رئیس الشاکری:اب نہ پائے گا زمانہ کبھی ان کی تمثیل (۱)۔۔۔ محمد اویس سنبھلی

Bhatkallys

Published in - Other

07:53AM Sun 9 May, 2021

گذشتہ ایک ماہ علم و ادب کی دنیا پر قہر بن کر ٹوٹاہے۔۔۔اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ روز کسی اپنے کی جدائی کا صدمہ غم میں مزید اضافہ کردیتا ہے۔مشرف عالم ذوقی، تبسم فاطمہ، شاہد علی خاں،وجاہت فاروقی،انجم عثمانی، مناظر عاشق ہرگانوی ، پروفیسر مولا بخش، رخسانہ نکہت لاری، احسن اعظمی، رضا حیدر، فرقان سنبھلی ، مہتاب حیدر صفی پوری،شوکت حیات ، پروفیسر منظر عباس نقوی جیسی ادبی شخصیات گذشتہ چند دنوں میں دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ مولانا ولی رحمانی، مولانا نورعالم خلیل امینی اور مولانا عبدالمومن ندوی جیسے دین اسلام کے پائیدار ستون گرگئے۔ ان میں سے چند شخصیات کا شمار تو ان عظیم ہستیوں میں ہوتا ہے جن کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے، اور جن کے رخصت ہوجانے سے جو خلا پیدا ہورہا ہے اس کے پُر ہونے کی حال فی الحال میں کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ان شخصیات کی وفات ہم سب کا مشترکہ صدمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ان پر نازل ہوں۔ آمین۔

۳؍مئی ۲۰۲۱ کی صبح عربی زبان و ادب کا انتہائی معتبر نام مولانا نورعلم خلیل امینی کے انتقال کی خبرپڑھ کر بہت افسوس ہوا ۔ مولانا صاحب دنیائے علم و ادب کے درخشاں قطبی ستارے تھے ۔ ابھی ہم مولانا کے یوں اچانک چلے جانے پر غم زدہ تھے کہ شام ہوتے ہوتے مشفق و مہربان محترم رئیس الشاکری کے سانحہ ارتحال نے مجھے اتنا اداس کر دیا کہ مجھے تو جیسے چپ ہی لگ گئی۔ میں نے یہ رات دکھ کے ساتھ گزاری اور مرحوم کو بہت یاد کیا۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے۔ آمین۔

سن ۲۰۰۸ء کی بات ہے ،میں نے جب اردو کے میدان میں قدم رکھاتو تین لوگ ایسے تھے جن سے بہت جلدی تعارف ہوگیا۔پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کی کتاب ’شہرسخن‘ کاکوری آفسیٹ پریس میں چھپی تھی لیکن اس کی بائنڈنگ میرے یہاں ہوئی ۔ ملک زادہ صاحب نے اس کتاب کی طباعت و اشاعت کی ذمہ داری ڈاکٹر مخمور کاکوروی کو دی تھی۔ یہی کتاب ڈاکٹر مخمور کاکوروی سے تعلقات کا سبب بنی جو الحمد اللہ آج بھی بدستورقائم ہیں۔دوسری ملاقات برادر محترم رضوان فاروقی سے ہوئی ۔رضوان فاروقی صاحب کا مضمون ’لکھنؤ کچھ ماضی کچھ حال ‘روزنامہ آگ میں قسط وار شائع ہورہا تھا ۔ یہ مضمون مجھے بہت اچھا لگا لہٰذا میں نے رضوان بھائی سے اسے مستقل لکھنے اور کتابی شکل میں محفوظ کرنے کا مشورہ دیا۔۔۔انھوں نے محنت سے یہ مضمون مکمل کیا ۔ بعد میں یہ کتابی شکل میں شائع بھی ہوا۔ ڈاکٹر مخمور کاکوروی اور جناب رضوان فاروقی کے بعد جس شخصیت سے تعارف ہوا ،وہ شخصیت محترم رئیس الشاکری کی تھی۔ ۲۰۰۸ء میں کاکوری پریس سے ان کی رباعیات کا مجموعہ القاء شائع ہوا۔ اس زمانے میں میرے مراسلے پابندی سے روزنامہ آگ اور راشٹریہ سہارا میں شائع ہونے لگے تھے۔ وہ میرے نام سے واقف تھے لیکن پہلاباقاعدہ تعارف کام کے سلسلہ میں ہوا ۔ ’القاء‘ کی بائنڈنگ کے سلسلہ میں وہ پریس آئے۔میں انھیں پہلے سے اس لیے جانتا تھا کہ وہ ’رحمان فائونڈیش‘ کے دفتر میں کام کرچکے تھے۔ میں نے بارہا انھیں وہاں دیکھا تھا لیکن ان سے تعارف نہیں تھا۔وہ پریس آئے اور انھوں نے اپنی کتاب کی بائنڈنگ کے سلسلہ میں بات کی۔۔۔۔میں نے خود ان سے اپنا تعارف کرایا ۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ بہت دعائیں دیں۔ اس کے بعد تو ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ چل پڑا۔رئیس الشاکر ی صاحب نے اپنی کتاب’القاء‘ کا ایک نسخہ مجھے یہ لکھ کرکہ’اپنے اویس کے لیے، جن کو میں بہت چاہتا ہوں اور بس!‘ دیا۔

محترم حسیب صدیقی ایڈوکیٹ نے رئیس الشاکر ی کے مجموعہ رباعیات ’القاء‘ کا اجرا میزبان ہوٹل میں بڑے اہتمام کرایا تھا۔جلسہ میں بحیثیت مہمان خصوصی پروفیسر شارب ردولوی صاحب نے شرکت فرمائی اور صدارت کے فرائض مولانا سعید الرحمٰن اعظمی ندوی نے انجائے دیے۔

رئیس الشاکری کو اس کتاب کے توسط سے میں نے پہلی بار پڑھا تھا جبکہ اس سے قبل ان کے تین نعتیہ مجموعے (خیرالامم کی بارگاہ میں، حرا، کوثر)اور ایک نعتیہ تضمین(محمد جب یاد آئے) شائع ہوکر منظر عام پر آچکے تھے نیز ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ ’پایاب‘ کے نام سے ۲۰۰۱ء میں شائع ہوا تھا۔ان میں سے کوئی بھی میری نظر سے اس وقت تک نہیں گزرا تھا۔ایک روز میں اپنے والد کی لائبریری میں کسی کتاب کی تلاش میں تھا کہ رئیس الشاکری کی غزلیات کا مجموعہ ’پایاب‘ مجھے مل گیا۔ ۳۱؍مئی ۲۰۰۳ء کو انھوں نے یہ مجموعہ راقم الحروف کے والد ماجد کی خدمت میںاپنے دستخط کے ساتھ پیش کیا تھا۔اس مجموعے میں پروفیسر شارب ردولوی اور عرفان صدیقی نے رئیس الشاکری کی غزل گوئی کے بارے میں لکھا تھا ۔ان کی آرا کسی طرح بھی سند سے کم نہیں۔پہلی رائے  پروفیسر شارب ردولوی کی ہے ، وہ لکھتے ہیں :

’’رئیس الشاکری ایک اچھے غزل گو اور ایک مخلص شاعر ہیں، وہ آج کے حالات کو جس طرح محسوس کرتے ہیں اسے اسی طرح نظم کردیا کرتے ہیں۔ صاف گوئی، سادگی، سلاست ان کے شعری مزاج کا حصہ ہے‘‘۔

رئیس الشاکری کی غزلوں میں بیان کی سادگی اور اظہار کا سلیقہ بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔عرفان صدیقی مرحوم نے رئیس الشاکری کی غزلوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنی یہ رائے قلم بند کی :