ایک بہت بڑا آدمی چپ چاپ چلا گیا

Bhatkallys

Published in - Other

12:38PM Tue 10 May, 2016
از: حفیظ نعمانی کل بھی نہیں لکھ سکاتھا ،اور اآج بھی ہمت نہیں ہورہی تھی ،میرے داہنے شانے میں تین بار چوٹ لگ چکی ہے۔رب کریم کا کرم ہے کہ ہڈی تو نہیں ٹو ٹی۔لیکن ایک بال بہت دنو ں سے ہے۔اور وہ موسم کی تبدیلی سے تکلیف دینے لگتا ہے۔ لکھنا اس لئے پڑا کہ میرے پاس جو اخبار آتے ہیں ان میں اودھ نامہ میں خبر دیکھی ہے کہ مسٹر ابن حسن ایڈوکیٹ کا کل میڈیکل کالج میں انتقال ہوگیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔وہ تو دوستوں کے حلقہ میں برسوں سب سے قریبی دوست رہے۔انکا تعلیمی زمانہ بھی وہی تھا جو پروفیسر شارب ردولوی ،جسٹس حیدر عباس ،عبد المنان ،عارف نقوی ،رابن مترا ،جگدیش گاندھی ،خواجہ رائق ،احمد جمال پاشا وغیرہ کا تھا۔اوروہ ان میں لکھنو یونیورسٹی یونین کی سیاست کے شاید سب سے اہم لیڈر تھے۔یاد آتاہے کہ وہ بلرام پور کے رہنے والے تھے۔اورزبر دست کامریڈ۔تھے اس زمانہ میں کمیونسٹوں کی جو شناخت تھی ان میں شارب تو کبھی ایسے نہیں رہے۔لیکن ابن حسن سر سے پاؤں تک کامریڈ تھے۔ اپنے گروپ میں سب سے گر م تقریر وہی کرتے تھے۔اور حیر ت کی بات یہ تھی کہ کلاس میں بہت کم جاتے تھے۔جسکی بنا پر امتحان میں بیٹھنے کے لالے پڑ جاتے تھے۔لیکن پا س ہمیشہ ہو جاتے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی اآف انڈیا کا سارا زور ا س وقت تک رہا جب تک روس دنیاکی دو میں سے ایک بڑی طاقت رہی۔اسکے زوال کے بعد کمیونسٹ پارٹی بھی سمٹناشروع ہوگئی اور اب اسکی وہی حالت ہوگئی ہے جو اسکے عروج کے زمانے میں سی پی ایم کی تھی۔ ابن حسن نے تعلیم ختم کرنے کے بعد بلرام پور میں وکالت شروع کردی۔اور وہ کانگریس کے بھی قریب ہوگئے۔بلرام پور سے 1967میں کانگریس نے سبھدرا جوشی کو ٹکٹ دیا اور جن سنگھ کے ٹکٹ سے اٹل بہاری باجپئی میدان میں آئے تو ابن حسن پوری طرح سبھدا رجی کے الیکشن میں مصروف ہوگئے۔اور شاید اس زمانہ میں وہ اور زیادہ کانگریس کے قریب ہوگئے۔ابن حسن کے بلرام پور جانے کی وجہ سے ملاقاتیں بہت کم ہوگئیں۔وہ جب کبھی کسی مقدمہ کے سلسلہ میں ہائی کورٹ اآتے تھے تب ضرور وہ پریس اآتے اور دو چار گھنٹے ساتھ رہتے تھے۔ وہ جب بھی ملے انھوں نے اپنا اور وکالت کا کچھ اس طرح ذکر کیا جیسے ہرن کی پیٹھ پر گھاس لاد دی گئی ہے۔جب کہ سب دوستوں کا خیال تھا کہ وہ اگر وکالت میں سنجیدہ ہوتے تو اپنی مدلل تقریروں اور انگریزی پر قدرت کی وجہ سے ہائی کورٹ کے نامی گرامی وکیل بن سکتے تھے۔سبھدرا جوشی کے الیکشن میں وہ پوری طرح چھائے رہے اور پھر کانگریس سیایک حد تک وابستہ ہوگئے۔شاید اسی زمانہ میں دہلی کے ایک صنعت کار ڈاکٹر کلدیپ راج نارنگ نے انکی صلاحیتوں کو دیکھ لیا۔اور وہ جو بڑے صنعت کار اپنے کاروبار کے لئے سیاسی پیروکار بھی رکھتے ہیں اسی طرح نارنگ صاحب نے انہیں اپنے قریب کیا۔اور پھر یہ محسوس کرکیکہ وہ وکالت کو ایک بوجھ سمجھ رہے ہیں ان سے وکالت چھڑوادی۔اور انہیں بے نیاز کردیا۔نارنگ صاحب کا ایک شوگر مل بستی میں بھی تھا۔ابن حسن کو اسکا سپر وائزر بنا دیا۔جسکا دفتر کارلٹن ہوٹل میں تھا۔اور کارلٹن میں ہی ایک کمرہ انکو دیدیا گیا۔ ابن حسن جب دہلی جاتے تھے اور برابر جاتے رہتے تھے تو وہ ناز ہوٹل میں قیام کر تے تھے۔اللہ مغفرت کرے کھانے اور کھلانے کے بے حد شوقین تھے۔وہ ناز ہوٹل میں اپنا لایاہو ا گوشت اور اپنی مچھلی خود لاکر ہوٹل کے باور چی سے پکواتے تھے۔