ڈاکٹر چترنجن قتل... ...ایک بابا کی مہربانی...خفیہ ایجنسی کی سازش! (پانچویں قسط)۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
(....گزشتہ سے پیوستہ)
ایک طرف جسٹس رامچندریا کمیشن میں ڈاکٹر چترنجن قتل کیس کی تحقیقات چل رہی تھی۔ دوسری طرف میڈیا میں ہمارے لیڈروں کے خلاف بیانات آرہے تھے۔ اور سابقہ ایک ناکام قتل کی کوشش کے واقعے کو بنیاد بناکر مسلمانوں کو ہی ڈاکٹر چترنجن کا قاتل قرار دیا جارہا تھا۔ اسے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے تربیت یافتہ شارپ شوٹرس کا کام بتایاجارہاتھا۔ہمارے سیاسی قائد جناب ایس ایم یحییٰ مرحوم کے علاوہ جناب ڈی ایچ شبر وغیرہ پر کبھی بالواسطہ اور کبھی براہ راست انگلیاں اٹھائی جارہی تھیں۔ اتفاق کی بات تھی کہ اس قتل کے کچھ مہینوں بعد جناب ڈی ایچ شبر صاحب اپنی فیملی کے ساتھ حج پر چلے گئے تھے تو غالباً ہندو جاگرن ویدیکے (ایچ جے وی)کے ترجمان اخبار ’ہوسا دِگنتے‘ میں چھپے آرٹیکل میں ان پر طنزیہ اشارہ کرتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ قتل کرکے روپوش ہونے کی نیت سے حج کے بہانے ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔ تیسری طرف سنٹرل انٹلی جنس بیورو کی ٹیم اس کی تحقیقات میں مصروف تھی۔ ظاہر ہے کہ اس کا فوکس بھی بڑی حد تک مسلم طبقے کی طرف ہی تھا اور اس سازش کے تارزیادہ تر مسلم زاویے سے بھی تلاش کیے جارہے تھے۔
رامچندریا کمیشن اور ہمارے حلف نامے: جیسا کہ میں نے سابقہ مضمون میں اشارہ کیا تھا کہ ہمارے وکلاء کے مشورے پر تنظیم کی طرف سے ہم نے گواہی دینے کے لئے جسٹس رامچندریاتحقیقاتی کمیشن میں حلف نامے داخل کیے تھے۔ جب میں اور جناب یحییٰ دامودی اسی سلسلے میں ہائی کورٹ کے احاطے میں تھے ، تو اس وقت ہماری ملاقات بی ایم اڈیگا نامی ایڈوکیٹ سے ہوئی ، جو بھٹکل فسادات کی تحقیقات کرنے والے جسٹس جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں سنگھ پریوار کی طرف سے پیش ہونے والی وکیلوں کی ٹیم کا بہت ہی چالاک اور سرگرم رکن تھا۔(اس کے ساتھ وہاں پر میرا بہت ہی زبردست معرکہ ہواتھا ۔ بعد میں اسے میں نے قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلامک لٹریچر پیش کیاتھا، جس کا مثبت اثر الحمدللہ اس کے خیالات اور نظریات پر ہوا۔ اس کی تفصیل پھر کبھی سہی)وہ ہمیں بڑی گرم جوشی سے ملا۔ اور جب ہم نے اسے بتایا کہ چترنجن مرڈر معاملے میں ہم گواہ بننے کے لئے آئے ہیں، تو اس نے نہ صرف کھل کر ہمارے موقف کی داد دی ، بلکہ بالکل پرخلوص انداز میں پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ’’ دیکھو میں اب سنگھ پریوار کے خیمے سے الگ ہوگیا ہوں۔ اب اگر آپ لوگ چاہو تو میں اپنی خدمات آپ لوگوں کو دے سکتا ہوں اور جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں سنگھ پریوار کو دی گئی خدمات سے زیادہ پروفیشنل انداز میں آپ کے لئے خدمات فراہم کرسکتاہوں۔‘‘ہم اس کی اس پیش کش پر شکریہ ادا کرتے ہوئے مسکرا کر آگے نکل گئے۔
