اینچا تانی کی کھینچا تانی ۔ تحریر : اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys

Published in - Other

06:59PM Mon 12 Oct, 2015

اطہر علی ہاشمی

خبر لیجئے زباں بگڑی

عزیزم آفتاب اقبال معروف شاعر ظفر اقبال کے ’’اقبال زادے‘‘ ہیں۔ اردو سے محبت اپنے والد سے ورثے میں پائی ہے۔ ایک ٹی وی چینل پر پروگرام کرتے ہیں۔ پروگرام کی نوعیت تو کچھ اور ہے تاہم درمیان میں آفتاب اقبال اردو کے حوالے سے چونکا دینے والے

انکشافات بھی کر جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے بتایا کہ ’’کھینچا تانی‘‘ اصل میں اینچا تانی ہے۔ کپڑا بُنتے ہوئے دائیں سے بائیں اور اوپر سے نیچے دو دھاگے چلتے ہیں جو اینچا تانی کہلاتے ہیں۔ یقینا یہ الفاظ لغت میں موجود ہیں۔ اسی کو تانا بانا بھی کہا جاتا ہے۔

لغت کے مطابق ’’اینچا تانی‘‘ یا اینچا کھینچی کا مطلب کشاکش، کش مکش، بکھیڑا، کھینچا کھینچ ہے۔ اسی سے ایک لفظ ’’اینچن‘‘ ہے یعنی کشا کش اور کھینچا تانی۔ ایک مثل ہے ’’اینچن چھوڑ گھسیٹن میں پڑے‘‘۔ یعنی ایک آفت سے دوسری بڑھ کر ثابت ہوئی، الٹی بلا گلے پڑی۔ ’’اینچنا‘‘ کا ایک مطلب ضامن ہونا بھی ہے۔

لیکن کھینچا تانی یا کھینچ تان ایک الگ ترکیب اور مستقل لفظ ہے۔ کھینچ (’ک‘ پر زبر) اور کھینچ (’ک‘ پر زیر)کا مطلب کشش، کھچاؤ، کمی، قلت، قحط، کال وغیرہ۔ کسی کی آمدنی کم ہو تو کہا جاتا ہے: ہاتھ کھینچ کر خرچ ہورہا ہے یا کھینچ تان کرکے اخراجات پورے کیے جارہے ہیں۔ اب ذرا یہاں لفظ ’’اینچا تانی‘‘ استعمال کرکے دیکھیں۔ کھینچ بلانا کا مطلب ہے زبردستی بلانا۔ تھانیدار صاحب کسی کو اینچ بلائیں تو وہ ہرگز نہیں آئے گا اِلاّ یہ کہ پہلے اسے مطلب سمجھایا جائے۔ کھینچا تانی کا مطلب ہے: کشاکش، لڑائی جھگڑا۔ کھینچنا کا مطلب ہے: گھسیٹنا، تاننا، جذب کرنا، چوسنا، غرور کرنا، اکڑنا، جلد جلد لکھنا، تصویر بنانا، عکس اتارنا، میان سے تلوار نکالنا (کھینچ لی تلوار جب حیدرؓ کرار نے)، باہر لانا، لٹکانا، چڑھانا، روکنا، سمیٹنا، لمبا یا ٹھنڈا سانس لینا، حلقہ بنانا، گھیرنا، احاطہ کرنا، نقش کرنا، اوپر لانا، اوپر چڑھانا، جکڑنا، باندھا، برداشت کرنا، گرفتار کرانا، مہنگا کرنا وغیرہ متعدد معانی ہیں۔ البتہ ایک معنی ’’اینچنا‘‘ بھی ہے۔ چنانچہ یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ اصل لفظ کھینچا تانی نہیں، اینچا تانی ہے۔ ورنہ تو کھینچ تان سے متعلق تمام الفاظ بے کار جائیں گے۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ اینچا تانی اب صرف لغت میں رہ گیا ہے۔ بھلا کوئی یہ کہے گا کہ اس نے ٹھنڈا سانس اینچا، یا مضمون اینچ کر رکھ دیا! بہرحال آفتاب اقبال نے ایک متروک لفظ کو زندہ کرنے کی کوشش توکی ہے۔ رشید حسن خاں نے بھی اینچن کا محاورہ استعمال کیا ہے ’’اینچن چھوڑ گھسیٹن میں نہ پڑ جاؤں‘‘ یعنی اصل بات کے بجائے (بعض لوگ ’کی بجائے‘ بھی لکھتے ہیں جو صحیح نہیں ہے) کسی دوسری بات پر برا نہ سننا پڑے۔ ’’ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی: کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی‘‘ (مرزا فرحت اﷲ بیگ) سے ایک جملہ نقل کیا ہے: ’’بہت کچھ لکھ لیا تھا، وہ پھاڑ ڈالا کہ کہیں اینچن چھوڑ گھسیٹن میں نہ پڑ جاؤں۔‘‘

’’مقدار اور تعداد‘‘ کا استعمال اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں عموماً غلط ہورہا ہے۔ مثلا ’’بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد‘‘ اور ’’بڑی تعداد میں منشیات پکڑی گئیں‘‘۔ مقدار اُس چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے جو تولی یا ناپی جاسکے۔ اب یہ تو نہیں کہا جائے گا کہ پائپ لائن پھٹنے سے بھاری تعداد میں پانی ضائع ہوگیا، یا دودھ میں پانی کی تعداد بڑھ گئی۔ اسلحہ کے لیے مقدار کا لفظ استعمال کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ اسے تولا گیا ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہوتا ہو۔ یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ اسلحہ جمع ہے لیکن بطور واحد استعمال ہوتا ہے۔ البتہ اسلحہ خانہ لکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ قباحت یہ ہے کہ اگر ’’سِلاح خانہ‘‘ لکھا جائے تو لوگ پوچھتے ہیں یہ کیا ہے؟

