کیا ہم نے اللہ کی اس عظیم نعمت پر اس کا شکراداکیاہے ؟

از: مولانا محمد الیاس ندوی بھٹکلی
ہمارے جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں مولانا عاصم صاحب ندوی کے یہاں دو ماہ قبل پہلی بچی کی ولادت ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک خوبصورت منیّ حفصہ کی شکل میں عطا کی ، یہ میرے خالو مولانا شفیع صاحب ملپا قاسمی کی نواسی بھی تھی، خلاف معمول صرف چھ ماہ میں اس معصوم کلی کی اس دنیا میں آمد ہوئی ، اس کے بعد سے اب تک یعنی گذشتہ ہفتہ تک جن مراحل سے گلشن کے اس حسین پھول کوبالخصوص اس کے والدین اوراس کے نانا محترم اورگھروالوں کو گذرنا پڑا اس کی تفصیلات کو سن کرہی نہیں بلکہ سوچ کر بھی کمزور سے کمزور ایمان والے کے سامنے اللہ رب العزت کی عظیم نعمتوں کا ایک لامتناہی دفتر کھل جاتاہے،حفصہ نے جب اس عالم فانی میں قدم رکھا تو اس کا وزن عام نو مولود بچوں سے بھی نصف یعنی مجموعی طور پرایک کلو سے بھی کم تھاجس پر ڈاکٹروں کا یہ متفقہ فیصلہ تھاکہ بچہ کی ولادت قبل از وقت ہوئی ہے، اندورنی بعض اعضاء نامکمل ہیں، اس لیے اس کے بچنے کے امکانات بہت کم ہیں ، گردے ،پھیپھڑے اور اندرونی اعضاء رئیسہ بھی اپنی مطلوبہ ساخت سے کم ہیں اسی لیے بچی کو سانس لینے میں تکلیف ہورہی ہے، اس لیے اس کوفوری شہر سے باہر کسی بڑے ہسپتال میں لے جاکر وینٹی لیٹر (مصنوعی سانس لینے کی مشین) پر رکھنا ناگزیر ہے ۔
حسبِ حکم ڈاکٹراسی وقت ایمبولینس پر شہر سے دور سوکلومیٹر پر واقع ہندوستان کے مشہور ومہنگے منی پال ہسپتال میں بچی کو لے جایاگیااور فوری اس کو وینٹی لیٹر کے حوالے کردیاگیا ،وہاں جب پہنچے تو ہسپتال کا پورا ایک ہال قبل از وقت دنیا میں آنے والے ایسے ہی بچوں سے بھراپڑا تھا اور ساٹھ سے زائد نومولود پہلے سے ہی وہاں موجودتھے،تقریباً دو ماہ تک بچی I.C.U میں رہی ،صرف ایک کلوسے بھی کم وزن والی اس معصوم کلی کے چہرہ،ناک اورنازک سینہ پرقسمہاقسم کی مشینیں لگادی گئیں،گلشن کے اس پھول پر اس وقت کیا بیت رہی ہوگی یہ منظر سوچ کر ہی کلیجہ منھ کو آجاتاہے،تھوڑ ے سے فاصلہ پر واقع ہسپتال ہی کے ایک دوسرے کمرے میں ماں کا قیام تھا اور ڈاکٹروں کے حکم کے مطابق دن میں بارہ مرتبہ ہر دو گھنٹے کے وقفہ سے ماں کا تازہ دودھ چھوٹے سے ڈبّے میں ڈال کرI.C.U لے جاکر بچی کو انجکشن کے ذریعہ پلایاجاناضروری تھا، اس لازمی پابندی کا نتیجہ یہ تھاکہ دن میں تو خیر غنیمت ، رات میں بھی حفصہ کی ماں مسلسل دوگھنٹے سے زائد سونہیں سکتی تھی اور اس دودھ کو پہنچانے کے لیے بچی کے والد ،نانا اور ماموں بھی باری باری بھٹکل سے دور وہاں جاکر قیام کرتے اور وہ بھی ہررات دو دو گھنٹے کے وقفہ سے چھ سات مرتبہ ہسپتال جاتے اوراپنا فرض ادا کرتے ، یہ سلسلہ دو ماہ تک جاری رہا،جب بچی کا وزن دوگناہوا اور جسم کے اعضاء مکمل ساخت وپرداخت کے ساتھ اپنا کام کرنے لگے تو ابھی گذشتہ ہفتہ حفصہ کو گھر لایاگیا،اس دوران ایک خطیررقم سے ہسپتال کا بل بھی ادا کرنا پڑا۔
