۔(یہ تقریر لکھنؤ کے مشہور ادیب اور ناول نویس مرزامحمدہادی رسوا کی مایہ ناز کتاب امراﺅ جان ادا پرلکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے 28دسمبر 1950ءکونشر ہوئی، اس میں مولاناؒ نے اپنے مخصوص شگفتہ اندازمیں ناول اورناول نویس دونوں پرجامع ومانع تبصرہ کیاہے۔ دریابادی اس کتاب کی اخلاقی افادیت کے قائل تھے ، اس کتاب کےاولین پارکھ تھے اورانھوں نے اس کاتعارف ادبی وعلمی حلقوں میں باربار داد وتحسین کے ساتھ کرایاہے۔اس ناول سے متعلق دریابادی کی پیشن گوئی آج حرف بہ حرف صادق نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی)۔
چوک کے بالاخانوں پرکمرہ لے کربیٹھنے والیاں اپنی عصمت وناموس کی تجارت کرنے والیاں اس قابل کب ہیں کہ ان کاذکر شریفوں کی بھائی برادری میں کیاجائے؟ چہ جائے کہ ان ناشدنیوں کے حالات پرکتابیں لکھی جائیں، انھیں چمکایاجائے، پھیلایاجائے!۔اورپھریہ حال توآج ہے بیسویں صدی کے وسط میں آج سے پچاس پچپن سال قبل بھلاکس کی مجال تھی جوایسی جرات کرتا اور بیٹھے بٹھائے مفت میں نکّوبنتا۔ آفریں ہے مرزامحمدہادی لکھنوی ملقب بہ مرزارسوا کوکہ ایسی پیش قدمی اس وقت کرڈالی اور اپنے حساب تواپنے کو رسوا ہی کرگئے۔
امراﺅجان اداکی تصنیف کازمانہ انیسویںصدی کادورآخروہ ہے جب ملک میں طوطی شرر صاحب کے تاریخی ناولوں کابول رہاتھا اور نذیراحمدکے ناول نما افسانے توتمام تر اخلاقی پندنامے ہوتے تھے ،لے دے کے ایک سرشار ایسے تھے جواپنے ناظرین باتمکین کوسیرچوک اورنخاس، امین آباد اورحضرت گنج کی کرادیتے، اور شرابیوں،کبابیوں، جواریوں کی جمگھٹ میں لاکھڑاکرتے ۔لیکن یہ سرشار بھی باوجوداپنی رندی اورسرمستی کے تھے اتنے باادب وہوشیار، جب ساقی نامہ پرطبع آزمائی فرماتے تواگرپہلامصرعہ یہ لاتے:
ع پلا ساقیا مالوے کی افیم
تواس نشہ میں بھی گلگشت جنت ہی کی سوجھتی اورقافیہ میں قافیہ یوں ملاتے:
ع کہ ہوجس سے گلگشت باغ نعیم
تومتانت وثقاہت کی اس فضامیں یہ مرزا ہی کادل وجگرتھاکہ ایک اونچی ڈیرہ دار کی کہانی اسی کی زبانی سنادی، اورکچھ کم دوسوصفحہ کی کتاب میں ایک سطربھی ایسی نہ آنے دی کہ جومذاق سلیم پربارہو۔ اورحضرت محتسب کی خاطر عاطرکوناگوارہو! کہانی آپ بیتی یا خود گزشت ہے، اورطوائف ظاہرہے کہ جب اپنی بھرپور جوانی کی سرگزشت سنانے پرآئے گی توکیاکوئی بات اٹھارکھے گی۔ ناچ مجرے کی گرماگرمیاں، آشناﺅں قدردانوں کی آمدو رفت، گویّوں، ڈھانڈیوں، سازندوں کی تعلیمیں، ہم جولیوں سے ہنسی چہل، نوابوں، رئیسوں سے راہ ورسم ۔ درباروں، سرکاروں سے توسّل، رشک ورقابت کی نوک جھونک، تماش بینی کے آداب دستور، تماش بینوں کی لتیں اورعلتیں، غرض سارے اتارچڑھاﺅ اپنی اپنی جگہ موجود لیکن قلم کی شرافت کاری سب کواپنے دامن میں سمیٹے ہوئے! نکتہ چیں عموماً کم بیں ہوتے ہیں ، اور پھرلکھنؤ کے نقادکیاکسی کوچھوڑتے ہیں۔ جب میرومرزا (2) کونہ چھوڑاتو اورکسی کو کب بخشتے ہیں، لیکن یہ روئداد زندگی دلوں کوکچھ ایسی بھائی اوردماغوں میں ایسی سمائی کہ نہ کوئی زبان حرف گیری پرکھلی اورنہ کسی کے جبین احتساب پرشکن پڑی۔ شروع کے چندسال توکچھ سردمہری اوربے التفاتی سی رہی، اس کے بعد دلی کے ایک اہل زبان نے عین اسی رنگ میں شاہدِرعنا وغیرہ ناول پیش کرنے شروع کردیے۔ اورپھر مصنف کی وفات پرجب اس کم سوادبے استعداد نے ان ناولوں کاتعارف ہندوستانی اکیڈمی کے رسالہ ہندوستانی کے صفحات میں کرایا توگویا کہ ایک دنیا مشتاق ہوکرٹوٹ پڑی۔ مقالہ خداجانے کتنے ہفتہ واروں اورروز ناموں میں نقل ہوتارہا اور امراﺅجان ادا تواس کے معاً بعد ایک یونیورسٹی کے ایم اے کے اردوکورس میں داخل ہوگئی۔
یہ امراﺅجان ادا کوئی پیدائشی بیسوانہ تھیں۔ اودھ کاپرانا دارالسلطنت فیض آباد ہے اور اس کوکسی زمانہ میں شہر بنگلہ بھی کہتے تھے (شاید اس مناسبت سے کہ نواب اول سعادت خاں برہان الملک نے اپنے لیے یہاں ایک بنگلہ لکڑی کاتیارکرایاتھا) فیض آباد کو ادب اور موسیقی سے جولگاﺅہے اس کاظہور میرانیس کے وقت سے آج تک ہورہاہے۔ یہ مسماة وہیں پیداہوئیں ایک کھاتے پیتے گھرگرہست خاندان میں، نوابی کازمانہ بردہ فروشی کاچلن، کوئی ظالم گھرسے بہلاپھسلالے اڑا اور نوبرس کی بچی امیرن کولکھنؤ لا،چوک کی ایک مشہورنائکہ کے ہاتھ بیچ گیا، اوراس ماحول مں امیرن امراﺅجان بن گئیں۔اپنے پیشہ میں خوب بڑھیں، خوب چمکیں، خوب پھلیں۔ نستعلیق پڑھی لکھی شائستہ باذوق تھیں ہی، شعرو شاعری کرنے لگیں اور ادا ؔتخلص رکھ لیا۔
کتاب ان کے کلام کے نمونوں سے بھری پڑی ہے۔ اورکلام ان کاکیوں کہیے خود مرزاصاحب کاہے۔یہ بھی عجب مذاق تھا، کہتے خودگئے اورتخلص ادا کا ڈالتے گئے۔ نمونہ آپ بھی سننا چاہتے ہیں ملاحظہ ہو:
آج اس بزم میں وہ جلوہ نما ہوتا ہے
دیکھیے دیکھیے اک آن میں کیا ہوتا ہے
بت پرستی میں نہ ہوگا کوئی مجھ سا بدنام
جھینپتا ہوں جوکہیں ذکر خدا ہوتا ہے
عشق میں حسرت دل کا تو نکلنا کیسا
دم نکلنے میں بھی کمبخت مزا ہوتا ہے
تا لبِ گور پہنچ جاتے ہیں مرنے والے
وہ بھی اس وقت کہ جب شوق رسا ہوتا ہے
آہ میں کچھ بھی اثر ہو تو شرر بار کہوں
ورنہ شعلہ بھی حقیقت میں ہوا ہوتا ہے
کس قدرمعتقدعشق مکافات ہوں میں
دل میں خوش ہوتاہوں جب رنج سوا ہوتا ہے
شوق اظہار اگرہے تو میرے دل کو نہ توڑ
اسی آئینہ میں تو جلوہ نما ہوتا ہے
چھوٹی رواں بحروں میں بحرطبع کی روانی کاکیاپوچھنا:
مرتے مرتے نہ قضا یاد آئی
اسی کافر کی ادا یاد آئی
ہجر کی رات گزر ہی جاتی
کیوں تری زلف رسا یاد آئی
لذت معصیت عشق نہ پوچھ
خلدمیں بھی یہ بلا یاد آئی
تم جدائی میں بہت یاد آئے
موت تم سے بھی سوا یاد آئی
چارہ گر زہر منگا دے تھوڑا