’’قلع قمع‘‘ کو اکثر قلعہ قمع لکھا دیکھا۔ جب قلع، قلعہ بن جائے تو قمع کو بھی قمحہ یا قمعہ کردینا چاہیے۔ ’’قلع‘‘ اور ’’قلعہ‘‘ دونوں الگ الگ ہیں۔ قلع عربی کا لفظ ہے اور مطلب ہے ’’ڈھانا‘‘۔ اسی طرح قمع بھی عربی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے ’’توڑنا، زخمی کرنا‘‘۔ دونوں کے معانی قریب قریب ہیں یعنی ڈھانا، توڑنا۔ کسی کا قلع قمع کیا جائے تو صرف ڈھانے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اسے اچھی طرح توڑنا بھی پڑے گا۔ کہا جاتا ہے کہ ضرب عضب میں دہشت گردوں کا قلع قمع کردیا گیا۔ لیکن کیا دہشت گردوں کے لیے یہ اصطلاح مناسب ہے؟ انہوں نے اپنے جو قلعے بنا رکھے ہیں انہیں تو ڈھایا اور توڑا جا سکتا ہے، دہشت گردوں کو ڈھانا کسی کُشتی ہی میں ممکن ہے۔ برسوں سے یہ سن رہے ہیں کہ دہشت گردوں کی

کمر توڑ دی گئی۔ یہاں شاید قمع کی ترکیب استعمال ہوجائے، مگر ہوتی نہیں۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ برسوں سے مسلسل کمر توڑنے کے باوجود یہ ٹوٹی کمر والے ستم ڈھا رہے ہیں۔

’’گئی اور گئیں‘‘ کے استعمال میں بھی بے احتیاطی ہوجاتی ہے۔ منگل کو جسارت کی اشاعت میں ایک ذیلی سرخی ہے ’’قیمتی گاڑیاں خریدی گئیں تھیں‘‘۔ اصول یہ ہے کہ اگر جملہ گئیں، آئیں، رہیں وغیرہ پر ختم ہورہا ہے تو صحیح ہے، لیکن اگر اس کے آگے تھیں، ہیں وغیرہ آرہے ہوں تو سابقہ واحد ہوجائے گا یعنی ’’گئی تھیں، آئی تھیں، رہی تھیں وغیرہ۔ آج کل عموماً اس کا لحاظ نہیں رکھا جارہا۔ ایک شاعر کا مصرع دیکھیے:

گئی رتوں کی بات ہے، تمہیں تو یاد ہی نہیں

یہاں ’’گئیں رتوں‘‘ نہیں کہا گیا۔ ایک جملہ ہے: ’’کل وہ میرے گھر آئیں تھیں‘‘۔ یہاں بھی ’’آئی تھیں‘‘ ہونا چاہیے خواہ آنے والی ایک ہو یا کئی……

بھلا کوئی یہ کہے گا کہ اس نے ٹھنڈا سانس اینچا، یا مضمون اینچ کر رکھ دیا! بہرحال آفتاب اقبال نے ایک متروک لفظ کو زندہ کرنے کی کوشش توکی ہے۔

تاریخِ تصوف پر ایک کتاب دیکھ رہا تھا۔ اس میں بڑے بڑے کا جملہ ہے: ’’فرقہ سہیلیہ مریدوں کی تربیت و پرورشِ روحانی میں ’’یدِبیضا‘‘ رکھتا ہے‘‘۔ یہاں یدِطولیٰ ہونا چاہیے۔ یدِبیضا تو حضرت موسیٰؑ کو بطور کرامت عطا کیا گیا تھا۔ بیضا سفید کو کہتے ہیں اور حضرت موسیٰؑ کی ہتھیلی چاندی کی طرح چمکتی تھی۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم ’’ایام بیض‘‘ کے روزے بڑے اہتمام سے رکھتے تھے۔ یہ قمری مہینے کی 14,13 اور 15 کی تاریخیں ہیں جن میں چاند خوب چمکتا ہے اور راتیں روشن ہوتی ہیں۔ انڈہ سفید ہوتا ہے اسی لیے اسے بھی بیضہ کہتے ہیں۔ عربی میں رنگ بھی مذکر، مونث ہوتے ہیں۔ آخر میں الف آئے تو مونث…… جیسے سودا، صفرا، زرقا، حمرا، بیضا وغیرہ۔ مذکر اسود، اصغر، ارزق، احمر وغیرہ۔

ایک غلطی جو ہم سے بھی صادر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’دوران‘‘ کے بعد ’’میں‘‘ آنا چاہیے۔ بعض لوگ اسے غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ ’’اس اثنا میں‘‘ لکھنے سے تعرض نہیں کرتے جو فارسی کے ’’دریں اثنا‘‘ کا ترجمہ ہے۔ بہت کم لوگوں کو ’’دوران میں‘‘ لکھتے ہوئے دیکھا ہے۔ ایک دلچسپ جملہ دیکھا ’’کام کرنے کا طریقہ کار‘‘۔ ارے بھائی ’کام‘ اور ’کار‘ ایک ہی چیز تو ہے۔ ’کار‘ فارسی میں کام کو کہتے ہیں۔ ’’ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند‘‘ یا اقبال کا یہ مصرع ’’کارِ جہاں دراز ہے، اب میرا انتظار کر‘‘۔