گذشتہ ہفتہ ایک والد اپنی بچی کے ساتھ میرے پاس آئے ، دورانِ گفتگواس پیاری اور خوبصورت بچی کے بائیں ہاتھ پر اچانک میری نظر پڑی جس کو وہ بڑی مشکل سے چھپانے کی کوشش کررہی تھی،میں نے دیکھا کہ ساڑھے تین سالہ معصوم وخوبصورت اس بچی کا ہاتھ مڑا ہواہے،میں نے اس کے والد سے پوچھا کیا قصہ ہے ۔۔۔؟ کہنے لگے:۔ پیدائشی نقص ہے ، میں نے اپنی عدم استطاعت کے باوجود لاکھوں روپئے خرچ کئے لیکن ہر جگہ سے یہی سن کر واپس آناپڑا کہ اس فطری نقص کا علاج اتناہی ممکن ہے جتنا ہوا ہے، اس سے زیادہ ممکن نہیں۔
ہمارے ایک دوست ایک دن عصربعد تشریف لائے ،ان کا چھوٹا سا بچہ ا ن کے ساتھ تھا جو ہمارے جامعہ کے مکتب میں زیر تعلیم تھا، میں نے دیکھا اس معصوم بچہ کی آنکھ پر اتنا موٹاچشمہ لگاہواہے جو ہم نے اپنے دادامرحوم کی آنکھوں پرکبھی اسّی سال کی عمر میں دیکھاتھا، میرے پوچھنے پر والدکا کہناتھاکہ میرا یہ بچہ ایک لمحہ بھی اس چشمہ کے بغیر نہیں رہ سکتا، ڈاکٹر نے کہا ہے کہ پابندی سے چشمہ نہ لگانے پر رہی سہی اس کی بینائی بھی جواب دے سکتی ہے،اس بچہ کو اس آزمائش میں دیکھ کر بے ساختہ میرے دل نے رب کریم کی اس عظیم نعمت کا استحضار پیدا کردیا جس کا مجھے ابھی تک احساس نہیں تھااور میں اسی وقت دل ہی دل میں یوں گویا ہوا:۔ اے پیا رے مولیٰ :۔میری اور میرے بچوں کی آنکھوں کی سلامتی اب صرف ایک نعمت نہیں بلکہ تیری دسیوں نعمتوں کا مجموعہ بن کر سامنے آئی ہے ، اے اللہ:۔ میرے تمام بچوں کی تو نے محض اپنے فضل سے دونوں آنکھیں سلامت رکھیں ، ان کی آنکھ نہ اندر دھنسی ہوئی ہے اور نہ باہرنکلی ہوئی جیسا کہ سینکڑوں بچے اس نقص کے ساتھ دنیا میں آئے ، نہ ان کو قریب کے دیکھنے میں تکلیف ہے نہ دور کے دیکھنے میں ،نہ ان کی آنکھیں لال ہوتی ہیں اور نہ اس میں پانی آتاہے جیسا کہ متعدد نونہالوں کو اس کی شکایت ہے ، نہ ان کی آنکھوں میں درد ہوتاہے کہ چشمہ لگانا پڑے اور نہ اس کے کسی گوشہ چشم سے اندورنی گندگی باربار باہرآتی ہے جیسا کہ میں نے کئی بچوں کو دیکھاہے، نہ ان کی آنکھیں اتنی چھوٹی ہیں کہ عیب دار لگے اور نہ اتنی بڑی کہ بھدّی لگے جیسا کہ میں نے کئی بارایسے بچوں کامشاہدہ کیاہے، اے اللہ :۔ یہ صرف تیراہی فضل ہے جو تو نے محض اپنے کرم سے عدم استحقاق کے باوجود مجھے اور میری اولادکو عطاکیا،اس پر میں تیری ہی پاک ذات کا شکر بجالاتاہوں۔
ان تینوں واقعات کے متعلق اب جب بھی اٹھتے بیٹھتے ،سو تے جاگتے میرے ذہن میں بات آتی ہے تو میرا رواں رواں بارگاہ الہٰی میں سجدۂ شکر بجالانے کے لیے بے قرار ہوجاتاہے اور پکار پکار کر نعمت خداوندی مجھ سے کہتی ہے کہ اے خدا کے بندے:۔ تجھ پر ہونے والی تمام نعمتوں کو تو کنارے رکھ، صرف اپنے ایک بچی یابچہ کی وقت پر بعافیت ولادت اور اس کے جسم کے تمام اعضاء کے سلامت ہونے پر زندگی بھر تواللہ پاک کا شکراداکرے گا تو اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔
اس غیر مرئی آواز کو سننے کے بعد میں اپنے نفس سے مخاطب ہوکر اپنے دل ہی دل میں یوں گویاہوتاہوں کہ :۔ اگر غیر اختیاری طور پر مذکورہ والدین کی طرح میرے بچوں کے ساتھ بھی یہ معاملہ ہوتاتو کیا میں لاکھوں روپئے خرچ کرنے پر مجبورنہ ہوتا،اللہ رب العزت کی طرف سے محض اس کے فضل وکرم سے اس طرح کی آزمائش سے بچاکر لاکھوں کے صرفہ سے مجھے محفوظ رکھنے پر میں لاکھ روپئے بھی شکرانے کے طور پر خیرات کروں تویہ کم ہے،یہ تو درکنار میرا تو حال یہ ہے کہ کم از کم روز ایک مرتبہ مجھ پر ہونے والی اس عظیم نعمت پر اللہ تعالی کا شکر اداکرنے میں بھی کوتاہی کرتاہوں ۔
رب کائنات کی ان بیش بہا نعمتوں کے تناظر میں ہمیں یہ سبق بھی ملا کہ اولاد کی نعمت اب صرف ایک نعمت خداوندی نہیں رہی بلکہ سینکڑوں نعمتوں کا ایک مجموعہ ہے اولادکی دولت ،ان کی وقت پر ولادت، بعافیت دنیا میں ان کی آمد ،جسم کے ایک ایک عضو کی اللہ کی طرف سے سلامتی، اس فانی دنیا میں سکون کے ساتھ ان کی ایک ایک سانس اور چین کا ایک ایک لمحہ اس بات کا تقاضا کرتاہے کہ ہم روزانہ اپنے ہر بچہ کا نام لے کر خصوصیت سے ان نعمتوں پر اللہ پاک کا شکر اداکریں ، اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے یہ روز کے دوچار شکرانے کے جملے ان شاء اللہ ان نعمتوں کے ہمارے حق میں مرتے دم تک باقی رہنے کی ضمانت بھی دیں گے اور اس کے عوض ہم سب کا اللہ کے شکرگذار بندوں میں شمار بھی ہوگا، ان نعمتوں پراپنے شکر کی ادائیگی کے لیے کئی پیاری دعائیں خود اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائی ہیں ، اس کو بھی ہم آج سے ہی اپنے معمولات میں شامل کریں ’’ اے اللہ :۔ ہماری بیویوں اور اولاد کو ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بنا اور ہمیں اہل تقوی کا امام بنا‘‘ رَبّناَ ھَبْ لَناَ مِنْ اَزْواجِناَ وَ ذُرِّیاَتِناَ قُرّۃَ اَعْیُنٍ وَاجْعَلْناَ لِلْمُتَّقِیْنَ اِماماً اے اللہ :۔ ہمارے والدین پررحم فرما جنھوں نے بچپنے میں ہماری اس طرح تربیت کی رَبِّ ارْحَمْھُماَکَمَارَبّیَانِی صَغِیْراً۔ اے میرے پرودگار :۔ مجھے توفیق دے کہ میں تیرا شکر اداکروں تیرے اس احسان کا جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیااور یہ کہ میں نیک عمل کروں جو تو پسندکرے اور تو اپنے رحم وکرم سے مجھے اپنے صالح بندوں میں داخل کردے اور میری اولاد میں نیکی کی صلاحیت دے ، میں نے تیری ہی طرف رجو ع کیا اور میں تیرے فرماں برداروں میں سے ہوں’’ رَبِّ اَوْزِعْنِی اَنْ اَشْکُرَنِعْمَتَکَ الّتیِ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰی وَالِدَيَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحاً تَرْضَاہُ وَأدْخِلْنیِ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الْصّالِحِیْن وَأصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرّیَّتِي إنّیْ تُبْتُ إلیْکَ وَاِنّی مِنَ الْمُسْلِمِیْن ‘‘۔