میڈیا میں بڑھتے قدم....اگر میڈیاہاؤس کا قیام ممکن نہیں ہے تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے! (چوتھی قسط)۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

02:48PM Wed 14 Nov, 2018
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  جب ہم میڈیا میں ہماری پیش قدمی کا جائزہ لیتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ آج میڈیاکی دنیاکا حال ہی عجب ہوگیا ہے۔الیکٹرانک اور سوشیل پلیٹ فارمس پر جوآن لائن میڈیا کی گنگا بہہ رہی ہے اس میں بدقسمتی سے ہر ایرا غیرا نتھو خیرا نہانے کے لئے اتر پڑا ہے۔بس جس کے پاس ایک سمارٹ فون ہے وہ میڈیا پرسن بن گیا ہے۔مقامی سطح پر وہاٹس ایپ گرو پ چلانے والے ’ایڈمنس‘ بھی میڈیا والے ہو گئے ہیں۔ کسی واقعے یا eventکو فیس بک پر لائیو اسٹریمنگ کرنے والے اور یوٹیوب چینل بناکر الٹے سیدھے ویڈیو کلپس پوسٹ کرنے والے بھی صحافی ہونے کا لیبل چسپاں کرکے گھومتے نظر آتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سوشیل پلیٹ فارمس پر صحافتی خدمات انجام دینا ممکن نہیں ہے۔ بلکہ آج کل تو یہ ایک بڑا کار آمد اور مؤثر ذریعہ ہے۔ اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے نیشنل لیول پر کئی سیکیولر اور حق و انصاف کی آواز بلند کرنے والے چھوٹے چھوٹے میڈیا ہاؤسس قائم ہوگئے ہیں۔مثلاً ’دی وائر‘، ’دی کوئنٹ‘’للّن ٹاپ‘وغیرہ جیسے چند اہم یو ٹیوب چینلس نے اپنی موجودگی سے میڈیا کی گنگا میں ہلچل مچادی ہے۔جیسے کہہ رہے ہوں:

تیغ و خنجر کو عطا کرتے ہیں لفظوں کی نیام ظلم کی کرتے ہیں جب اہلِ ستم تیاری

لیکن ہم اس سمت میں سنجیدگی اور تیاری کے ساتھ مہم جوئی کی کوشش نہیں کررہے ہیں۔ ٹی وی چینل کا ایک ناکام تجربہ: ایسابھی نہیں ہے کہ ماضی میں مسلمانوں کے ملّی کاذ کو اجاگر کرنے کی نیت سے ٹی وی چینل قائم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہو ۔ پرنٹ میڈیا کی طرح بڑے ٹی وی چینلس قائم کرنے کی کوششیں بھی ہوچکی ہیں۔ اس میں سے ایک پروجیکٹ ’فلک ٹی وی ‘ کے نام سے تھاجو حیدر آباد(موجودہ ریاست تلنگانہ) سے شروع کیا گیاتھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کرناٹکا کے معروف مسلم سیاستداں جناب سی ایم ابراہیم، اور غالباً ہمارے قائد قوم جناب سید خلیل الرحمن نے بھی اس میں کافی دلچسپی لی تھی۔ ایک انڈین این جی او کے طور رجسٹرڈ کمپنی کے تحت شروع کیے گئے ’فلک ٹیلی ویژن اینڈ براڈ کاسٹنگ لمیٹیڈ‘ چینل کا آغاز بڑے پرجوش انداز میں کیا گیاتھا۔مگر یہ منصوبہ بس کچھ عرصے تک فعال رہااوراس کے بعد اب عملاً اس پر غشی طاری ہوگئی ہے۔میں نے مضمون کو ترتیب دیتے وقت اس پروجیکٹ کے تعلق سے جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس پبلک کمپنی کا مجاز سرمایہ (authorized capital)صرف 5لاکھ روپے ہے۔ سوچنے والی بات ہے کہ نیشنل لیول پر ہم ملّت کے ایک ترجمان( organ)کے طورپر 5لاکھ مجاز سرمایے کے ساتھ کیا بڑا میڈیا ہاؤس چلاسکتے ہیں! یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگر نیشنل لیول سے ہٹ کر علاقائی regionalمیڈیا کی بات کریں تو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں مسلمانوں کی اپنی آواز کے طور پر کیرالہ میں بڑے کامیاب طریقے پر کام انجام دیا جارہا ہے ۔ کیا ہم ایسا نہیں کرسکتے!: بھٹکلی مسلمانوں کی اگر بات کریں تو ہم جب بڑے الیکٹرانک میڈیا ہاؤس کے راستے میں درپیش رکاوٹوں، اس کے لئے درکار کثیر سرمایے اور اس پروجیکٹ کی وسعت اور اس کے تقاضے پورا نہ کرسکنے کے عوامل کودیکھتے ہوئے اگراپنے قدم پیچھے ہٹالیتے ہوں توکیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ’دی وائر،’دی کوئنٹ‘ ، ’نیوز لانڈری ‘جیسے چینلس یا grass rootسطح پر نئی امنگوں والے رپورٹرس کو موقع دینے والی ’101رپورٹرس‘جیسی ایجنسیوں کی شروعات کریں؟یا ان میں کام کرنے لائق افراد تیار کریں؟ یا پھر ہم کسی حق گو اور بے باک بڑے نیوز چینل میں سرمایہ کاری کے طور پر بڑی تعداد میں اس کے شیئرس خرید کر stakeholder بن جائیں اوراس کی پالیسی پر اثرانداز ہونے کی پوزیشن میں آجائیں؟اس کے علاوہ جو چھوٹے اور آزاد قسم کے یوٹیوب چینلس ایک حد تک ہمارے کاذ کو فائدہ پہنچانے کاکام کررہے ہیں ان کے لئے عطیہ جات کے طور پرسرمایہ فراہم کریں اور ان کے استحکام کی کوشش کریں؟! یعنی راحتؔ اندوری کے الفاظ میں ہمیں اس طرح اس محاذ پر سرگرم رہنا ہوگاکہ: ؂

آنکھ میں پانی رکھو ، ہونٹوں پہ چنگاری رکھو زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو

ہمارا مسئلہ کچھ اوربھی ہے: مگرہمارا مسئلہ توکچھ اور بھی ہے ۔ہم جب مسلمانوں کے میڈیا ہاؤس کی بات کرتے ہیں تو ہمارے بعض دانشوراور اہل قلم اسے صرف فسطائیت اور سنگھ پریوار کے خلاف مسلسل  24X7 بولتے رہنے، بحث و مباحثے کروانے اورمسلمانوں کے حق میں ایک طوفان اٹھائے رکھنے کا ذریعہ تصور کرتے ہیں۔ جبکہ فی الواقع کوئی بھی میڈیا ہاؤس اگر قائم ہوتا ہے تو سب سے پہلے اسے قانونی دائرے میں رہنا ہوتا ہے۔پھر جیسے پرنٹ میڈیاپر پریس کاونسل آف انڈیا کی نگرانی ہوتی ہے اسی طرح برقی میڈیا پر News Broadcasting Standards Authority کی بھی نظریں ہوتی ہیں۔ اور ملکی قانون کی نکیل اس وقت کس کے ہاتھ میں ہے اسے سمجھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ (صرف پیس ٹی وی کا انجام دیکھنا کافی ہے) ہمارے کیمپ میں کون ہے ؟: ان سب سے بڑھ کر جذبات سے نہیں بلکہ منطق( logic)اوراستدلال( resoning )کے ساتھ مختلف موضوعات پرصرف مسلم برانڈ چپکائے بغیر حق و انصاف کے سانچے میں موضوع کو مناسب ڈھنگ سے پیش کرنے اور بحث کرنے والے باشعور، تربیت یافتہ ، تجربہ کاراور maturedصحافیوں اور اسکالرس کی ضرورت ہوتی ہے ۔مثال کے طور پر این ڈی ٹی وی کے رویش کمار، دی وائر کے ونود دوآاور انڈیا ٹو ڈے کے راجدیپ سردیسائی، نیوز لانڈری کے ابھیسار شرما، جیسے بے باک و بے لاگ صحافی ہمارے پاس تو موجود ہی نہیں ہیں۔اس زاویے سے دیکھیں تو ہما را کیمپ خالی پڑا ہو ا ہے۔جو مسلم صحافی نیشنل سطح پر میدان میں موجود ہیں، وہ ہمارے کسی کام کے نہیں ہیں اور ان سے کسی قسم کی توقع ہی فضول ہے۔ (ان کی کچھ تفصیل اگلی قسط میں آئے گی ان شاء اللہ) سب سے بڑی ضرورت: لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے ہمارے اپنے چھوٹے میڈیا ہاؤسس کی پزیرائی کی جائے۔اور پزیرائی کی صورت یہ ہوکہ ہمارے سرمایہ دار طبقے کی نظر کرم ان پر ہوجائے اور کم ازکم موجودہ چھوٹے قلعوں کو مضبوط و مستحکم کی تدابیرسنجیدگی کے ساتھ کی جائیں ۔ دوسری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ فی الحال میدان میں رہ کر جو صاف ذہن اور سیکیولر(یا ترقی پسنداورrationlaist )قسم کے غیر مسلم صحافی ،ٹی وی چینلس، یوٹیوب چینلس اور نیوز ایجنسیاں مثبت اور بہتر کام انجام دے رہی ہیں ایک طرف ان کی پشت پناہی کی جائے اور دوسری طرف ہماری ملّت کے ابھرتے ہوئے صحافیوں کو حقیقی مسائل اور ان کے ملّی تناظر سے پوری طرح آشنا کیا جائے۔ان کو باکردار اور ملّی حمیت کا ترجمان بننے کی ترغیب اور تربیت دی جائے۔ سید شہاب الدین مرحوم ایک مثال: اس موڑ پرماضئ قریب میں سیاسی و صحافتی میدان میں بے لوث خدمات انجام دینے والی چند ایک نمایاں شخصیات میں مثالی نظر آنے والے سید شہاب الدین مرحوم کا ذکرکرنابہتر رہے گا۔ مشہور سیاست داں سید شہاب الدین مرحوم نے پرنٹ میڈیا میں انگریزی میگزین Muslim India شروع کیا تھا جو 1983سے2006تک جاری رہا۔ وہ ایک ڈپلومیٹ اور سیاست داں ہونے کے باوجود مسلمانوں کے مسائل اور ملّی تقاضوں کو سمجھنے اور مختلف رسائل و اخبار ات میں بڑے سلیقے کے ساتھ پیش کرنے والے مخلص انسان تھے، جن کے بارے میں ایک بڑا بامعنی اور جامع جملہ مشہور ہے کہ وہ’’ دل سے مسلمان او ردماغ سے ہندوستانی تھے ۔‘‘ سید شہاب الدین صاحب مرحوم نے بہار کے کشن گنج علاقے سے 3مرتبہ پارلیمنٹ میں نمائندگی کی تھی۔مارچ 2017میں ر حلت پانے والے سید شہاب الدین صاحب نے مسلم مجلس مشاورت اور دیگر مسلم اداروں میں سرگرم عمل رہتے ہوئے ’شاہ بانو کیس‘ ،’بابری مسجدمقدمہ‘، ’مسلم پرسنل لاء کے تحفظ ‘اور سلمان کی رشدی کی’ آیات شیطانی‘ پر پابندی کے لئے سیاسی اور صحافتی محاذ پر جوقابل ذکر کردار اداکیا تھا اسے ہمارے نوجوان صحافیوں کے لئے ایک بہترین مثال اورrole model قرار دیاجاسکتا ہے۔ ان کی سوانح حیات مشتاق مدنی نے ترتیب دی ہے ، جس کا عنوان:Outstanding Voice of Muslim Indiaہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سفرمیں گرہ میں باندھنے والی بات بقول حمیرا را حتؔ یہ ہوگی کہ: ؂