وہی کھاتے اور کھلاتے تھے۔اور کبھی کبھی یہ قیام ایک مہینہ سے زیادہ بھی رہتا تھا۔ابن حسن نے نارنگ صاحب کی ہر طرح سیاسی مدد کی۔اس لئے کہ انہوں نے اپنا اثر ہر جگہ بنا لیا تھا۔وہ چند ر شیکھر کے بھی بہت قریب رہے۔اور اٹل جی کے گھر بھی وہ ایسے جاتے تھے جیسے انکے اپنے گھر اور دفتر کیلوگ آتے جاتے تھے۔ سبھدرا جوشی جی کے الیکشن کے بعد ایک بار انہوں نے اترولہ (گونڈہ)سے کانگریس کے ٹکٹ پر اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا تھا۔ہر چند کہ وہ بہت مقبول تھے اور جیتنا بہت اآسان بھی تھا۔لیکن چند روز پہلے وہ جو ہمارے ملک کی بد نصیبی ہے کہ یہ نہ دیکھنا کہ کا م کیا ہے۔بس یہ دیکھ لینا کہ مذہب کیا ہے اور مسلک کیا ہے آاسی نے انہیں تھوڑے سے ووٹوں سے ہرا دیا۔حالانکہ صلاحیت اور اہلیت کے اعتبار سے ان سے اچھا کوئی دوسرا نہیں تھا۔وہ مقرر ایسے تھے کہ مراداآباد کے 80 آکے فساد کے بعد لکھنو میں ایک زبر دست احتجاجی جلسہ ہو رہاتھا۔مقرربھی بہت تھے اور جوش بھی بہت تھا۔جلسہ کے ناظم صاحب نے ہر کسی کو صرف پانچ پانچ منٹ دئے تھے۔ابن حسن نے جو تقریر کی اس نے مسئلہ کے سارے پرت اتار دئے۔ناظم صاحب نے وقت کے ختم ہونے کی گھنٹی بجائی تو میں نے کھڑے ہو کر کہا کہ میریپانچ منٹ ابن حسن صاحب کو دیدیجئے اور انہیں اپنی بات پوری کر لینے دیجئے۔ وہ کئی بار میرے ساتھ مراداآباد گئے۔میرے قریبی رشتہ داروں کے کافی گھر مراداآبادمیں تھے۔ان کے مسائل میں بھی نھوں نے ایسی ہی دلچسپی لی جیسے میں نے لی۔مراد آباد کے اتنے درد ناک حادثہ کے بعد بھی مسز اندرا گاندھی نے نہ کوئی بیان دیا نہ خود اآئیں۔ہم لوگوں نے ایک پروگرام بنایا۔اسکے لئے میں نے ایک اپیل لکھی۔ابن حسن نے اسے انگریزی میں منتقل کیا۔انگریزی مسودہ عبد المنان صاحب کو بھیجا کہ اسے اپنے ٹائپسٹ سے ٹائپ کرا دیں۔ابن حسن نے یہ بھی کہلایا کہ وہ اسکی انگریزی بھی دیکھ لیں۔جواب اآیا کہ۔میں ابن حسن کی انگریزی دیکھوںآانکی تقریر انکی تحریر انکی ذہانت انکا انداز گفتگو سب ایسے تھے کہ وہ شہر کے نہیں ملک کے بہت بڑے وکیل اور سیاست داں ہوتے۔لیکن اللہ جانے کیا بات تھی کہ وہ زندگی بھر دوسروں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر چلے۔اور اسی کا نتیجہ ہے کہ میرے گھرآنے والے پانچ اخباروں میں صرف اودھ نامہ میں ایک کالم کی خبر چھپی۔ ہم جو کبھی ہر دن ملا کرتے تھے پھر وہ دن اآئے کہ مہینوں میں ملنے لگے اور جب سے ہم دونوں ٹوٹ پھوٹ گئے تو برسوں میں مل پاتے تھے۔میری ٹانگ کی ہڈی تو 5/فروری 2005کو ٹوٹی انکی گاڑی کا ایکسیڈنٹ اور پہلے ہوچکا تھا۔پھر ستم یہ ہو ا کہ انکے مکان کے ہر طرف مکان بن گئے۔اسکے بعد میں انکے لئے درگاہ حضرت عباس گاڑی بھیجتاتھا اور وہ بمشکل گھر آجاتے تھے۔گوشہ نشیں ہوجانے کے بعد میں نے تو قلم سنبھال لیا۔لیکن وہ شاید سولئیسب کی نظروں سے اوجھل ہوگئے کہ ہاتھ سے انہوں نے اس وقت بھی نہیں لکھا جب ہماری چوکڑی تحریک نکال رہی تھیں اس نوجوانی میں بھی وہ سگریٹ کے کش لیتے جاتے ،چٹکی بجاکر راکھ جھاڑتے جاتے اور مضمون بولتے جاتے تھے۔ سچ کہا ہے ندیم صدیقی نے زندگی بس میں ہے اپنے اور نہ سانسوں کا نظام اآدمی مختار ہوکر کس قدر مجبور ہے ابن حسن کی تین بیٹیاں ہیں اور شریک زندگی۔بیٹیاں تو اپنے اپنے گھر کی ہوگئی تھیں۔پاک پرور دگار انہیں صبر دے۔ اور مرحوم کو تین بیٹیوں کی شاہانہ پرورش کا انعام عطافرمائیجسکاوعدہ فرمایا گیا ہے۔اآمین