زخم اپنا ہے سلامت تو ہم بھی دیکھ لیں گے دنیا کی چٹکیوں میں کتنا نمک رہا ہے
سمن کے باوجود موقع نہیں ملا: کچھ عرصے بعد گواہی دینے کے لئے مجھے سمن ملااور میں کمیشن کے سامنے حاضری کے لئے بنگلورو گیا بھی تھا، لیکن کسی ٹیکنیکل پوائنٹ پر تاریخ ملتوی ہوگئی۔ پھر دوبارہ ہم دونوں میں سے کسی کو بھی سمن نہیں آیا اور کمیشن نے اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد رپورٹ حکومت کو پیش بھی کردی ۔ایک بات نوٹ کرنے کے لائق یہ ہے کہ 93ء فسادات کے تعلق سے جسٹس جگن ناتھ شیٹی کمیشن اور ڈاکٹر چترنجن مرڈر کے تعلق سے جسٹس رامچندریا کمیشن کی دونوں رپورٹس ابھی تک سرکاری طور پر ظاہر نہیں کی گئی ہیں اور نہ اسے قبول یا مسترد کیا گیا ہے۔ اس دوران ریاست میں خود بی جے پی نے بھی اقتدار سنبھالاتھا۔ مرکز میں بھی زعفرانی حکومت آگئی۔ لیکن ابھی تک یہ دونوں رپورٹس سرکاری الماریوں میں دھول چاٹ رہی ہیں۔ اور تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں بی جے پی کی طرف سے اور یا پھر فائر برانڈ ہندوتوا لیڈر اننت کمار ہیگڈے کی طرف سے موجودہ اسمبلی انتخابات کے پس منظر میں بھی اس موضوع کو چھیڑا نہیں گیا ہے۔ اس قتل کے پیچھے کوئی تو ایسا راز ضرورہے جس کی وجہ سے ہندوتووادیوں کی زبانوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک باباکی ہوئی مہربانی: چترنجن مرڈر کی تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کی گئی تو اس کی مختلف ٹیمیں یکے بعد دیگرے تحقیقات کی ذمہ داری سنبھالتی رہیں۔اس عرصے میں جب ایک ٹیم بہت ہی زیادہ سرگرمی دکھارہی تھی تو ایک دن ہمارے ایک ذریعے نے بستی روڈ پر شمس اسکول پہنچ کر مجھ سے ملاقات کی اور بتایا کہ ہمارے یہاں کے ایک معروف’بابا ‘ہم پر مہربان ہوگئے ہیں اور انہوں نے اپنے واضح نام کے ساتھ سی بی آئی کو ایک باضابطہ طویل مراسلہ بھیجاہے جس میں ہم لوگوں کو ڈاکٹر چترنجن کے قتل میں ملوث بتا یاگیا ہے۔ ہمارے اس ذریعے نے مجھے زبانی طور پر اس تحریر کا ایک ابتدائی پیراگراف بھی سنایا۔ اس کے بعد ہم کب خاموش بیٹھنے والے تھے۔ہمیں جو اقدام کرناتھا ، ہم نے کیااور کسی طرح اس مراسلے کی نقل ہمارے ہاتھ آ گئی۔جس میں صاف طور پر اس قتل کے لئے جن چھ سات افراد کے نام لیے گئے تھے ، ان میں میرے، یحییٰ دامودی اور سید محی الدین کے علاوہ جناب محتشم عبدالغنی (مرحوم)، جناب ڈی ایچ شبّر اور جناب عنایت اللہ شاہ بندری وغیرہ کے نام شامل تھے۔ مراسلہ بھیجنے والے نے سی بی آئی کے افسران سے گزارش کی تھی کہ ہم سب کو اٹھاکر لے جائیں اور پوری سختی کے ساتھ پوچھ تاچھ کریں تو ہم لوگ زبانیں کھولیں گے اورڈاکٹر کے قتل کا رازمعلوم ہو جائے گا۔ یعنی یہ تو وہی بات ہوگئی کہ: دیارِ پیر مغاں میں آکر یہ اک حقیقت کھلی ہے ساغرؔ خدا کی بستی میں رہنے والے تو لوٹ لیتے ہیں یار بن کر
