھنس کر گرپڑا ؛ اب وہ جس قدر اپنی قوت صرف کرتا ہے ، اتنی ان پھندوں کی گرفت سخت ہوتی جاتی ہے۔ جن لوگوں نے یہ منظر ملاحظہ کیا ہے وہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ جنگل کا آزاد منُش پہلوان کیسا ان پھندوں میں پڑ کر اپنی چوکڑی بھول جاتا ہے ۔ آہ اے افلاس ! تو آج تو مسلمانوں کے حوصلوں پر ہمیشہ سے زیادہ بیداد کر رہا ہے۔ جس قوم میں حوصلوں کا قحط اور ہمت کا کال ہو ، اس میں اگر کچھ اولو العزم جو یاے کمال نکل آئیں تو ان کو تو پیس کر رکھ دے ۔ ہائے ! یہ کیسا ظلم ہے ! لیکن تجھ کو یاد ہوگا کہ تیرا زور آج کل کی طرح ہمیشہ ہماری ہمتوں پر غالب نہیں رہا ۔ کیا تجھ کو یاد نہیں ہے کہ جب حا فظ الحدیث حجاج بغدادی شبابہ کے یہاں تحصیل علم کو جانے لگے تو ان کی مقدرت کی کل کائنات یہ تھی کہ ان کی دل سوز والدہ نے سو کلچے پکادیے تھے جن کو وہ ایک گھڑے میں بھر کر ساتھ لے گئے ۔ روٹیاں مہربان ماں نے پکا دی تھیں سالن ہونہار اور دلیر فرزند نے خود تجویز کرلیا اور اتنا کثیر و لطیف کہ آج تک صد ہا برس گزرنے کے بعد بھی ویسا ہی تر وتازہ موجود ہے ۔ وہ کیا؟ دجلے کا پانی ۔ حجاج ہر روز ایک روٹی دجلے کے پانی میں بھگو کر کھا لیتے اور استاد سے پڑھتے ۔ جس روز وہ روٹیاں ختم ہو گئیں ، ان کو استاد کا فیض بخش دروازہ چھوڑنا پڑا( تذکرۃ الحفاظ :جلد ۲ ۔ صفحۃ ۵۵۰ ) ۔
شیخ الاسلام بقی بن مخلد اس سے بھی زیادہ مؤثر حکایت بیان کرتے ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جس پر ایام طالب علمی میں اتنا سخت زمانہ گزرتا تھا کہ بے مایگی کی وجہ سے چقندر کی پتے کھا کھا کر بسر کرتا ۔( تذکرۃ الحفاظ :جلد ۲ صفحۃ ۶۳۰ ) پتے کھانا کچھ عجیب بات نہیں ؛ بھوک وہ بلا ہے کہ لختِ جگر بچوں کے کباب ماں باپ کو کھلا کر چھوڑتی ہے ۔ قابل تحسین و ہزار آفریں یہ امر ہے کہ جس افلاس نے چقندر کے پتے کھانے پر مجبور کیا، اس میں اتنی قوت نہ تھی کہ علمی شوق پر غالب آتا اور اس دلیر طالب علم کی ہمت توڑدیتا ۔
یادش بخیر ! امام بخاری کو ایام طالب علمی میں ایک سفر میں تہی دستی نے اتنا مجبور کیا کہ تین دن برابر انھوں نے جنگل کی بوٹیاں کھائیں ۔ مقدمۃ فتح الباری ۔۴۷۲
ابن المقری ،ابو الشیخ اور طبرانی یہ شیخِ عصر ایک زمانہ میں مدینہ طیبہ میں طالب علمی کرتے تھے ۔ایک بار ان پر ایسا وقت آیا کہ خرچ کی قلت نے بہت پریشان کیا اور یہاں تک نوبت پہنچی کی روزے پر روزہ رکھا ۔ بھوک نے جب بہت مضطرب کیا تو انھوں نے حضرت سرور کائنات ﷺ کا وسیلہ ڈھونڈا اور سب کے سب مل کر آستا نۂ پاک پر گدایانہ حاضر ہوئے اور صدادی کہ ُ یارسول اللہ الجوع ‘ ۔ اس کے بعد طبرانی تو وہیں بیٹھ گئے اور کہا کہ یا موت آئے گی یا روزی ۔ ابن مقری اور ابو الشیخ لوٹ کر فرودگاہ چلے آئے ۔ وہ صدا خالی کب جاتی ! کچھ عرصے کے بعد دروازۂ مکان پر کسی نے دستک دی اور دروازہ جو کھولا تو دیکھا کہ ایک والا دودمان علوی مع دو غلاموں کے تشریف فرماہیں، اور غلاموں کے سروں پر بہت سا سامان ہے ۔ ان کو دیکھ کر علوی نے کہے کہ آپ لوگوں نے میری شکایت حضورِ نبوی میں کی۔ خواب میں آ پ ﷺ نے مجھ سے فرمایا ہے کہ تمھارے پاس کچھ پہنچادوں چناں چہ یہ حاضر ہے ۔ تذکرۃ الحفاظ : جلد ۳ ۔ صفحۃ ۹۷۴
