بوفورس جیسی دوسری لاحاصل جنگ

Bhatkallys

Published in - Other

11:49AM Fri 6 May, 2016
حفیظ نعمانی بوفورس توپوں کا سودا اور اس کے ہیرو شری راجیو گاندھی اور قطروچی کی کہانی آج بھی زبانوں پر ہے اور اب ہیلی کاپٹر کے سودے میں رشوت حکمراں پارٹی کے لیڈروں کا دلچسپ موضوع بن گیا ہے۔ دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بات اٹلی کی عدالت کی ہے اور مسز سونیا گاندھی اٹلی کی بیٹی اور ہندوستان کی بہو ہیں۔ اس وقت ملک پانی اور آگ کی مار جھیل رہا ہے صرف اُتراکھنڈ ہی نہیں۔ دوسرے صوبوں میں بھی آگ لگی ہوئی ہے اور پانی کے قحط کا یہ حال ہے کہ ہر کوئی اس پر غور کررہا ہے کہ جتنے پانی سے آگ بجھانے کی کوشش کی جائے گی اس سے کتنے انسانوں اور جانوروں کی زندگی بچ سکتی ہے؟ ایسی حالت میں آگ کو برسات کی رحمت تک یوں ہی جلنے دیا جائے یا دوسری ضرورتوں سے صرف نظر کرکے آگ پر پانی ڈالا جائے؟ اتنے اہم معاملہ سے عوام کا ذہن ہٹانے کے لئے سبرامنیم سوامی جیسے بے مصروف لیڈروں کی ہیلی کاپٹر کے سودے میں رشوت یا دلالی اور وزیر دفاع اور سونیا گاندھی کو لپیٹنا چگیّ بازی نہیں تو کیا ہے؟ ٹی وی چینل اُتراکھنڈ سے اٹھنے والے جیسے آگ کے شعلے دکھا رہے ہیں ان کی گرمی ہمیں لکھنؤ میں محسوس ہورہی ہے۔ یہ وہی اُتراکھنڈ ہے جہاں سے شری نریندر مودی جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اس وقت سیکڑوں گجراتیوں کو اپنے دعوے کے مطابق زلزلہ کے منھ سے نکال لائے تھے اور جب گجرات کے کانگریسیوں نے معلوم کیا تھا کہ وہ کیسے نکالے اور کہاں ہیں؟ تو ہنس کر ٹال گئے تھے۔ وہ آج وزیر اعظم ہیں لیکن کوئی خبر نہیں آئی کہ وہ قیامت خیز آگ کا ہوائی معائنہ کرکے آگئے۔ وہ بھی ہیلی کاپٹر کی رشوت کی بیت بازی میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ہمیں افسوس ہے کہ پاکستان ہم سے اس معاملہ میں بہت آگے ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ 1997 ء میں جب نواز شریف وزیر اعظم تھے تو انہوں نے بے نظیر اور آصف علی زرداری کی بدعنوانیوں کے خلاف تحقیقات غیرملکی ایجنسیوں سے کرانے کے لئے تیس کروڑ روپئے گوری ایجنسیوں کو دیا تھا۔ ان ایجنسیوں نے پوری ایمانداری سے تحقیقات کی اور اتنی باریک بینی اختیار کی کہ ان کی حکومت چلی گئی مگر تحقیقات مکمل نہیں ہوسکی۔ ان کے بعد پرویز مشرف آگئے۔ انہوں نے ’’نیب‘‘ بنایا اور نواز شریف کے زمانہ کے مقدمات بھی اور نواز شریف کی بھی بدعنوانیوں کی تحقیقات کے لئے چالیس کروڑ روپئے نیب کو دے دیئے۔ اس کے بعد وہ حسب طلب برابر دیتے رہے اور ایک معتبر اخبار کا بیان ہے کہ مشرف صاحب نے اتنی باریک تحقیقات کرائی کہ تین سال میں وہ خرچ ڈھائی ارب ہوگیا۔ پھر بھی جب گوہر مراد حاصل نہ ہوسکا تو ایک احتساب بیورو اور بنا دیا۔ اور نواز شریف کی تحقیقات اور ان تحقیقات کی تحقیقات پر دس سال خرچ ہوگئے لیکن احتساب بیورو آخری نتیجہ پر نہ پہونچ سکا۔ ہم نے اور سب نے ان بدنام بوفورس توپوں کا جلوہ کارگل میں دیکھ لیا اور اس زمانہ میں دیکھا جب راجیو دشمن حکومت تھی۔ اٹل جی وزیر اعظم تھے۔ کانگریس کے اور نہرو گاندھی خاندان کے بدترین دشمن جارج فرنانڈیز وزیر دفاع تھے۔ اس کے باوجود پاکستان کی دراندازی کا منھ توڑ جواب دینے کے لئے وہی بوفورس توپیں استعمال کی گئیں جن کے بارے میں برسوں سے شور مچایا جارہا تھا کہ یہ کھلونے ہیں اور رشوت کے بل پر ان کا سودا ہوا ہے۔ کم از کم اس حکومت نے تو کوئی ایسی توپ استعمال کی ہوتی جس کا نام ترشول ہوتا؟ اور یہ اپنی جگہ ہے کہ اٹل جی چھ سال وزیر اعظم رہے لیکن انہوں نے نہ نواز شریف کی طرف کوئی احتساب بیورو بنایا اور نہ سیف الرحمن کی طرح کسی شیوشنکر کو اس کا چیف بناکر 90 کروڑ روپئے تحقیقات کے لئے جیب سے نکالے۔ ہوسکتا کہ پاکستان کی طرح ہمارا ملک بھی تین چار سو کروڑ روپئے برباد کرکے بھی کسی نتیجے پر نہ پہونچتا۔ لیکن صبر تو ہوتا کہ ہم نے اپنے ملک کی بدعنوانیوں کی جڑ تک پہونچنے کے لئے پاکستان سے تین گنا پیسہ خرچ کیا۔ نتیجہ اگر ہمیں نہ ملا تو کیا ہوا نتیجہ تو پاکستان کو بھی نہیں ملا تھا۔ بچپن میں ایک کہانی سنی تھی کہ دو جاٹ خاندانوں میں لڑائی ہوگئی دونوں کے گاؤں بھی الگ الگ تھے۔ ایک چودھری کی گھوڑی بیمار ہوئی تو کسی نے کہا کہ علاج تو ہے مگر تم اس لئے نہیں کرو گے کہ وہ تمہارے دشمن کو معلوم ہے۔ انہوں نے کہا گھوڑی کی زندگی کے لئے ہم ناک نیچی کرلیں گے۔ اور وہ اپنے مخالف کے گاؤں جاپہونچے۔ جاکر کہا چودھری رام رام۔ جواب ملا رام رام۔ معلوم کیا کہ سنا ہے تمہاری گھوڑی بیمار ہوگئی تھی تم نے اسے کیا پلایا؟ جواب ملا تارپین کا تیل دوسرے چودھری پھر رام رام کہہ کر واپس آگئے۔ اور اپنی گھوڑی کو تارپین کا تیل پلا دیا۔ شام کو گھوڑی مرگئی۔ صبح غصہ میں بھرے وہ پھر گئے۔ پھر کہا چودھری رام رام۔ جواب ملا رام رام۔ کہا ہم نے گھوڑی کو تارپین پلائی تو وہ تو شام کو مرگئی۔ انتہائی معصومیت سے جواب دیا مر تو ہماری بھی گئی تھی۔ ہوسکتا ہے کہ اٹل جی اربوں روپئے خرچ کرکے پاکستان سے معلوم کرتے کہ تحقیقات کا کیا ہوا؟ تو وہ بھی یہی جواب دیتے کہ ڈوب تو ہمارا بھی گیا۔ اور شاید اٹل جی کے ذہن میں بھی یہ کہانی ہو۔ اور اس لئے انہوں نے سوکھا شور تو مچایا مگر پیسہ ایک بھی خرچ نہیں کیا۔ ہم ہندوستانیوں کا مزاج یہ ہے کہ کوئی ہمارا دشمن ہو تو ہو، ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں۔ اس کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ وہ چین جس نے ہمارے ہزاروں جوان ماردیئے اور آج بھی ہماری زمین دبائے بیٹھا ہے۔ ہم اسے بھی بلاکر جھولا جھلاتے اور بہترین کھانا کھلاتے ہیں۔ اور وہ جواب میں احسان فراموشی کرتا ہے تو ہم پھر معاف کردیتے ہیں۔ یا پاکستان کہ اس سے زیادہ گھٹیا شاید ہی کوئی دشمنی ہو؟ لیکن ہم کسی نہ کسی طرح اس سے اچھے تعلقات بنائے رکھنا چاہتے ہیں صرف اس لئے کہ یہ ہمارا مزاج ہے۔ ورنہ نہ جانے دنیا میں دوستی اور دشمنی کی کتنی مثالیں ہیں۔ جیسے امریکہ اور چین ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ یا امریکہ اور شمالی کوریا ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ یا روس اور امریکہ برسوں سے ایک دوسرے کے دشمن ہیں یا الجیریا اور فرانس ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ لیکن ہم کسی کے دشمن بن کر نہیں رہنا چاہتے۔ اس لئے کہ یہ مزاج ہی نہیں ہماری فطرت ہے۔ حد یہ کہ بھوپال گیس میں سیکڑوں جانیں قربان ہوگئیں اور ہم نے مجرم کو جانے دیا۔ للت مودی آٹھ سو کروڑ روپئے لے کر بھاگا۔ ہم نے بھاگنے دیا۔ وجے مالیہ 9 ہزار کروڑ لے کر بھاگا اسے بھی بھاگنے دیا۔ 1962 ء کی چینی جنگ کے بعد معلوم ہوا کہ نہرو پریوار کے سیاسی بازی گروں نے سیکڑوں کروڑ فرضی سڑکوں اور پلوں کے ذریعہ کھائے تھے۔ ان کی بھی تحقیقات نہیں کرائی۔ اُترپردیش کی سابق وزیر اعلیٰ مس مایاوتی کیسے صوبہ کی سب سے زیادہ دولتمند ہوگئیں؟ کسی نے تحقیقات میں روپیہ اور وقت برباد نہیں کیا۔ مہاراشٹر میں بھجبل خاندان اور پوار خاندان نے کس کس اسکیم کے نام پر پندرہ برسوں میں کتنے لاکھ کروڑ ہضم کرلئے۔ کوئی تحقیقات نہیں کی۔ صرف اس لئے کہ یہ ہمارا مزاج ہے۔ اور یہ تو فراخدلی کی انتہا ہے کہ سونیا جی کے داماد کو چھ مہینے میں جیل میں بھیجنے کا دعویٰ قوم سے کیا تھا۔ مگر دو برس ہوگئے انہیں حوالات میں بھی نہیں بھیجا۔ ہم بس اتنا کرتے ہیں کہ جسے غلط سمجھتے ہیں اسے الیکشن میں ہرادیتے ہیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں الیکشن کافی حد تک ایمانداری سے ہوتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں آج بھی عمران خاں کا الزام ہے کہ نواز شریف الیکشن میں بے ایمانی کے ذریعہ اقتدار میں آئے۔ اور پاکستان میں جو ہمارے جاننے والے ہیں وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ پاکستان میں بہت بھونڈی بے ایمانی ہوتی ہے۔ اپنے ملک میں 1980 ء کے الیکشن سے پہلے مختلف پارٹیوں کے لیڈروں نے اعلان کیا تھا کہ ہم الیکشن میں بتائیں گے کہ کس نیتا نے کیا کیا ہے؟ اور جب الیکشن عروج پر آگیا تب بھی کسی نے وہ الزام نہیں لگایا جس سے ملک ہل جاتا؟ تو اس وقت ہم نے ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’’مہلک ہتھیار کہاں ہیں؟‘‘ اس مضمون کی دھوم تو خوب ہوئی مگر کوئی ہتھیار سامنے نہیں آیا۔ یہی اب اگسٹاوسٹ لینڈسودے میں ہوگا کہ شور تو بوفورس کے گولہ سے زیادہ ہوگا مگر آخر میں سب گلے مل جائیں گے۔ اس لئے کہ ہم پاکستان کی طرح بے وقوف نہیں ہیں جو اَربوں روپئے انگریزوں کو دے دیں کہ تحقیق کرو۔ اور نتیجہ کچھ بھی نہ نکلے۔