سی بی آئی سے دو قدم آگے: اہم مسائل پر سینئر قائدین سے مشورہ کرنا ہمارے معمولات میں شامل تھا۔ جب ہمارے مہربان ’بابا‘ کی وہ تحریر ہمارے ہاتھ لگی تو ہم نے اسے انتہائی سنگین نتائج کا پیش خیمہ سمجھا۔ اور چونکہ ویسے بھی میڈیا میں جناب شبّر صاحب پر انگلی اٹھائی جارہی تھی اور اس تحریر میں بھی ان کا نام درج تھا، اس لئے ہم ہاتھ پاؤں پھُلادینے والی وہ خطرناک تحریر لے کر جناب شبّر صاحب کے مکان پر پہنچے۔ تحریردیکھنے کے بعد پسینے چھوٹنا فطری بات تھی ۔ لیکن اس وقت شبّر صاحب نے (ضروری نہیں کہ اب انہیں یادبھی ہو) ایک جملے میں جو تبصرہ کیا تھا وہ بڑا معنی خیز تھااوروہ جملہ اس وقت ہماری متحدہ ، مشترکہ اور مؤثر حکمت عملی اور سرگرمیوں کا عکاس تھا۔ انہوں نے اتنے اہم مراسلے کی نقل اتنے کم وقت میں حاصل کرنے پرکہا تھا:’’تم لوگوں کانیٹ ورک تو سی بی آئی سے بھی دو قدم آگے نکلا!‘‘ جماعتوں کے نام نقل : دو ایک مہینے کے بعد یہ خبریں میں بھی موصول ہوئیں کہ ہمارے اس مہربان ’بابا‘ نے سی بی آئی کو دئے ہوئے اپنے مراسلے کی نقل اندرون ہند و بیرون ہند میں قائم بھٹکل مسلم جماعتوں کے نام بھی ارسال کی ہے۔ لیکن کسی بھی جماعت کی طرف سے اس ضمن میں ہم سے کسی نے رابطہ قائم کرنے یا اس’ شخصیت‘ کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ہم نے بھی اپنے طور پر اس’متنازعہ شخصیت‘ سے الجھنا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ اس زہریلے مراسلے کے متوقع مضر اثرات کو زائل کرنا او ر اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنا ہمارے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ ہم نے اسی زاویے پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز رکھی اور الحمدللہ دو ایک خطرناک موڑ آنے کے باوجود ہم لوگ اس بحران سے بعافیت باہر نکلنے میں پوری طرح کامیاب رہے۔ شکاریوں پر سی بی آئی کی نظر: قتل کے سلسلے میں شارپ شوٹنگ کے نظریے کے تحت سی بی آئی کی تحقیقات کا زاویہ بھٹکل و اطراف کے شکاریوں کی طرف تھا۔ بھٹکل میں سی بی آئی کا دفتر بندر روڈ پر سابق کرناٹکا الیکٹرک بورڈ کے دفتر والی عمارت میں تھا۔ لیکن جس کسی سے پوچھ تاتھ کرنا ہوتاتھاوہ اسے گنگولی کے قریب مرونتے ساحل کے پاس موجود سرکاری ٹورسٹ بنگلو میں لے جاتے تھے ۔ مجھ سمیت کئی لوگوں کو یہاں انٹروگیشن کے لئے نوٹس دے کر بلایا گیاتھا،مگرمیں نہیں سمجھتا کہ سی بی آئی کی ٹیم نے بھٹکل کے جانے مانے شکارکے شوقین جناب جاوید باطن مرحوم (اللہ اس جوانمرگ کی بال بال مغفرت کرے ) سے زیادہ جسمانی تشدد کسی اور پر کیاہوگا۔مرونتے میں پوچھ تاچھ کے نام پرصبح سے شام تک دن بھر ہراساں کرنے کے بعد جب اسے چھوڑا گیا تو ایک دوست اور مشیر کے طور پر وہ مجھ سے ملاقات کے لئے آیا اور اس پر جو ستم ڈھائے گئے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے بطورڈاکٹر مجھے معائنہ کرنے کو کہا ۔