شیخ الفقہاء امام برقانی جب اسفرائن پڑھنے گئے تو ان کے پاس تین اشرفیاں اور ایک درہم تھا ۔ سوئے اتفاق سے اشرفیاں راہ میں گم ہوگئیں ، درہم باقی رہ گیا ۔ اسفرائن پہنچ کر وہ درہم ایک نان بائی کے یہاں جمع کردیا ۔ ہر روز اس سے دو روٹیاں لے لیتے ، اور بشر بن احمد ( ابو سہل بشر بن احمد بن بشر الاسفرائنی ۔م ۳۷۰ھ۔۔ ہیں ۔ ) کے یہاں سے ایک جزء کتاب کا لا کر شام تک نقل کرتے اور شام کو نقل شدہ جز واپس پہنچادیتے ، تیس جزء نقل ہوچکے تھے کہ درہم ختم ہو گیا ، اور انھوں نے مجبور ہو کر اسفرائن سے سفر اختیار کیا ۔ تذکرۃ الحفاظ : جلد ۳ ۔ صفحۃ ۱۰۷۵
امام ابو علی بلخی جب عسقلان میں تھے تو خرچ سے اس قدر تنگ ہوئے کہ کئی فاقوں کی نو بت پہنچی اور ضعف نے لکھنے سے معذور کردیا ،جب بھوک کی اذیت برداشت نہ ہوسکی تو نان بائی کی دوکان پر اس غرض سے جا بیٹھے کہ کھانے کی خوشبو سے ہی کچھ تقویت طبیعت کو پہنچالیں ۔ تذکرۃ الحفاظ : جلد ۳ ۔ صفحۃ ۱۱۷۳
فنِ حدیث کے عالی مرتبہ امام ابو حاتم رازی اپنا قصہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں زمانہ طالب علمی میں چودہ برس بصرے رہا ۔ ایک مرتبہ تنگدستی کی یہ نوبت پہنچی کہ کپڑے تک بیچ کھائے ، جب کپڑے بھی نہ رہے تو دو دن کا بھوکا رہا ۔ آ خر ایک رفیق سے اظہار حال کیا ، خوش قسمتی سے اس کے پاس ایک اشرفی تھی ، نصف اس نے مجھ کو دیدی ۔ تذکرۃ الحفاظ : جلد ۲۔ صفحۃ ۵۶۸
امام ابن جریر طبری نے تنگیِ خرچ کے سبب سے اپنے کرتے کی دونوں آستینیں بیچ کر کھالی تھیں ۔( تذکرۃ الحفاظ : جلد ۲۔ صفحۃ ۷۱۳
ابن ابی داؤد جب کوفہ طالب علمی کرنے گئے تو صرف ایک درہم پاس تھا ، اس کا باقلّا خریدا ۔ باقلّا کھاتے اور طالب علمی کرتے ۔ تذکرۃ الحفاظ : جلد ۲۔ صفحۃ ۷۶۸
شیخ الاسلام ابو العلاے ہمدانی کو بغداد میں کسی نے اس حال میں دیکھا کہ رات کو مسجد کے چراغ کی روشنی میں جو بلندی پر تھا ؛ کھڑے کھڑے لکھ رہے تھے ۔ ظاہر ہے کہ اگر ان کو روغن خریدنے کی مقدرت ہوتی تو یہ تکلیف و صعوبت کیوں گوارا کرتے ۔ تذکرۃ الحفاظ : جلد ۴۔ صفحۃ۱۳۲۵
حکیم ابو نصر فارابی جس کا ایک عالم میں شہرہ ہے ، اس کی نسبت بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ وہ عہدِ طالب علمی میں تہی دستی کی بدولت چراغ کا تیل خریدنے سے معذور تھا ۔ تا ہم اس کا شوق بے کار رہنے والا نہ تھا ۔ رات کو پاسبانوں کی قندیلوں سے کام لیتا ، اور ان کی روشنی میں کتاب کا مطالعہ کیا کرتا ۔ اسی تنگ حالی میں وہ علمی ترقی کی کہ سارے جہاں میں اپنا نام روشن کردیا۔ عیون الأنباء : صفحۃ ۶۰۳