سچی باتیں …اپنے ہاتھ سے دوزخ کا ماحول بنانے والے۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

05:54PM Sat 25 Mar, 2023

1931-10-30

وَمِن الناس مَن یعجبک قولُہ فی الحیاۃ الدُّنیا ویُشہد اللہ علیٰ ما فی قلبہ وہوألد الخصام۔ واذا تولَّی سعٰی فی الأرض لیفسد فیہا ویہلک الحرث والنسل واللہ لا یحب الفساد ۔ واذا قیل لہ‘ اتق اللہ أخذتہ العزۃ بالاثم فحسبہ‘ جہنم ولبئس المہاد ۔   (بقرۃ ع ۲۵)

انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہوتاہے، جس کی گفتگو دنیوی زندگی میں، تمہین مزہ دار معلوم ہوتی ہے، اور وہ اپنے مافی الضمیر پر اللہ کا گواہ بنابناکر پیش کرتاہے، حالانکہ وہ (رسول کا) شدید ترین دشمن ہے، وہ جب مسلمانوں کی مجلس سے باہر جاتاہے، تو ملک میں کوشش کرتارہتاہے، کہ اس میں فساد ڈالے، اور کھیتی اور نسل کو برباد کرے، حالانکہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ اور جب اُس سے کہاجاتاہے، کہ خوف خدا اختیار کر، تو نخوت اسے گناہ پر آمادہ کردیتی ہے، پس اس کے لئے دوزخ بس ہے، اور وہ بڑا ہی بُرا ٹھکانہ ہے۔

مفسرین لکھتے ہیں، کہ آیاتِ بالا ایک منافق اخنسؔ بن شریق کے حق میں نازل ہوئی ہیں، بڑا لسّان وچرب زبان تھا۔ حضورؐ  کی خدمت میں حاضر ہوتاتھا تو اللہ کی قسمیں کھاکھاکر اپنے مطیع ومسلم ہونے کا یقین دلاتا۔ لیکن اللہ ہی نے اس کی بابت یہ یقین دلایا، کہ وہ اسلام کا ، خدائے اسلام کا، رسول اسلام کا، پیروانِ اسلام کا بدترین دشمن ہے۔ اسلام کا کام تو دنیا میں دلکشی پھیلانا اور اصلاح حال کرنا ہے حالانکہ اس بدبخت کی تعلیم کا اثر یہ ہے کہ دنیا میں تباہی وبربادی پھیلے، کھیتیاں اجڑ جائیں، اور نسلیں ہلاک ہوجائیں۔ اس کو جب سمجھایا گیا، کہ اسلام قبول کرے، اور دین حق کی پیروی اختیار کرے، تو اس میں وہ اپنی ہتک سمجھا، اور جھوٹی شیخی میں آکر، اپنی بات کی پیچ میں آکر، اور زیادہ تمرد وسرکشی ، عصیان وبغاوت پر آمادہ ہوگیا، ایسے سرکش مجرم کی سزا بس دوزخ ہی ہوسکتی ہے، جس نے اپنے اعمال سے اپنے ہاتھوں ، اپنے لئے دوزخ کا ماحول بنالیا، اس کا ٹھکانا بس دوزخ ہی ہوسکتاہے؟

شانِ نزول کی روایات کو چھوڑئیے، اپنی آنکھوں سے کام لیجئے، اور اپنے دل کو ٹٹولئے۔ آج آپ کے اِرد گِرد کتنے زندہ اخنس بن شریق موجود ہیں! اور کہیں خود آپ کے اندر تو کوئی اخنس نہیں بیٹھا ہواہے؟ اپنے کسی عمل یا عقیدہ کی غلطی منکشف ہوجانے کے بعد، وضوحِ حق پوری طرح ہوجانے کےبعد، پھر بھی اُس غلطی کو نہ ماننا، حق کا اتّباع نہ کرنا، تلافی پر تیار نہ ہونا، اس خیال سے کہ اس سے بات جائے گی، اپنی آن میں فرق پڑجائے گا، دنیا کے سامنے اپنی سُبکی ہوگی، یہ سب کچھ اگر اخذتہ العزۃ بالاثم کا مصداق بننا، اپنے کو وعید خداوندی کا مورد بنانانہیں، تو اور کیاہے؟ اور آہ، کہ اس کی مثالیں آج گردوپیش ، اندراور باہر، کس کثرت سے موجود ہیں! جنھوں نے اپنی زندگیوں کو حق سے ، سرچشمۂ راست وسُرور سے، منبع آسائش وخیر سے، اس درجہ بے تعلق رکھاہے، اُنھیں کیا حق ہے، کہ وہ عالَم ناسوت سے گزرنے کے بعد اپنی جگہ، تسکین وراحت، خیرومسرت کی قرار گاہوں میں تلاش کریں؟ فحسبہ‘ جہنّم ولبئس المہاد ایسوں کے حق میں ظلم وزیادتی نہیں عین عدل وانصاف ہے۔

  (مولانا دریابادی کی ادارت میں سنہ ۱۹۲۵ء تا ۱۹۷۷ئ جاری سچ، صدق، صدق جدید  لکھنؤ کے ادارتی کالم سچی باتیں سے انتخاب )