اسے بھی زندگی کرنی پڑے گی میرؔ جیسی سخن سے گر کوئی رشتہ نبھانا چاہتا ہے

سوشیل میڈیا اور ہم لوگ: سچائی یہ ہے کہ ہم آن لائن او رسوشیل میڈیا پر اس طرح متحرک نہیں ہوپارہے ہیں جیسا کہ ہونا چاہیے۔ ہمارے کچھ وہاٹس ایپ گروپس اور فیس بک pages ہیں ، لیکن یہ سب زیادہ ترہمارے اپنے مسائل پر بحث کرنے یا کچھ ویڈیوز پوسٹ کرنے تک محدود ہیں۔ بھٹکل سے متعلق بہت سارے وہاٹس ایپ گروپس کا جائزہ لیں تو ’وی دی بھٹکلیزڈبیٹ اینڈڈسکشن‘ ایک سنجیدہ اور سماجی دانشوروں پر مشتمل گروپ ہے جس میں بھٹکل کی عام سماجی اور اداروں سے متعلق مسائل پر بحث و گفتگو کی جاتی ہے اور کبھی کبھی کسی خاص مسئلے پر رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بقیہ درجنوں گروپس ایسے ہیں جو بس یہاں وہاں سے ملنے والی نیوز اور جوکچھ بھی دوسرے گروپس میں ہاتھ لگا اسے پوسٹ یا فارورڈ کرنے میں مشغول ہیں۔ان سے ہمارے منفی میڈیا کے مقابلے میں کوئی مثبت خدمت تو انجام نہیں پارہی ہے۔ کچھ سنجیدہ قسم کے لوگ ٹوئیٹر پر بھی کام کررہے ہیں۔ لیکن ان کی پہنچ اور رسائی اس حد تک شائد ہو نہیں پاتی جیسی کہ ہونی چاہیے، یا جیسی ہمارے مخالفین کی ہے۔ کنڑا اورانگریزی گروپس پر: جہاں تک بھٹکل اور اطراف کے مسلمانوں کے مسائل ہیں یا پھر اسلام سے متعلق عام غلط فہمیاں دور کرنے یا میڈیا میں جھوٹے پروپگنڈے کا رد کرنے کی بات ہے ، ہمیں آن لائن میڈیا او رسوشیل پلیٹ فارمس پرموجود کنڑا؍انگریزی گروپس، مقامی نیوز چینلس ، علاقائی نیوز چینلس،ویب سائٹس اور شخصیات پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ بڑا افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سوشیل اور آن لائن میڈیا سے لگے ہوئے نوجوان ہمارے اپنے گروپس پر ہی مشغول رہ کر بڑے مطمئن ہوتے ہیں کہ ہم میڈیا میں فعال ہوگئے ہیں ۔ حالانکہ ہمارے اپنے شہر سے کنڑا گروپس اور فیس بک پیجس، انسٹاگرام وغیرہ پرہمارے تعلق سے جس قسم کا گمراہ کن مواد پیش کیا جاتا ہے، اس کا جواب دینا تو دور کی بات ہمیں اس کا اندازہ بھی نہیں رہتا۔اس میں سب سے بڑی رکاوٹ کنڑا زبان سے ہماری ناواقفیت ہے۔ دھرو رتھی، ولی رحمانی کی ضرورت ہے: جیساکہ میں نے پچھلی قسط میں کہا تھا کہ کنڑا میڈیامیں رضامانوی صاحب پرنٹ اور آن لائن میڈیا میں کچھ نہ کچھ حرکت وعمل کرتے ہیں ۔ اسی طرح یہ بھی غنیمت ہے کہ سوشیل پلیٹ فارم پر جناب عبدالجبار اسدی اور ان کے فرزند ثناء اللہ بہت زیادہ نظر رکھتے ہیں۔غلط پروپگنڈے کارد کرنے کی امکان بھر کوشش کرنے کے ساتھ جناب عبدالجبار اور ثناء اللہ اسدی مقامی کنڑا سوشیل میڈیامیں آنے والی قابل گرفت چیزوں کو میڈیا سے وابستہ کچھ ذمہ داران کے علم میں لانے کی ہمیشہ کوشش کرتے ہیں۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں آن لائن میڈیا کے محاذ پر بھی سینہ سپر ہونا ہے تو پھر ’دھرو رتھی ‘اور ’ولی رحمانی ‘جیسے کچھ نوجوانوں کو تربیت دے کر کم ازکم ریجنل آن لائن میڈیا میں سرگرم کرنے کا منصوبہ بنانا اور اسے عملی جامہ پہناناہوگا۔ میڈیا کی یہ بھی بدقسمتی ہے: ایک بدقسمتی میڈیا کی یہ بھی رہی ہے کہ پرنٹ میڈیا میں نااہل افراد کی شمولیت اس طرح شروع ہوئی کہ ضلعی اور علاقائی سطح کے اخباروں نے چھوٹے چھوٹے مقامات پرلکھنے پڑھنے سے نابلد اخبار سپلائی کرنے والوں کو اشتہارات جمع کرنے کے ساتھ ٹیلی فون پر خبریں بتانے پر’ رپورٹر اور نامہ نگار‘کا نام دے دیا۔ یہ مبالغہ آرائی نہیں بلکہ ذاتی تجربے کی روشنی میں سامنے آنے والی کڑوی سچائی ہے کہ آج بھی ایسے رپورٹر اور میڈیا پرسن مل جائیں گے کہ جن کو اگر یہ پوچھا جائے کہ لفظ’میڈیا ‘ کے معنے کیا ہیں، تو وہ یہ بتانے سے قاصر رہیں گے کہ میڈیا انگریزی لفظ میڈیم(ذریعہ) کی جمع ہے اور اس کا مطلب ذرائع ہے۔ستم یہ ہوا ہے کہ فیس بک، ٹوئٹر، وہاٹس ایپ اور انسٹاگرام نے تو بچے بچے کوبغیر تفریق، تحدید اورتربیت کے میڈیا پرسن بناکررکھ دیا ہے۔ میڈیا سے وابستگی ہمارے لئے ایک مشن کیوں ہے اور اس کے اہدافgoalsکیاہیں ۔ اس میدان میں رہنے کے لئے کن اوصاف اور صلاحیتوں کی ضرورت ہے؟اس سے ہمارے کونسے اجتماعی معاملات متاثر ہورہے ہیں؟ انہیں نہ اس کا شعور ہوتا ہے، نہ یہ لوگ اسے جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ تومقامی پریس کلب؍ایسو سی ایشن کی رکنیت اور عہدوں کی حد تک ہی نامہ نگار؍میڈیا پرسن بنے رہتے ہیں ۔ اور عملاً میڈیا کے لئے ان کا contribution صفر رہتا ہے۔ میڈیا سے وابستگی بھی ایک فیشن!: آج کل اپنے آپ کو میڈیا سے وابستہ بتلانابھی گویا ایک فیشن بن گیا ہے۔ اسے اپنے رتبے کی علامت (status symbol) بنانے کا شوق کس حد کو پہنچ گیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ کچھ دنوں قبل ایک نوجوان کو ان کے رشتے دار نے ملازمت کے لئے خلیجی ملک بلالیا۔جن صاحب نے انہیں ملازمت دلائی تھی وہ جب شہر میں آئے ہوئے تھے تو ایک دن ملاقات کے دوران ان سے پوچھا گیاکہ وہ نوجوان کیا جاب کررہا ہے ؟تو مختصر جواب ملا کہ’’ میڈیا میں ہے!۔‘‘ یہ سن کر پوچھنے والے کوحیرت ہوئی کہ گلف میں میڈیا سے وابستہ ہونے لائق تو اس نوجوان کی لیاقت ہے نہ صلاحیت۔ پھریہ کارنامہ کیسے ہوگیا!۔کیونکہ خود پوچھنے والا حقیقت میں میڈیا سے وابستہ تھا۔ اس لئے ذرا توقف کے بعدمزید وضاحت چاہی کہ میڈیا کے کس شعبے میں کام ملا ہے تو جواب ملا کہ’’ صبح میں اخبار سپلائی کرنے کا کام ہے!‘‘ اور پوچھنے والا ان کا منھ دیکھتا رہ گیا۔ میڈیاجمہوریت کا چوتھا ستون : صحافت پہلے بھی ایک اہم ترین ہتھیار تھا ۔سماج کو بیدار اور باشعور کرنے کابلکہ ملکوں میں انقلابات لانے کا ذریعہ تھا اور آج بھی ہے ۔جس کی وجہ سے جمہوری نظام حکومت میں عدلیہ(judiciary)، انتظامیہ( executive)، مجلس قانون ساز (legislature) کے بعد میڈیا کو چوتھا ستون قرار دیا گیا ہے۔لیکن پہلے یہ اخبارات و رسائل(پرنٹ میڈیا) اور ریڈیو کی لہروں تک محدود تھا۔ پھر سیٹلائٹ اور ٹی وی کی وجہ سے الیکٹرانک میڈیا کا جو سیلاب آیااور اس کے ساتھ سوشیل؍آن لائن میڈیا جو نمودار ہوا ہے تو اس نے میڈیا کا رنگ و روپ اورمطلب ہی بدل دیا ہے۔ بلکہ اب اگر یوں کہاجائے تو شائد غلط نہ ہوگا کہ جمہوریت کے چوتھے ستون کے بجائے میڈیا بعض حالات میں پہلے ستون کے مقام پر آگیا ہے۔ اس کی اہمیت اور طاقت دونوں میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔اور اس کا ایک ڈراؤنا روپ یہ ہوگیا ہے کہ جمہوریت کایہ ستون اب آمریت اور فسطائیت کا سہارا بنتا جارہا ہے۔جس کی وجہ سے اب نظام حکومت کی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ : ؂

پھر اس مذاق کو جمہوریت کا نام دیا ہمیں ڈرانے لگے ہماری طاقت سے

)میڈیا کے مختلف رنگ.... ایم جے اکبر، عبرت کی ایک مثال..... آئندہ قسط میں ملاحظہ کریں( (ضروری وضاحت: اس مضمون میں درج مواد مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مشتمل ہے اس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔)