پندرہ منٹ کا یہ مکالمہ 13دسمبر 1939ءکی شام کو لکھنو ریڈیواسٹیشن سے نشرکیاگیا۔ مکالمہ کی زبان مولانا مرحوم کے مخصوص طرزانشاءمیں ہے اوراپنی سلاست وفصاحت پند اورشیرینی کی بناپر آج بھی دلچسپ اوردلآویز ہے۔ معنویت کی بلاغت اس پرمستزاد ۔گفتگو کے آخرمیں جوحکیمانہ نتیجہ نکالاگیاہے وہ آج بھی پورے طورپر صادق نظر آتا ہے۔ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی
شیخ صاحب: اخاہ جناب میرصاحب قبلہ من ۔تسلیم ،تشریف لائیے یہ آج چاند کدھرسے نکل آیا۔ اچھّا اب میں سمجھا مرزا صاحب ساتھ ہیں یہی گھیسٹ لائے ہوں گے۔
مرزاصاحب: جی اورکیایہ بھلااب ریڈیو چھوڑکسی سے ملتے ملاتے ہیں وہ تو کہیے میں گرفتار کرلایا۔ آپ کوان کے شوق کاحال معلوم ہے نہ شیخ صاحب؟
میرصاحب: خیریہ تو مرزاکی شاعری ہے ۔ ہاں یہ ضرورہے کہ جب سے ریڈیولے لیاہے باہرنکلنا ذراکم ہوگیاہے، ظالم میں کچھ ایسی لذّت ہے کہ چھوڑنے کوجی ہی نہیں چاہتا اوربھئی چیزبھی توایسی ہے ۔چوبیسوں گھنٹے کامصاحب ۔دن بھر چاہیں باتیں سناکیجیے دل بہلایاکیجیے ، نہ لڑائی جھگڑے کاڈر، نہ کسی کی حکایت شکایت۔ میں کہتا ہوں شیخ صاحب ان ولایت والوں کو سوجھتی بھی کیاکیاہے۔ کیسی کیسی چیزیں ایجاد کردی ہیں۔ واللہ ان کاسائنس ہے کہ جادو،کوئی حدہے ان کے عقل کی رسائی کی۔
شیخ صاحب: جادوآپ کی عقل پرضرورچل گیاہے، مردآدمی عقل نام ہے قوت فکری کا۔ ان مشینی ایجادوں سے قوت فکرکی کون سی کرامت ثابت ہوگئی؟ بس وہی جیسے ہمارے ہاں بڑھئی ،لوہار، مستری کاریگر ہوتے ہیں ویسے ہی ان کے ہاں انجینیر ، میکینک، الکٹریشن وغیرہ تجربہ ان کابڑھاہوابہت بڑھاہواسہی۔
میرصاحب: حدکردی آپ نے بھی شیخ صاحب۔ یہ کوئی کمال ہی آپ کے نزدیک نہ ہوا کہ آدمی گھربیٹھے سینکڑوں ہزاروں میلوں کی خبریں دم بھرمیں سن لے۔ لندن کا آدمی گویادیوارکے پیچھے کھڑاہو،اوراب توبولنے والوں کی تصویریں بھی آجایا کرے گی اورپھرخرچ ہی کیا۔ دوچارسومیں اچھاساسٹ لے لیجیے، دیہات میں بیٹری لگا کرسنیے، سفرمیں ساتھ رکھیے۔
شیخ صاحب: جی ہاں اوریہ کمال کچھ کم ہے کہ گھربیٹھے جن بائی صاحبہ کاچاہیے پتہ لگا لیجیے۔ نہ بدنامی کاڈرنہ گلیوں میں خاک چھاننے کی ضرورت۔
میرصاحب: لاحول ولاقوة آپ کی نظربھی سب چھوڑچھاڑکہاں جاکرپڑی! میں کہتاہوں کہ اول توموسیقی کی سرپرستی میں عیب ہی کیاہے۔ زندہ قومیں توزندہ اسی کے دم سے ہیں اورپھرماناکہ ایک عیب آپ نے ٹٹول لیا۔ سوہنر بھی تو اس کے مقابلہ پر دیکھیے۔
شیخ صاحب: وہی توجانناچاہتاہوں یہ مشین پرمشین جودن پردن ڈھلتی جاتی ہے آخر اس سے کیافائدہ دنیاکوپہنچ رہاہے؟
مرزاصاحب: میں توفائدہ سے مرادیہ لیتاہوں کہ انسان کوزندگی میں راحت ملے ، سکھ نصیب ہو۔
شیخ صاحب: توبس اپنے ہی قائم کیے معیارپران نت نئی کوششوں کوجانچ لیجیے ۔ ریل کانام آپ پیش کریںگے۔ اچھااسی کو لیجیے یہ فرمائیے کہ غلّہ کی مستقل گرانی جواب ہوگئی کبھی ریل کے دورسے پہلے بھی تھی؟
میرصاحب: سبحان اللہ ۔ریل کااس میں کیاقصور، ریل توقحط زدہ علاقوں میں غلّہ پہنچا کر مصیبت ہلکی کردیتی ہے۔
شیخ صاحب: جی کیسی کچھ ! ادھرغلّہ کھیتوں سے کٹ کرآیانہیں کہ ادھر مال گاڑیوں میں بھر بھرکر باہر چلااورپھرملک کے اندرالٹ پلٹ کررہتاجب بھی غنیمت تھا۔ یہ خدا معلوم کہاں سے کہاں پہنچ جاتاہے۔ ایسے میں گرانی نہ ہوتوکیاہو؟
میرصاحب: میں تودیکھتاہوں کہ مسوری اورنینی تال اورشملہ آنافاناً پہونچا دینا ریل ہی کا کام ہے۔ ریل نہ ہوتی توہم ترسا کرتے اوران صحت بخش مقاموں کی ہوابھی نہ لگنے پاتی۔
شیخ صاحب: اورریل خود بیماریوں کاگھرہے ،یہ انجنوں کابھک بھکاتاہوادھواں آپ کے خیال میں بالابالاچلاجاتاہے؟ سانس پر ،پھیپھڑوں پراس کاکوئی اثرہی نہیں پڑتا؟ نزلہ اس سے پیداہوجائے، حلق میں خراش اس سے ہوجائے، کھانسی اس سے آنے لگے، دق اورسل کی بنیادیہ پیداکردے۔ کوئی ایسی ویسی چیزہے۔ کسی بڑے جنکشن پرذراکچھ دیرتماشہ دیکھیے تو بادل کے بادل ہیں کہ دھوئیں کے چھائے ہوئے جمے ہوئے۔ کپڑے الگ غارت، ہاتھ منہ الگ کالک میں لت پت، اورکوئلہ کے ذرّے ہیں کہ گھسے جارہے ہیں، آنکھ میں، کان میں، ناک میں۔ انجن والوں بیچاروں کی تووہ گت بن کررہتی ہے کہ سبحان اللہ ۔اللہ نہ کرے دشمن کابھی منہ کالاہو۔
میرصاحب: آپ اپنی ہی کہے جائیے گایادوسرے کی سنیے گا۔
شیخ صاحب: بات ابھی ختم کہاں ہوئی جودم لوں ،اپنی کالی کلوٹی کے گن ابھی آپ نے پورے سنے کہاں؟ اپنے کسی لمبے سفر کو یاد کرلیجیے ۔مسلسل جھٹکے اوردھچکے اور کمر توڑ ہچکولے انسان کوپیس کر چورچور کرکے اعصاب چاہے فولاد کے بنے ہوں جب بھی انھیں دھونس کررکھ دیں۔ پھررات کے سناٹے میں کوس کوس دودوکوس کے فاصلہ سے سن لیجیے کہ انجن گھڑگھڑاتاہوا، دھک دھکاتاہوازمین کاسینہ چیرتے ہوئے چلاآرہاہے، جیسے جنگل کاکوئی دیوچیختا چنگھاڑتا پھنکارتاہواآرہاہے ۔یہ آج جواتنی کثرت سے غصبی اورخفقانی بیماریاں نکل پڑی ہیں ان میں کوئی ہاتھ ریلوے بازی کانہیں؟ ذراکسی محقق ڈاکٹر سے تو پوچھ دیکھیے ۔
میرصاحب : غرض دنیاجہاں کی ساری خرابیا ں ریل میں آکر جمع ہوگئی ہیں۔
شیخ صاحب: ابھی کیاہے سنے جائیے ۔ہیضہ اورطاعون اورچیچک اورخداجانے اور کون کون، آپ ہی کے ڈاکٹر کہتے ہیں کہ لگنی بیماریاں ہوتی ہیں۔ یہ ملک الموتی وبائیں کہ ابھی کلکتہ میں تھیں ابھی بمبئی پہنچ گئیں، ابھی مدراس میں نمودار ہوئیں ابھی پشاور میں جانکلیں، یہ سب آپ کی ریلوے ہی کی برکت نہیں تواورکیاہے، اور پھر یہ توہوئیں جسمانی بیماریاں باقی جہاں پہلے پہل آپ کی یہ سواری باد بہار ی پہنچتی ہے وہاں اس کے جلومیں شراب خواری ناچ گھرااورکیاکیانہیں پہونچتا۔ کچھ اس کی بھی خبرہے۔
میرصاحب: اورفائدہ ان ساری برائیوں کے مقابلہ میں ایک بھی نظرنہ آیا۔
شیخ صاحب: ایک یہی فائدہ کیاکم ہے کہ پیروں کی قوت دن بدن جواب ہی دیتی چلی گئی۔ باپ داداتیس تیس چالیس چالیس میل کی منزل پیدل مارنے والے، صاحب زادوں کے سامنے نام آٹھ دس میل کابھی لیجیے تواوسان خطاہوجائیں اور ریل ہی کیا آپ کی سائنس کوخداسلامت رکھے موٹر اورٹرام ،لاری اورسائیکل اور موٹرسائیکل
ع جوتری بزم سے نکلا سوپریشاں نکلا
اورپھرآپ کے کارخانہ کی خوشبوﺅں کا کیا کہنا، جیبی آلہ کواٹھا کردیکھیے ربڑکی بدبو سے ناک بس جائے۔ جس مشہن کو چلائے پٹرول کی گندگی سے دماغ اڑجائے ۔ کیسی کیسی عطر بیز گیسیں، کیاکیا شامّہ نوازایسڈ اورتیزاب میرے شیرنے ایجاد کر ڈالے۔
مرزاصاحب: جی ہاں نفاست توختم ہے سائنس والوں پر، ان کی کسی لیبوریٹری میں کسی فیکٹری میں جانکلیے ممکن نہیں رومال ناک پر نہ رکھ لیناپڑے۔ لیکن شیخ صاحب یہ آپ کی بھی زیادتی ہے کہ ساراالزام ان ایجادوں ہی کے سرمنڈھے دیتے ہیں۔ بیجامصرف جس چیز کابھی کیجیے وہ بری بن جائے گی۔ میرے خیال میں تومشینوں کے استعمال کوصرف ضرورت کے وقت تک محدود کردیاجائے تو ان کے نقصانات گھٹ تویقینا جائیںگے چاہے بالکل دورنہ ہو۔
میرصاحب: آپ بھی مرزاصاحب کس کی باتوں میں آگئے ۔ہمارے شیخ صاحب تووہ ہیں کہ دن دوپہرآفتاب ہی سے انکار کر بیٹھیں ۔آنکھوں میں خاک جھونکنا اور کسے کہتے ہیں؟ وہ دن بھول گئے جب رات میں قدم گھر سے باہرنکالتے توقدم قدم پر ٹھوکر کھاتے، یہ سائنس ہی کاکرشمہ ہے کہ شہرکاہر گلی کوچہ جگمگاتارہاہے اوراب توبجلی گاﺅں گاﺅں پہنچتی جارہی ہے۔
شیخ صاحب: جی ہاں وہی بجلی کے لیمپ نہ جن کی شان میں حضرت اکبر قصیدہ خوانی کرگئے ہیں
ع روشنی آتی ہے اور نور چلا جاتا ہے
یہ بھی خبرہے جب سے روشنیاں نکلیں خاص لندن کی گلیوں میں جرموں کی تعداد گھٹی نہیں اوربڑھ ہی گئی۔ لندن کی نائٹ لائف (شبانہ زندگی) پر تومستقل کتابیں وہیں کے محققین نے لکھ ڈالی ہیں۔ کبھی ذراانھیں اٹھاکردیکھ لیاکیجیے”روشنی میں اندھیر“ کے معنی سمجھ میں آجائیں گے، اچھاجانے دیجیے، لندن اورپیرس کی اس تحقیق کو ذرا یہیں کے کسی مبصرسے پوچھ دیکھیے کہ اتنی تیز تڑپ کااثر بصارت پرکیاپڑتاہے؟ کیاخوب ترقی ہے پہلے آنکھیں پھوڑیے پھرآنکھ کے علاج کے لیے عینکیں خریدیے ”روشنی طبع“ کابَلاہونا توشاعروں کی زبان سے سناتھا اس روشنی برق کا بلاہونا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں
لکھے گا کلِک حسرت دنیاکی ہسٹری میں
اندھیر ہو رہا ہے بجلی کی روشنی میں
میرصاحب: آپ توہرسیدھی بات الٹی کردیتے ہیں۔لیکن میں بھی دیکھتاہوں کہاں تک ہٹ دھرمی سے کام لیجیے گا؟ ایک اس بات کو لے لیجیے کہ جب تک یہ پانی کے نل نہیں لگے تھے، سقّہ بِھشتی کارونا جھیکنا کیساگھرگھر مچارہتاتھااور اب وہی ہے کہ بے محنت بے کھٹکے پانی چلا آرہاہے۔ نہ ڈول رسّی کاجھگڑا نہ پانی کھینچنے کی مشقّت ۔ مزے سے جب چاہا بمباکھول دیا نہالیے دھولیے۔
شیخ صاحب: جی کیاکہنے ہیں واٹرورکس کی برکتوں کے ۔پانی تک نپ اورتُل کر بکنے لگا۔ یہ حدہے ترقیوں کی، جس دیس میں گلی گلی سبیلیں لگیں اورجانوروں تک کے لیے پیاﺅ چلاکریں وہاں آج دودن کی دیرہوجائے میونسپلٹی میں واٹرٹیکس داخل کرنے کی، چلیے پانی بند ترسا کیجیے حلق ترکرنے کو۔
مرزاصاحب: اوریوں بھی پانی وقت ہی وقت نل میں آتاہے، اتنے گھنٹے صبح اتنے گھنٹے شام ۔
شیخ صاحب: اورمیں توکہتاہوں کہ صاف شفّاف ،بہتاہواکھلاپانی چھوڑچھاڑ، بند گھٹا ہوا، طرح طرح کی ترکیبوں سے پکے پکائے ہوئے پانی میں آخر جان ہی کیا رہ جاتی ہے، اورگرمیوں میں توبس مزہ ہی آجاتاہے۔ وہ تپتے ہوئے بمبے اوردہکتے ہوئے نل اورکھولتے ہوئے پانی کی دھار۔ برف کاسہارانہ ہوتوحلق جھلس کررہ جائے۔
میرصاحب: توآخربرف کیوں نہ پی جیے؟ کیاایسی نعمت پیسہ دوپیسہ سیربھی مہنگی ہے؟
شیخ صاحب: جی کیوں نہ پیجیے، بڑے شوق سے پیجیے چاہے دانتوں پر معدہ پر اور اعصاب پرجوکچھ بھی بیت جائے۔ آخربرف بھی توہے سائنس کی پیداوار اور مشینوں سے تیارہونے والی نعمت ۔
میرصاحب: خیروہ کچھ بھی سہی یہ فرمائیے کہ ایسے شاندار اسپتال اس دورسے پہلے کب تھے، سامان راحت وہ ہے کہ گھرسے بڑھ کر آرام دہ۔
شیخ صاحب: اوریہ نئی نئی بیماریاں عصبی اوردماغی اورہرہرطرح کی جواب نکل پڑی ہیں ان کے نام تک بقراط وجالینوس نے کب سنے تھے؟ زہرخورانی کب اتنی عام ہوئی تھی؟ خودکشی کب آج کی طرح داخل فیشن ہوئی تھی؟ گندی سی گندی بیماریاں اپنے ہاتھوں کی پیداکی ہوئیں کب اس طرح انسان انسان پرمسلط ہوئی تھیں ؟ اور سب آڑپکڑے ہوئے سائنٹیفک ایجادوں اور آلوں کی۔
مرزاصاحب: اجازت ہوتوایک اصولی بات میں عرض کروں۔ مل کے نام سے تو آپ دونوں واقف ہی ہیں وہی انگلستان کامشہور فلسفی، ایک جگہ لکھ گیاہے کہ نیچر اور آرٹ کے درمیان نسبت تضادہے۔ یعنی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ میرے خیال میں کچھ ایساہی رشتہ نیچر اورسائنس کے درمیان بھی ہے۔ گویا جوچیزجتنی زیادہ انسانی سائنس کی شرمندہ احسان ہوگی اسی قدروہ طبعی اورفطری حالت سے دور ہوگی۔ ہے یہ بات نہ؟
میرصاحب: یہ موشگافیاں تومیں جانتا نہیں ۔سیدھی سی بات یہ دیکھتاہوں کہ دوربینوں نے آسمانوں تک کوچھان ڈالاہے یوں کہیے کہ ستاروں کی مردم شماری کر ڈالی ہے پھریہ بھی سن لیجیے کہ فلاں ستارہ اتنا بڑاہے فلا ن زمین سے اتنی دورہے فلاں کی رفتار فی منٹ اتنی ہے۔ واللہ یہ عجائبات ہیں عجائبات۔
شیخ صاحب: عجائبات کیوں؟ کہیے معجزات ہیں معجزات ! قصورمعاف یہ نہ ارشاد ہواکہ اس ستارہ نوردی اورآفتاب گردی سے آخرحاصل کیا ہوا؟ انسانیت کی راہ کی کتنی منزلیں طے ہوئیں؟یہ مسافتیں اورحقیقتیں نہ معلوم ہوتیں توانسان کی تکمیلِ انسانیت میں کون سی کسرباقی رہ جاتی؟ وقت اور قوت کا صرف بے حساب ،روپیہ کا خرچ بے شماراورپھر ہاتھ کیا لگا؟ مادّی ؟ روحانی؟ کچھ توبتائیے اس لاحاصل دوربینی اورستارہ پیمائی سے توڈلیا ڈھونا اورگھاس کھودنا کیابراہے؟
میرصاحب: کیاخوب! بس معلوم ہوگئی آپ کی قدردانی ، یہ کوئی ترقی ہی آپ کے خیال میں نہیں کہ خاک نشیں انسان ہوامیں اڑنے لگا۔ طرح طرح کے اڑن کھٹولے ایجادکرلیے۔ ملکوں ملکوں کی سیر آناً فاناً کرڈالی آپ کے نزدیک یہ کوئی ترقی ہی نہیں ہوئی۔
شیخ صاحب: اچھاتومعیار ترقی یہ ٹھہرا۔ مگرحضوروالایہ ترقیاں توآج سے نہیں ہمیشہ سے حاصل ہیں۔ جنگل کی چڑیوں کو درختوں پرگھونسلابنانے والے پرندوں کوچیل اور کوّے اورگدھ اورکبوتر اوربازسب ہی ہوامیں خوب فراٹے بھرلیتے ہیں، منزلوں کی خبردم میں لے آتے ہیں، حضرت انسان نے یہ بلند پروازی کے سبق جوکچھ سیکھے ہیں انھیں جانوروں کودیکھ کر سیکھے ہیں، یقین نہ آئے توفن ہوا بازی کی جوسی کتاب چاہیے اٹھاکردیکھ لیجیے۔
میرصاحب: خیراب آپ سے مغز کون خالی کرے۔ میں تویہ چاہتاہوں کہ جیسے جیسے عجیب اورنادرآلات جنگ آج سائنس جدید نے ایجاد کرلیے ہیں رستم اوربھیم کے تو خواب وخیال میں بھی نہ آئے ہوںگے۔
شیخ صاحب: یہاںتومیں بھی قائل ہوگیاسائنس کی استادی کا۔ واقعی بات ہے کہ خوب ہی سکھادیا آپ کی سائنس نے بھائی کو بھائی کاپھاڑ کھانا، جسم کے ریشہ ریشہ کا قیمہ کر ڈالنا۔ ہاتھ، پیر،کان، آنکھ، ناک کے پراخچے اڑادینا، سائنس کی راہ سے جسم کے پور پور میں زہراتاردینا۔ آپ سے زیادہ مانتاہوں کہ یہ حصّہ ہے آپ کے سائنس کا! میں توکہتاہوں کہ یہ لطیف صنعتیں دیکھ کر جنگل کے شیراورتیندوے اور ریچھ اور بھیڑیے ،سانپ اور اژدھے سب اپنے کان پکڑکررہ گئے! کیابات ہے آپ کے سائنس کی ۔بات کی بات میں انسان کودرندوں سے بڑھ کردرندہ بنا ڈالا۔
مرزاصاحب: اوراصلی جوہر توسائنس کامیدان جنگ ہی میں کھلتاہے۔ اخباروں میں آپ نے پڑھا نہیں کہ ایک صاحب کرہ مریخ کے یہیں اسی زمین کے دون کی لینے پرآئے توبولے خبردار جوکوئی میرے قریب پھٹکااپنے خفیہ اوربے پناہ حربہ کا وہ ہاتھ دوںگاکہ بھاگتے راہ نہ ملے گی۔ ادھرسے حریف کے ڈائرکٹرآف سائنٹیفک ریسرچ نے گرج کرجواب دیاکہ مردود اس بھول میں نہ رہنا ،یہ میرے محکمہ کے آٹھ سو سورما نوٹولیوں میں تقسیم اپنارات دن کس لیے ایک کیے ہوئے ہیں؟ عین وقت پروہ شگوفہ چھوڑوںگا کہ دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ جائے گی۔
شیخ صاحب : تویہ کہیے
ع دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی
ہاں صاحب پڑھے جنوں کااتارنا کوئی دل لگی ہے۔
مرزاصاحب: میرے خیال میں توگفتگو کوبہت طول ہوچکااب مجلس برخاست ہو ہمارے میرصاحب بھی کچھ پریشان ہوچلے ہیں۔
میرصاحب: نہیں پریشانی کاہے کی۔ البتہ رہ رہ کرحیرانی اس پرہوتی ہے کہ ساری دنیا سے عنقا خیالات ہمارے شیخ صاحب ہی کے کیوں ہیں؟
مرزاصاحب: توآپ کے خیال میں یہ بھی کوئی جرم ہے؟
شیخ صاحب: اورجرم ہوبھی توبندہ تنہا مجرم ہے کیا؟رسکن اورکارپنٹر اورخداجانے کتنے تو یورپ ہی میں میرے ساتھ ہیں۔ باقی رہا ہندوستان توکم ازکم گاندھی جی کے انڈین ہوم رول کے اُردوترجمے ہی دیکھ لیے جائیں۔
مرزاصاحب: لیکن میرے نزدیک توکچھ زیادتی آپ کی بھی ہے شیخ صاحب ۔
شیخ صاحب: وہ کیاکھل کرکہیے نہ ؟
مرزاصاحب: زیادتی یہی کہ سائنس کو ایک سرے سے براکہہ دیاجائے اورمطلب تو غالباً آپ کابھی یہ نہیں سائنس کودراصل جس چیزنے اتنا بدنام کردیاہے وہ اس کا غلط اوربے جا استعمال ہے نہ کہ سائنس بجائے خود، سائنس توبس ایک قوت ہے جیسے آگ یاکسی پہلوان کاجسم، اب اگرپہلوان اپنی طاقت کوزوروظلم میں صرف کرنے لگے تو یہ خطا پہلوانی کی نہیں پہلوان کی ہوئی، آگ کو قابومیں رکھیے تو جوچاہے خدمت لے ڈالیے اوروہی آگ اگربے قابو ہوگئی توخودآپ ہی کوجلاڈالے گی۔ یہی حال سائنس کا ہے۔ انسانیت کواس پرحاکم رکھیے تو نعمت ہی نعمت اورجو کہیں اس کوانسانیت پر حاکم بنادیا تولعنت ہی لعنت ۔
شیخ صاحب: اے زندہ باد۔ کیاخوب فیصلہ کردیا میں توخوداسی نتیجے کی طرف لارہاتھا۔ ہمارے ہاں کے حقیقت شناس تو صدیوں پیشتریہی فیصلہ کرگئے ہیں
علم را بر تن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود
علم کوکہیں آپ نے نفس کے تابع کردیاتو وہ سانپ اوراژدہا بن کر رہے گا اور اگر عقل سلیم کے تابع رکھاتو اس سے بڑھ کر رفیق اور کون؟
آب در کشتی ہلاک کشتی است
آب اندر زیر کشتی پستی است
پانی اگرکشتی کواٹھائے ہوئے ہے تورحمت ہی رحمت اور کہیں پانی کشتی کے اندر آگیا توہلاکت ہی ہلاکت۔
مرزاصاحب: سبحان اللہ ایسے عارفوں کے کلام کاکیاکہنا اچھاتواجازت ہے نہ؟
میرصاحب: آداب عرض۔
شیخ صاحب: خداحافظ"
٭٭٭
منقول: نشریات ماجدی۔ترتیب جدید مع تخریج و تحشیہ: مرتبہ زبیر احمد صدیقی،براون پبلی کیشنز، نئی دہلی، 2016ء