لکیریں کھینچ دینا پھر لکیروں کو مٹا دینا۔۔۔۔ از:حفیظ نعمانی

Bhatkallys

Published in - Other

03:35PM Thu 7 Sep, 2017
ذیقعدہ کے آخری ہفتہ سے یہ فکر روز بروز بڑھ رہی تھی کہ عیدالاضحی کیسے منائی جائے گی؟ حکومت کی طرف سے نہ کوئی بیان تھا اور نہ مسلم تنظیموں کی طرف سے کوئی آواز ہر طرف سکوت اور سناٹا تھا۔ عازمین حج کے معاملہ میں جو حکومت کا رویہ رہا وہ قابل تعریف کہا جائے گا۔ کئی برس سے خادم الحجاج کا مسئلہ اختلاف کی وجہ سے پھنسا ہوا تھا اسے بھی حکومت نے صاف کردیا اور مرکزی حج کمیٹی کا وہی فیصلہ باقی رکھا کہ مسلمان سرکاری ملازم ہی جائیں گے۔ آخر میں اُترپردیش کے خادموں کا مسئلہ اٹک گیا کہ حکومت ان کا خرچ ادا کرے۔ اور ایک ہفتہ کے بعد وہ 70 خادم بھی ممبئی سے بھیج دیئے گئے۔ قربانی کے مسئلہ میں اضلاع کے ڈی ایم کے بیان آنا شروع ہوئے کہ جیسے اور جہاں قربانی ہوتی تھی اسی طرح کی جائے صفائی کا خیال رکھا جائے اور ممنوعہ جانوروں کی قربانی نہ کی جائے۔ ان بیانات سے اس لئے اطمینان ہوا کیونکہ حکومت کسی کی ہو آج بھی ڈی ایم، ایس پی، ایس ڈی ایم اور تھانہ انچارج کو ہی حکومت سمجھا جاتا ہے۔ 31 اگست کو ایک اخبار میں چھوٹی سی خبر آئی کہ سنبھل میں بڑے جانوروں کی قربانی پر پابندی لگادی گئی ہے اب ممنوعہ جانوروں کے علاوہ بھینس اور پڑوے بھی قربان نہیں کئے جائیں گے۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ شرارت کا جواب تھا۔ اور بڑے جانوروں کی قربانی ہوئی اور ہر سال سے زیادہ ہوئی۔ یہ بھی خیال تھا کہ شاید یہ پابندی لگائی جائے کہ جگہ جگہ قربانی نہ کی جائے اور ہر شہر میں دو چار مقام متعین کرلئے جائیں۔ لیکن کل تیسرا دن بھی خیریت سے گذرنے کے بعد ان سب کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھا جن کی فرض شناسی اور فراخ دلی سے ہر جگہ وہ ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ جیسے بکروں کے تو جگہ جگہ بازار لگتے تھے مگر بڑے جانور بھینس یا پڑوے صرف دو چار جگہ فروخت ہوتے تھے اور چند مخصوص مقام پر ان کی قربانی ہوتی تھی لیکن اپنی اطلاع تو یہ ہے کہ بڑے جانوروں کی قربانی لکھنؤ میں ایسے ہوئی ہے جیسے ہمیشہ بکروں کی ہوتی تھی یعنی اپنی گلی میں یا اپنے گھر کے اندر۔ اور یہ ایک جگہ نہیں پورے لکھنؤ میں ہر جگہ ہواہے۔ صوبہ میں چند شہر بہت حساس مانے جاتے ہیں۔ وہاں کسی نہ کسی بہانے سے کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوجاتا تھا۔ آج کے اخبار بھی دیکھ لئے کہیں سے نہیں گؤ رکشکوں کے احتجاج کی خبر آئی اور نہ پولیس سے تکرار کی۔ ہر جگہ کی ایک ہی خبر ہے کہ ہر جگہ عید اپنے انداز سے منائی گئی۔ نہ کہیں جانوروں کو روکا گیا اور نہ کسی پر گائے کی قربانی کا الزام عائد کیا گیا اور نہ کسی کا صفائی نہ کرانے پر چالان ہوا۔ قربانی کے بعد صفائی پہلے بھی ہوتی تھی اور کوئی نہیں ہے جو بکرے یا بڑے جانور کی قربانی کے بعد زمین کو اچھی طرح نہ دھوتا ہو۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ مکھی اور مچھر کسی کو برداشت نہیں۔ اس بار سب نے اس کا خیال اور زیادہ رکھا اور عام طور پر کہا جارہا ہے کہ بڑے جانور کی جتنی قربانی اس سال ہوئی اتنی شاید کبھی نہیں ہوئی تھی۔ سنبھل کے بارے میں معلوم ہوا کہ پولیس کی گاڑی میں مائک باندھ کر تمام مسلم محلوں میں اعلان کیا گیا کہ ممنوعہ جانوروں کے علاوہ جسے قربانی کرنا ہے وہ کرے لیکن اس کا خیال رکھے کہ قربانی کے بعد صفائی کرادی جائے تاکہ بیماری نہ پھیلے۔ دینی مدارس کے ذمہ داروں نے اور آگے بڑھ کر اعلان کردیا کہ اگر مدرسہ کو کسی نے سفید کھال دی تو وہ واپس کردی جائے گی۔ صرف بھینس یا بکرے کی یا بھیڑ کی کھالیں لی جائیں گی۔ چھ مہینے پہلے حکومت نے امت شاہ کی شہ پر جو رویہ اپنایا تھا اور جس طرح جائز اور ناجائز سلاٹر ہاؤسوں پر بلڈوزر چلائے تھے۔ اور گوشت کی تمام دُکانیں بند کرادی تھیں۔ اس سے تو یہ شبہ ہونے لگا تھا کہ شاید اس سال بکروں کے علاوہ کسی بھی جانور کی قربانی نہ ہوسکے گی۔ اور اب اتنی خوبصورتی کے ساتھ اخباری رپورٹوں کے مطابق دس ہزار کے قریب بڑے جانوروں کی قربانی اور ہر گلی اور ہر جگہ قربانی کے بعد حکومت سے یہ مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ اپنے صوبہ میں اتنے جانوروں کی قربانی کے بعد اور کہیں سے شکایت نہ ملنے کے بعد کیوں نہ ان پابندیوں کو واپس لے لیا جائے جن کی بناء پر گوشت کا کاروبار کرنے والے لاکھوں گھروں میں فاقے ہورہے ہیں اور سبزی پھلوں سے زیادہ مہنگی ہوگئی ہے۔ عید کی بات تو الگ ہے کہ قربانی ہر اس مسلمان پر فرض ہے جس پر زکوٰۃ فرض ہے۔ اور یہ بھی ہدایت ہے کہ جانور بیمار نہ ہو اچھے سے اچھا ہو۔ سلاٹر ہاؤس جب تک نہیں بنتے کارپوریشن کوئی ایک یا دو چار جگہیں متعین کردے جہاں ڈاکٹر کے معائنہ کے بعد بھینس یا کٹرے ذبح ہوجائیں اور دُکانوں پر گوشت فروخت ہوجائے اگر اور کوئی جگہ نہ ہو تو مسلمانوں کی عیدگاہیں جو حکومت نے مسلمانوں کو صرف سال میں دو نمازوں کے لئے دی ہیں انہیں آٹھ مہینے تک استعمال کیا جاسکتا ہے۔ شہر میں اب ہر کونہ میں ایک عیدگاہ ہے وہاں سے پورے شہر میں گوشت پھیل جائے گا۔ بے روزگاری صرف گھر والوں یا کنبہ والوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ اور یہ بھوک ہی ہے جو آدمی سے غلط کام کراتی ہے۔ اگر ہر پیٹ کو روٹی اور ہر ہاتھ کو کام مل جائے تو جرائم میں بغیر کوشش کے کمی ہوجائے گی۔ یہ مسئلہ حکومت کے سوچنے کا ہے اور یہ لکھنے کی ضرورت اس لئے ہوئی کہ عید قرباں میں جیسی سیرچشمی اور فراخ دلی کا ثبوت دیا ہے اور حالات کو جیسے قابو میں رکھا ہے ہم مسلمان اس کے لئے شکر گذار ہیں۔ اور حالات ایسے ہی رہیں اور مسلمانوں کو ملچھ نہ کہا جائے یا نہ سمجھا جائے تو دوریاں دور بھی ہوسکتی ہیں۔ Mobile No. 9984247500