میں نے دیکھا کہ اس کی پشت اور دیگر حصوں پر چھڑی کی مار سے چمڑی پھٹ گئی تھی اور باقاعدہ زخم بن گئے تھے۔ چونکہ اس وقت وہ خود وایک وکالت کا طالب علم تھا،سی بی آئی کے خلاف اس نے اگلی کارروائی کے بارے میں خود ہی سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی بات کہی۔مگر وہ بات وہیں کی وہیں رہ گئی۔ ایک نامور تاجر نشانے پر: ہماری برادری کے ایک بڑے ہی نامور تاجرجناب محتشم اسماعیل مرحوم دوسرے فرد تھے جنہیں سی بی آئی کی طرف سے بہت عرصے تک مسلسل اور بہت زیادہ ہراساں کیاگیا۔ ان کو باقاعدہ اس قتل کے لئے مالی ا مدادفراہم کرنے والے سازشی کے زمرے میں رکھ کر ذہنی ہراسانی کی حد کردی گئی تھی۔ انہوں نے بنگلورو میں رہ کر اپنے لئے وکلاء کی خدمات حاصل کی تھیں۔ کئی دفعہ ایسا محسوس ہورہاتھا کہ سی بی آئی والے کسی منصوبے کے تحت یہ کیس انہی کے سر منڈھتے ہوئے گرفتار کرلیں گے اور مزیدتحقیقات سے ہاتھ اٹھا لیں گے۔ مگر بڑے کٹھن دنوں میں بھی اسماعیل صاحب مرحوم نے پورے صبر و استقلال اور ہمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا۔ وقت ضرورت وہ ہم سے بھی ذاتی طور پر رابطہ قائم کیا کرتے تھے۔ اللہ کاکرم ہواکہ سی بی آئی والے ان کو اس کیس میں پھنسانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ افسر کی آمد: غالباً ڈاکٹر چترنجن کی دوسری برسی کے موقع پر ایم پی اننت کمار ہیگڈے نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے ہوم منسٹری سے بات کی ہے اور جلد ہی چترنجن مرڈر کی تحقیقات میں ایک نیا رخ آنے والا ہے ۔ اس کے چند ہی دنوں بعد ہمارے ذرائع سے ہمیں یہ اطلاع ملی کہ ملک کی خفیہ ایجنسی کا ایک اعلیٰ افسر ایک خاص مشن کے ساتھ بھٹکل آیا ہوا ہے۔ اس کے پاس پچاس کے لگ بھگ ایسے افراد کی فہرست ہے جن کی رشتہ داری یامبینہ تعلقات پاکستانی شہریوں سے ہونے کی وجہ سے انہیں’ مشکوک افراد ‘کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔جب اس افسر نے سی بی آئی کی ٹیم کے ساتھ اشتراک کرتے ہوئے تمام حالات کا جائزہ لیاتو ظاہر ہے کہ’ بابا‘کی طرف سے بھیجا گیا مراسلہ بھی اس کے سامنے آیا ہوگا جس میں بڑے وثوق کے ساتھ یہ کہا گیا تھا کہ اس مرڈر mysteryکو حل کرنا ہوتو پھر ہم لوگوں کو اٹھا لیا جائے۔ خفیہ ایجنسی نے بُنا ایک خفیہ جال: اس اعلیٰ افسرکی بھٹکل آمد کے کچھ ہی دنوں بعد پھر ہمارے ذرائع سے ہم تک یہ خبر پہنچی کہ خفیہ ایجنسی نے مبینہ طور پر ایک سازشی جال بُنا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے ہم تینوں کے علاوہ جناب ڈی ایچ شبّر صاحب کو اغواکرکے کرناٹکا سے کیرالہ اور وہاں سے پھر تملناڈو لے جانے اور وہاں پر’ الامۃ‘ کے دفتر سے ہم لوگوں کو گرفتار کیے جانے کی خبر عام کرنے کا منصوبہ بنایاجارہا ہے۔خیال رہے کہ’ الامۃ Al Ummah‘ایک ایسی تنظیم ہے جو 1992 میں بابری مسجد شہید کیے جانے کے ایک سال بعد تملناڈومیں قائم کی گئی تھی ۔