لے مجھے اپنی دوا یاد آئی(5)
ایک اورغزل کے گنتی کے 4شعراورسن لیجیے:
شب فرقت بسر نہیں ہوتی
نہیں ہوتی سحر نہیں ہوتی(6)
جان دینا کسی پہ لازم تھا
زندگی یوں بسر نہیں ہوتی
ہے یقین وہ نہ آئیں گے پھربھی
کب نگہ سوئے درنہیں ہوتی(7)
غلط انداز ہی سہی وہ نظر
کیوں مرے حال پرنہیں ہوتی
کتاب بھرمیں اورکچھ نہ ہوتابس یہی دوچارغزلیں ہوتیں جب بھی اہلِ ذوق کتاب کوسینہ سے لگاکر رکھتے، لیکن یہاں تواچھاخاصا ذخیرہ اسی رنگ کے کلام کاموجود ہے۔
اب رہی نثرتومرزاصاحب کی زبان خودہی ایک معیار، اردو زبان کی صحت شستگی وفصاحت کاہے۔ ان کاروزمرہ خالص لکھنؤ کاروزمرہ، اوران کی بول چال سوفی صدی ٹکسالی ہے۔ حدیہ ہے کہ وہ میرانیس تک کوسند نہیں مانتے تھے۔ اتناانھں اعتماد اپنی زبان پرتھااوران کی زبان کے جوہرجن تین ناولوں میں سب سے زیادہ کھلے اورچمکے ہیں وہ "ذات شریف" اور"افشائے راز" کے علاوہ اسی امراﺅجان میں۔ ان کافن منتہائے کمال کو اسی کتاب میں پہونچاہے۔ اورتکمیل فن میں ان کی نظر سب سے بڑھ کرروزمرہ کے پہلوپرتھی۔ لؤھن کے ادیبوں، منشیوں اورانشاپردازوں کی جوزبان ہے وہ بہت سی کتابوں میں مل جاتی ہے، لیکن جسے لکھنؤ کاروزمرہ کہیے، یاوہ زبان جولکھنؤ والوں کے گھروں میں بولی جاتی ہے، اس کے نمونے انی گنی صرف چندکتابوںمیں نظرآئیں گے اوران چند میں ایک امتیازی مرتبہ پرامراﺅجان ہے۔
زبان کے پہلوکوچھوڑکر حکمت ومعنویت کے رخ پر آئیے تو کتاب نفس بشری سے متعلق نکتوں اورحقیقتوں سے مالامال ملے گی۔ لیکن سب وہی اشارے کنائے ہیں ۔ یہ خیال بھی کہیں نہ گزرے گاکہ کوئی دَرس معرفت وحکمت کادیاجارہا ہے۔ یہ سارے حقائق ومعارف کے لیے اندازبیان جواختیارکیاگیاہے وہ حددرجہ سادہ، اوربے ساختہ، ہلکے پھلکے فقرے، نرم شیریں، رسیلی عبارتیں، نہ کہیں اصطلاحات کاثقل نہ کہیں ادق بغاوت کے پتھر(8) اورنہ کہیں مغلق اورپیچ دارترکیبوں کابار۔
ایک آدھ مثال آپ سن لیناچاہتے ہیں؟ لیجیے بچپنے کی سائیکالوجی ۔ امراﺅجان اپنے بچپن کاحال بیان کرتی ہیں:
"اماں چھوٹے بھیّاکوبہت چاہتی تھیں۔ چھوٹے بھیاکے لیے میں نے بہت مارکھائی مگرپھربھی مجھے اس سے بے انتہامحبت تھی۔ اماں کی ضدسے تومیں نے دودو پہر گودمیں نہیں لیا۔مگرجب ان کی آنکھ اوجھل ہوئی فوراً گلے سے لگالیا۔ گودمیں اٹھالیا۔ پیار کرلیا۔ جب دیکھا اماں آتی ہیں جلدی سے اتاردیا،اب وہ رونے لگا۔ اس پراماں سمجھتی تھیں کہ میں نے رلادیا۔ لگیں گھڑکیاں دینے ۔"
ایک اورموقع۔ امراﺅجان اب اپنے پیشے میں بڑانام پیداکرچکی ہیں اورلکھنؤ چھوڑ کراپنے وطن پیدائش فیض آبادآئی ہیں۔ ایک روزایک صاحب ادھیڑعمرکے ان کے کوٹھے پرآتے ہیں اورباتوں باتوں میں پتہ چلتاہے کہ بہوبیگم کے عزیزوں اور وثیقہ داروںمیں سے ہیں۔ امراﺅجان کے باپ اسی بہوبیگم کے مقبرہ میں جمعدار تھے۔ دل میں قدرتاً خیال پیداہوتاہے کہ ان صاحب سے اپنے والدکی خیریت دریافت کی جائے، لیکن مرزاصاحب اس وقت امراﺅجان کی زبان پربراہ راست یہ سوال بالکل نہیں آنے دیتے، وہ گھوم گھام کر مقبرہ کاذکرنکال رہی ہیں، وہاں کے ملازموں کی بابت دریافت حال کررہی ہیں، لیکن پٹ سے یہ سوال کردیتیں کہ وہ بوڑھے جمعدار روشنی کے مہتمم کیسے ہیں۔ دل جودھڑک رہاہے کہ خدامعلوم کیاسننے کوملے ۔آخرخودانہی صاحب کی زبان سے نکل گیاکہ "وہ جمعدارتوغدرسے پہلے ہی مرگئے، اب ان کالڑکا ان کی جگہ پرہے۔" اوریہ سنتے ہی گویاایک برچھی امراوجان کے پارہوگئی۔
ایسے ایسے نفسیاتی چٹکلے کتاب بھرمیں بکھرے پڑے ہیں، اورعجب نہیں جواس کتاب کوبڑی طویل زندگی بخش دیں۔ ایسے چٹکلے جیسے اکبرالٰہ آبادی کے شعرمیں ملا کرتے ہیں۔
گفتگوختم ہونے سے قبل ایک لطیفہ سن لیجیے ،ناول پڑھ کر لکھنؤ کے کسی طبیعت دار منچلے نے مرزاصاحب کوخط لکھا کہ :
"حضرت اپنی امراﺅجان سے ہمارابھی تعارف کرادیجیے۔"
مرزاصاحب کیاچوکنے والے تھے، جواب دیاکہ:
"امراﺅجان توغدرسے پہلے جوان ہوچکی تھیں۔ آج زندہ ہوتیں توآپ کی اماں جان سے بھی بڑی ہوتیں، اورمیں بڑی خوشی سے ایسے سعادت مند فرزندکوان سے ملادیتا۔"
صحیح کردارنگاری اورماحول کی صحیح مرقع کشی کے لحاظ سے کتاب اپنی نظیرآپ ہے ، اور دردانگیزی کے لحاظ سے بعض بعض ٹکڑے توانتہائی موثرہیں۔ مثلاً وہ دونوں موقعے جہاں امراﺅجان پہلے اپنی ماں سے ملتی ہیں اورپھراپنے بھائی سے۔ دونوں سے ملاقات کارنگ دونوں موقعوں کے تاثرات بالکل جداگانہ ہیں، اوریہ مصنف کی حکیمانہ افسانہ نگاری کے آیات کمال میں سے ہے۔
غزل میں ایک خاص چیزغزل کامقطع ہوتاہے، اوراکثراستاد اپنی استادی کا کمال اسی میں دکھاتے ہیں۔ کتاب کا سب سے آخری پیراگراف حاصل کتاب ہے۔ حکمت و دانش کا عطر۔ سعدی شیرازی واکبرالٰہ آبادی دونوں کی روح گویاکشیدہوکر آگئی ہے۔ امراﺅجان کا آخری پیام اوروصیت ہے اپنی ہم پشہک بدنصیب بہنوں کے نام، سنیے۔
"اے بے وقوف رنڈی کبھی اس بھلاوے میں نہ آناکہ کوئی تجھ کوسچّے دل سے چاہے گا۔تیراآشناجوتجھ پرجان دیتاہے چاردن کے بعدچلتا پھرتانظرآجائے گا۔ وہ تجھ سے ہرگز نباہ نہیں کرسکتا۔ اورنہ تواس لائق ہے ۔سچی چاہت کامزا اسی نیک بخت کاحق ہے جوایک کا منہ دیکھ کردوسرے کامنہ نہیں دیکھتی ۔تجھ جیسی بازاری شفتل کو یہ نعمت خدانہیں دے سکتا۔ خیرمیری توجیسی گزرناتھی گزرگئی، اب میں اپنی زندگی کے دن پورے کررہی ہوں جے دن دنیاکی ہواکھانی ہے کھاتی ہوں، میں نے اپنے دل کو بہرطور سمجھالیا ہے ،اورمیری کل آرزوئیں پوری ہوچکیں، اب کسی بات کی تمنانہیں رہی۔ اگرچہ یہ آرزوکم بخت وہ بلاہے کہ مرتے دم تک نہیں نکلتی۔ مجھے امیدہے کہ میری سوانح عمری سے کچھ نہ کچھ فائدہ ضرورہوگا۔اب میں اپنی تقریر اس شعرپر ختم کرتی ہوں اورسب سے امیدواردعاہوں: