سچی باتیں۔۔۔ عمل کی اہمیت۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

10:55AM Sun 7 Feb, 2021

1928-02-03 دو شخص ایک ہی عمر اور قوّت کے ہیں۔ ان میں سے ایک صاحب جو پڑھے لکھے اور رئیس ہیں، روزانہ اپنے ہاں اکھاڑے میں پہلوانوں کی کُشتیاں اور زورآزمائیاں دیکھتے رہتے ہیں، شہر میں جب کوئی لکچر ورزش جسمانی کے فوائد پر ہوتاہے، تو اپنے موٹر پر سوار ہوکر ضرور اُسے سننے جاتے ہیں، ورزش سے متعلق طبّی رسائل وتصانیف کا کثرت سے مطالعہ فرماتے رہتے ہیں، او رجب اس موضوع پر گفتگوفرماتے رہتے ہیں، تواُن کے معلومات سے اچھے اچھے ڈاکٹر ، اور اچھے اچھے پہلوان دن رہ جاتے ہیں۔ لیکن بااینہمہ خود کوئی سخت قسم ورزش کرنا الگ رہا، اپنے پائیں باغ میں صبح وشام چند منٹ کے لئے چہل قدمی بھی گوارا نہیں فرماتے۔ دوسرا شخص غریب اور اَن پڑھ ہے۔ وہ نہ طبّی رسائل پڑھ سکتاہے، اور نہ طبی لکچروں کے سننے اور پہلوانوں کے دنگل دیکھنے کی فرصت رکھتاہے۔ وہ صبح سے شام تک اپنے ہاتھ سے اپنے کام کاج میں لگارہتاہے، اور روزانہ دوچار میل پیدل چل لیتاہے۔ آپ کے خیال میں، ان دونوں میں سے صحت کس کی اچھی رہے گی؟ اُن رئیس کی، جو جانتے بوجھتے زیادہ ہیں، اور کرتے کم ہیں، یا اُس غریب کی جو جانتا کم ہے، اور کرتا زیادہ ہے؟ جواب دشوار وپیچیدہ نہیں، صاف وواضح ہے۔ صحت کا تعلق علم سے نہیں، عمل سے ہے۔ جسمانی صحت اصولِ صحت کے محض جان لینے، پڑھ لینے، اوررَٹ لینے کا نام نہیں، بلکہ اُنھیں برتنے اور ان پر عمل کرنے کانام ہے۔ عالِم اور جاہل، مشرقی ومغربی، بوڑھے اور جوان، سب کے نزدیک یہ ایک بالکل کھُلی ہوئی بات ہے۔ پر یہ کیسا خدا کا غضب ہے، کہ ایسی موٹی اور کھلی ہوئی بات کو آپ اپنی اخلاقی زندگی اور روحانی تندرستی کے معاملہ میں بالکل بھول جاتے ہیں!جن کے نزدیک مادّی زندگی ہی ساری زندگی ہے، جو کسی معادی زندگی کے قائل ہی نہیں، جنھیں اپنی روح کے جوہروں کے سنوارنے کے سرے سے فکر ہی نہیں،اُنھیں اُن کے حال پر چھوڑئیے، آپ اپنی خبر لیجئے، کہ آپ تو خدا کے فضل سے اپنی روح اور اپنے اخلاق ، اپنے اعمال اور اپنے کردار کو بھی اچھا بنانے کی فکر میں ہیں۔ اپنے لئے سوچئے، کہ آپ کا ’’عمل‘‘ آپ کے ’’علم‘‘ کا کہاں تک ساتھ دے رہاہے؟ آپ کا ’’حال‘‘ آپ کے ’’قال‘‘ سے کیا مناسبت رکھتاہے؟ آپ کی ’’گفت‘‘ آپ کی ’’شنید‘‘ خود آپ ہی کے معیار کے مطابق آپ کو کس درجہ تک پہونچا چکی؟ آپ خوش ہیں، کہ اُردو میں مذہب واخلاق سے متعلق بہترین ’’لٹریچر‘‘ آپ کی نظر سے گزر چکاہے، اُردو کے بہترین قومی اور مذہبی پرچے آپ منگاتے رہتے ہیں، اور صرف منگاتے ہی نہیں، بلکہ اُن کے مضامین شوق واشتیاق کے ساتھ پڑھتے ہیں،قومی ہمدردی اور اسلامیت سے لبریز بہترین تقریریں اور لکچرآپ سے ناغہ نہیں ہونے پاتے۔ قرآن اپنے نزدیک توآپ سمجھ کر پڑھ چکے ہیں، حدیث اور تفسیر، فقہ اور اصول، تصوف اور سلوک سے متعلق نازک سے نازک مسئلوں کا مطالعہ آپ کرچکے ہیں۔ اس سے بھی بڑ ھ کر آپ نیکی کا پیام دوسروں تک پہونچاتے رہتے ہیں، عبادت وتقویٰ ، نیکی اور بھلائی کے سبق دوسروں کو سُناتے رہتے ہیں، اب اس سے زیادہ اور کیا ممکن ہے؟ ……اگر ہمارے خیالات یہ ہیں، اگر ہم خوش اس پر ہورہے ہیں، تو ہم میں اور اُس رئیس میں کیا فرق ہے، جو ورزش کے فوائد سُن لینے، پڑھ لینے، اور اس پر گفتگو کرلینے کو ورزش کرنے کا قائم مقام سمجھتاہے؟ ہم اُس کے حال پر ہنستے ہیں، لیکن اللہ گواہ ہے کہ ہمارا حال رونے کے قابل ہے۔ اللہ کے ہاں ڈراس سوال کا نہیں، کہ کلام مجید کی شرح وتفسیر میں کتنے ضخیم مجلّدات اوراُن کے حواشی کا مطالعہ کیا، بلکہ ہیبت اس سوال کی ہے ، کہ زندگی بھر میں قرآن کی ایک آیت پر بھی عمل کیا؟ بڑا کھٹکا اس پُرسش کا نہیں، کہ نماز کے مصالح واسرار پر لکچر کتنے دیئے، اور مضمون آرائی کہاں تک کی، بلکہ اصلی دھڑکا اِس پُرسش کاہے، کہ خود کتنی نمازیں، اور کس دل سے پڑھیں؟ نازک گھڑی وہ نہ ہوگی، جب یہ سوال ہوگا، کہ اخبار کے صفحہ پر ’’سچی باتیں‘‘کتنی مرتبہ پڑھیں، کیا لکھیں، اور لکھ کر مخلوق سے داد حاصل کی، بلکہ نازک گھڑی وہ ہوگی، جب یہ سوال ہوگا ، کہ خود اپنی زندگی میں کہاں تک سچ بَرتا، اور خالق کے معاملہ میں، مخلوق کے معاملہ میں، بڑوں کے معاملہ میں، چھوٹوں کے معاملہ میں، بیوی کے معاملہ میں، بچّوں کے معاملہ میں، دوستوں کے معاملہ میں، دشمنوں کے معاملہ میں، نوکروں کے معاملہ میں، محلہ کے اپاہجوں کے معاملہ میں، پڑوس کے یتیموں کے معاملہ میں، برادری کی بوڑھی رانڈوں کے معاملہ میں، سچ اور سچائی کا کہاں تک لحاظ رکھا!۔ http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/

1928-02-03 دو شخص ایک ہی عمر اور قوّت کے ہیں۔ ان میں سے ایک صاحب جو پڑھے لکھے اور رئیس ہیں، روزانہ اپنے ہاں اکھاڑے میں پہلوانوں کی کُشتیاں اور زورآزمائیاں دیکھتے رہتے ہیں، شہر میں جب کوئی لکچر ورزش جسمانی کے فوائد پر ہوتاہے، تو اپنے موٹر پر سوار ہوکر ضرور اُسے سننے جاتے ہیں، ورزش سے متعلق طبّی رسائل وتصانیف کا کثرت سے مطالعہ فرماتے رہتے ہیں، او رجب اس موضوع پر گفتگوفرماتے رہتے ہیں، تواُن کے معلومات سے اچھے اچھے ڈاکٹر ، اور اچھے اچھے پہلوان دن رہ جاتے ہیں۔ لیکن بااینہمہ خود کوئی سخت قسم ورزش کرنا الگ رہا، اپنے پائیں باغ میں صبح وشام چند منٹ کے لئے چہل قدمی بھی گوارا نہیں فرماتے۔ دوسرا شخص غریب اور اَن پڑھ ہے۔ وہ نہ طبّی رسائل پڑھ سکتاہے، اور نہ طبی لکچروں کے سننے اور پہلوانوں کے دنگل دیکھنے کی فرصت رکھتاہے۔ وہ صبح سے شام تک اپنے ہاتھ سے اپنے کام کاج میں لگارہتاہے، اور روزانہ دوچار میل پیدل چل لیتاہے۔ آپ کے خیال میں، ان دونوں میں سے صحت کس کی اچھی رہے گی؟ اُن رئیس کی، جو جانتے بوجھتے زیادہ ہیں، اور کرتے کم ہیں، یا اُس غریب کی جو جانتا کم ہے، اور کرتا زیادہ ہے؟ جواب دشوار وپیچیدہ نہیں، صاف وواضح ہے۔ صحت کا تعلق علم سے نہیں، عمل سے ہے۔ جسمانی صحت اصولِ صحت کے محض جان لینے، پڑھ لینے، اوررَٹ لینے کا نام نہیں، بلکہ اُنھیں برتنے اور ان پر عمل کرنے کانام ہے۔ عالِم اور جاہل، مشرقی ومغربی، بوڑھے اور جوان، سب کے نزدیک یہ ایک بالکل کھُلی ہوئی بات ہے۔ پر یہ کیسا خدا کا غضب ہے، کہ ایسی موٹی اور کھلی ہوئی بات کو آپ اپنی اخلاقی زندگی اور روحانی تندرستی کے معاملہ میں بالکل بھول جاتے ہیں!جن کے نزدیک مادّی زندگی ہی ساری زندگی ہے، جو کسی معادی زندگی کے قائل ہی نہیں، جنھیں اپنی روح کے جوہروں کے سنوارنے کے سرے سے فکر ہی نہیں،اُنھیں اُن کے حال پر چھوڑئیے، آپ اپنی خبر لیجئے، کہ آپ تو خدا کے فضل سے اپنی روح اور اپنے اخلاق ، اپنے اعمال اور اپنے کردار کو بھی اچھا بنانے کی فکر میں ہیں۔ اپنے لئے سوچئے، کہ آپ کا ’’عمل‘‘ آپ کے ’’علم‘‘ کا کہاں تک ساتھ دے رہاہے؟ آپ کا ’’حال‘‘ آپ کے ’’قال‘‘ سے کیا مناسبت رکھتاہے؟ آپ کی ’’گفت‘‘ آپ کی ’’شنید‘‘ خود آپ ہی کے معیار کے مطابق آپ کو کس درجہ تک پہونچا چکی؟ آپ خوش ہیں، کہ اُردو میں مذہب واخلاق سے متعلق بہترین ’’لٹریچر‘‘ آپ کی نظر سے گزر چکاہے، اُردو کے بہترین قومی اور مذہبی پرچے آپ منگاتے رہتے ہیں، اور صرف منگاتے ہی نہیں، بلکہ اُن کے مضامین شوق واشتیاق کے ساتھ پڑھتے ہیں،قومی ہمدردی اور اسلامیت سے لبریز بہترین تقریریں اور لکچرآپ سے ناغہ نہیں ہونے پاتے۔ قرآن اپنے نزدیک توآپ سمجھ کر پڑھ چکے ہیں، حدیث اور تفسیر، فقہ اور اصول، تصوف اور سلوک سے متعلق نازک سے نازک مسئلوں کا مطالعہ آپ کرچکے ہیں۔ اس سے بھی بڑ ھ کر آپ نیکی کا پیام دوسروں تک پہونچاتے رہتے ہیں، عبادت وتقویٰ ، نیکی اور بھلائی کے سبق دوسروں کو سُناتے رہتے ہیں، اب اس سے زیادہ اور کیا ممکن ہے؟ ……اگر ہمارے خیالات یہ ہیں، اگر ہم خوش اس پر ہورہے ہیں، تو ہم میں اور اُس رئیس میں کیا فرق ہے، جو ورزش کے فوائد سُن لینے، پڑھ لینے، اور اس پر گفتگو کرلینے کو ورزش کرنے کا قائم مقام سمجھتاہے؟ ہم اُس کے حال پر ہنستے ہیں، لیکن اللہ گواہ ہے کہ ہمارا حال رونے کے قابل ہے۔ اللہ کے ہاں ڈراس سوال کا نہیں، کہ کلام مجید کی شرح وتفسیر میں کتنے ضخیم مجلّدات اوراُن کے حواشی کا مطالعہ کیا، بلکہ ہیبت اس سوال کی ہے ، کہ زندگی بھر میں قرآن کی ایک آیت پر بھی عمل کیا؟ بڑا کھٹکا اس پُرسش کا نہیں، کہ نماز کے مصالح واسرار پر لکچر کتنے دیئے، اور مضمون آرائی کہاں تک کی، بلکہ اصلی دھڑکا اِس پُرسش کاہے، کہ خود کتنی نمازیں، اور کس دل سے پڑھیں؟ نازک گھڑی وہ نہ ہوگی، جب یہ سوال ہوگا، کہ اخبار کے صفحہ پر ’’سچی باتیں‘‘کتنی مرتبہ پڑھیں، کیا لکھیں، اور لکھ کر مخلوق سے داد حاصل کی، بلکہ نازک گھڑی وہ ہوگی، جب یہ سوال ہوگا ، کہ خود اپنی زندگی میں کہاں تک سچ بَرتا، اور خالق کے معاملہ میں، مخلوق کے معاملہ میں، بڑوں کے معاملہ میں، چھوٹوں کے معاملہ میں، بیوی کے معاملہ میں، بچّوں کے معاملہ میں، دوستوں کے معاملہ میں، دشمنوں کے معاملہ میں، نوکروں کے معاملہ میں، محلہ کے اپاہجوں کے معاملہ میں، پڑوس کے یتیموں کے معاملہ میں، برادری کی بوڑھی رانڈوں کے معاملہ میں، سچ اور سچائی کا کہاں تک لحاظ رکھا! http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/