اس تنظیم پر آر ایس ایس کے دفتر میں بم بلاسٹ کرنے، ایل کے ایڈوانی کے قتل کی سازش رچنے اور پھر کوئمبتور میں سلسلہ وار بم دھماکے کرنے کاالزام ہے۔جس کے بعد 1998 میں مرکزی حکومت نے اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی لگادی ہے۔ہمیں ملنے والی معتبر اطلاع کے مطابق چترنجن قتل کی تحقیقات میں سنسنی خیز موڑلانے کے لئے تحقیقاتی اور خفیہ ایجنسیوں نے اس منصوبے پر عمل کرنے اور ہمیں دہشت گردتنظیم سے جوڑنے کی تمام تیاریاں مکمل کر لی تھیں۔وہی اک موسمِ سفاک تھا اندر بھی باہر بھی عجب سازش لہو کی تھی ، عجب فتنہ ہوا کا تھا
ہم نے بھی منصوبہ بندی کی: یقین جانئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے ایک زبردست تائید تھی کہ اس مبینہ خفیہ منصوبے کی صرف بھنک ہی نہیں بلکہ تمام اہم تفصیلات بھی ہمیں مل گئیں اور وقت رہتے ہمیں اس سے نمٹنے کا موقع مل گیا۔دشمن کی چالوں سے کبھی پیشگی اور کبھی بروقت آگاہی ہمارے لئے قرآن حکیم کی تسلّی بھری آیت(و مکروا مکراللہ واللہ خیرالماکرین۔ آل عمران۔۵۴)’ اورلوگ مکر وفریب کی چالیں چلتے ہیں ، اور اللہ تو سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘ کی یہ زندہ مثال تھی۔ اس نئی افتاد کا حل نکالنے کے لئے ہم نے جناب ڈی ایچ شبّر صاحب کے ساتھ جناب یحییٰ دامودی کے مکان پر خصوصی نشست رکھی جس میں ہمارےایک ہمدردجناب کے ایم منیر صاحب( مرحوم ) کو بطور خاص مدعو کیاگیا۔ اس لئے کہ دفتری طور پر جس طرح اس مسئلے سے ہمیں نمٹنا تھااس کا کچھ اور طریقہ کار تھا اور اس پر عمل شروع ہوگیا تھا(جس کی تفصیلات بہرحال یہاں بیان نہیں کی جاسکتیں)،مگر اس منصوبے پر خفیہ ایجنسی واقعی عمل کرجاتی تو پھرقانونی طور پر اس سے نپٹنے کے لئے کافی بڑ ی رقم کی ضرورت پڑسکتی تھی۔اس معاملے کو تنظیم کی میٹنگ میں لے جانا اوراس پر کھلی گفتگو کرناکسی طور مناسب نہیں تھا۔ لہٰذاخصوصی باہمی صلاح و مشورے کے بعد طے پایا کہ اگر خفیہ ایجنسی اپنے منصوبے پر عمل کرتی ہے توقانونی اقدامات کے لئے درکار رقم کا انتظام جناب کے ایم منیر صاحب (مرحوم) اپنی ذمہ داری پر کرلیں گے اور بعد میں اس کی ادائیگی ہم لوگ اپنے طور پر کریں گے ۔اللہکروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے منیر صاحب مرحوم کو،کہ انہوں نے بخوشی یہ ذمہ داری اپنے سرلینے کی ہامی بھری اور اسی وقت متعلقہ افراد سے فون پر رابطہ کرکے اس کا تیقن بھی حاصل کرلیا۔ان دنوں ہماری جو کیفیت تھی وہ کچھ ایسی تھی کہ: کھیلنا آگ کے شعلوں سے کچھ آسان نہیں بس یہ اک بات خدا داد ہے پروانے میں
haneefshabab@gmail.com (...جاری ہے......سی بی آئی کی مجھ سے تفتیش ... ہمارے ایک قائد کو گرفتارکرنے کی کوشش....آئی بی کامثبت کردار...اگلی قسط ملاحظہ کریں) (نوٹ: مضمون میں درج کسی بھی بات سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ادارہ)