شمع فروزاں (حضرت ڈاکٹر علی ملپا نوراللہ مرقدہ کی قابل رشک زندگی پر ایک نظر)۔۔۔۔۔۔از: عبداللہ دامداابو ندوی

یوں تو ابتدائے آفرینش سے اس عالم رنگ و بو میں کروڑہاکروڑ نفوس آئے اور اپنی مقررہ میعاد کی تکمیل کے بعد اس عالم فانی سے کوچ کرگئے،لیکن سلام ان نفوس قدسیہ اور بندگان رب العلی پر کہ جنھوں نے اپنے وجو د سے ظلمت گہہ آب وگل میں شمع فروزاں بن کر بندگان خدا کو رشدو ہدایت کی راہ دکھائی اور بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے چلے۔
بلاشک ان ہی پاک نفوس اورہشت اوصاف شخصیات میں حضرت ڈاکٹر علی ملپاصاحب نوراللہ مرقدہ تھے جن کی ذات والا صفات سے ہزاروں بندگان خدا مستفید ہوئے اور جن کے لگائے ہوئے پودے شجرہائے سایہ دار بن کر اپنا فیض عام کررہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب ایک شخص نہیں بلکہ ایک کارواں اور ایک انجمن تھے،ان کے پروردہ اور صحبت یافتہ بلکہ ایک اجنبی بھی ان کے در پر آتا تو یہی کہتا تھا کہ
بہت لگتا ہے جی صحبت میں ان کی وہ اپنی ذات میں اک انجمن ہے
دل حکایتوں سے لبریز ہے مگر زبان و قلم درماندہ ،گویا فرصت کو یارائے سخن نہیں،کوئی ایک صدی کی تاریخ چند بکھرے اور بے جوڑ جملوں میں کیوں کر رقم کریں،حکایتیں لامحدود اور داستانیں طویل تر۔خدا جانے وہ درویش اورمرد باخدا کس حال میں بارگاہ ایزدی میں گیا ہوگا،کس شان سے حورانِ بہشتی اس کا استقبال کررہی ہوں گی،مخلوق سماء قطار در قطار اس کو دیکھ رہی ہوں گی،کوئی باہیں بچھائے،کوئی دل و جگر نکالے،ملائکہ و مقربین کے گھیرے میں اور خوشبوؤں کے ڈیرے میں ۔اللہ اللہ مرحوم کی عادات و صفات اور خصائل و شمائل ہی ایسے تھے کہ وقتِ نزع اس چشم سیہ کار نے جو منظر دیکھا وہ بھلائے نہ بھولے گا۔ قلب و لسان ذہنی و فکری ژولیدگی اور پرخوف ہراسانیوں سے آزاد لذت یاب تسبیح و تحمید ،نہ صرف ذکر یار بلکہ وصال یار کی شدت سے آرزو۔رواں دواں لیے جاتی ہے آرزوئے وصال کشاں کشاں ترے نزدیک آئے جاتے ہیں
اسی یار کے جلوۂ جمال میں چشم شوق وقف نظارہ و دیداور اسی کی یاد میں روحِ مضطر محو و سرشارِعشق ۔اسی دوران میں طبیب خاص جلال الدین حاضر خدمت ہوئے،معائنہ کیا،معائنے کے وقت مایوسی کے سیاہ بادل طبیب خاص کی پیشانی پر عیاں تھے اور حضرت کا جسم مبارک یہی کہہ رہاتھا کہ ع چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں اس وقت بھی حضرت علی ملپاؒ اپنے صاحبزادوں سے اشارتاًکہہ رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب کی ضیافت کی جائے اور ان کے لیے چائے پانی کا اہتمام کیا جائے،جب کہ کلام تو بہت دور ہاتھ کا اشارہ بھی مشکل سے کیا تھا۔ ع ازمحبت تلخہا شیریں شود تعلق مع اللہ اور تعلق اہل اللہ نے ڈاکٹر صاحب کو جس مقام بلند پر فائز کیا تھا اس سے ہر ایک واقف ہے،بلکہ ہر کوئی اس کا شاہد ہے،آپ نے عنفوان شباب ہی سے گنجہائے گراں مایہ سے اپنے دامن کو بھر دیا تھا ،ذات خدا پر اس حد تک یقین کہ اسی یقین کی کرشمہ سازیوں سے بعض دفعہ وقت کے اس عارف باللہ سے ناممکن معاملے بھی ممکن ہوگئے۔انتقال سے تقریبا ۶۰ سال قبل حضرت اپنی ایک آنکھ سے معذور ہوگئے اور تمام امور اپنی ایک آنکھ سے انجام دیتے تھے،اس وقت آپ کے چمن اورآپ کی امیدوں کا مرکز جامعہ اسلامیہ کا ابتدائی دور تھا،جس کو دور ابتلاو آزمائش کہنا بھی بجا ہے۔ایک آنکھ سے محرومی پر آپ نالاں نہ تھے بلکہ فرحاں و شاداں تھے کہ خالق دوجہاں نے دوسری آنکھ کی بینائی سلامت رکھی،لیکن گردش لیل و نہار کے ساتھ مالک قضا وقدرنے دوسری آنکھ کی بینائی بھی مسلوب کی اور آپ بالکل معذور ہوگئے۔دین اسلام کا یہ سپاہی اور وقت کا ولی لاچاری ودرماندگی کی زندگی کیسے گزارسکتا تھا،یہ معذوری اس کے مشن میں آڑے آرہی تھی، پرورشِ لوح و قلم سے دور کررہی تھی،اہل طلب اور عقیدت مندوں کی مدد سے مانع بن رہی تھی۔وقت کے اس درویش نے کمر کس لی،خدا کے حضور جبین ناز جھکالی ،خوب آہ وزاری ہوئی،جب عشق کئی مراحل طے کرچکااور عاشق زار نے عشق کی انگیٹہیوں کو بھڑکادیا تو داد رسی کی گئی اور فریاد سنی گئی ،دل میں اطمینان کی سی کیفیت طاری ہوئی۔طبیب خاص کو بلاکر معائنہ کروایا،ایک بار نہیں بار بار معائنہ کروایا۔ایک سے نہیں دسیوں سے کروایالیکن کوئی امید بر نہیں آئی اور کوئی صورت نظر نہیں آئی۔پھر بھی دل مطمئن تھا،ابر رحمت کا یقین دل میں جاگزیں تھا۔فوراً بھٹکل سے بہت دور منگلور کی طرف رخت سفر باندھا،امیدو یاس کا یہ سفر جیسے تیسے طے ہوا،طبیبوں نے لاکھ سمجھایا لیکن آپ نہ مانے ۔نہاں خانۂ دل و دماغ کے مخفی راز اطباء کیا جانیں،سکون دل اور اطمینان قلب کی کیفیتیں کہاں تک بیان ہوں۔آپریشن مکمل ہوا،لوگوں نے عجیب منظر دیکھا،خدا کے ولی کی کرامت کا عجیب مظہر دیکھا،بینائی لوٹ آئی لیکن حیرت اس پر کہ اس آنکھ کی بینائی لوٹ آئی جس آنکھ کی بینائی ساٹھ برس پہلے چلی گئی تھی ۔ ع ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا بندگان خدا کو خدا ئے دوجہاں سے جوڑنا آپ کے مشن کا حصہ تھا،آپ نے اس کے لیے زندگی بھر کوشش کی،توفیق الہی کے بعد آپ کی سعی پیہم کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ لوگ جو جام توحید وشریعت سے عاری تھے ان کو آپ نے محبت کا جام پلاکر مست وسرشارکیابلکہ ان بادہ کشوں کو جام محبت کے انھیں میخانوں کا ساقی بنایا۔آپ نے شاذلی مسجد بھٹکل میں اصلاح و تربیت کی وہ تحریک چلائی کہ اس سے ہزاروں لوگوں کی زندگی بدل گئی،اس کامیاب مشن میں آپ کا سب سے بڑا ہتھیار حکمت عملی تھا۔ایک مرتبہ شاذلی مسجد کی دوسری توسیع کا خیال ہوا تو آپ اس کے چندے کے لیے محلے میں خود چلے۔اسی محلے میں ایک صاحب کا گھر تھا ،جس کے بارے میں سب کو پتہ تھا کہ اس کی کمائی حرام کی ہے،ملپا صاحب ان کے یہاں بھی گئے۔اس نے انکار کرتے ہوئے کہا: ’’صاحب ! میرے پاس حرام مال ہے اور مسجد سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔‘‘آپ نے اس کی باتوں کو سنا ،ذرا بھی خفا نہ ہوئے،پھر کچھ دنوں بعد اس کے دل میں خود احساس ہوا اور اس نے حضرت سے تعلق قائم کیا ،اب کیا تھا ع بیٹھنےدیجیے میخوار کو واعظ کے قریب صحبتوں سے بھی خیالات بدل جاتے ہیں
تاریخ نے دیکھا کہ وہی سیہ کار اور بدقماش علمبردار دین حق بن گیا اورپھر بعد کواسی مسجد کا ذمہ داربھی بن گیا۔پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے الغرض آپ نے پوری زندگی خدا کو خوش کرنے والے کام کیے،ہر اس عمل سے احتراز کیا جو خدا کی نافرمانی کا سبب بن سکتا تھا،دنیوی تعلیم سے آراستہ رہ کر بھی دینی تعلیم کے فروغ کی کوشش کی اور نبوی مشن کی ترجمانی کی۔ہمیشہ نئی نسل میں ایمان و عقیدے کی برقراری کی فکر دامن گیر رہی،چاہے سفر ہو یا حضر،ناخوشی کی کلفتیں ہوں یا دل آشوبی کی کاہشیں،درازئ عمر کی وجہ سے ضعف اور جسم کی ناتوانیاں ہوں یا دل و دماغ اور قلب و جگر کی افسردگیاں حتی کہ بستر مرگ میں بھی اس مشن سے تغافل نہیں برتا۔ واقعی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنھوں نے آپؒ کو دیکھا اور خوش نصیب تر ہیں وہ لوگ جو آپ کی صحبتِ بابرکت سے فیض یاب ہوئے ،بلاشبہ آنے والے دور میں ان کو دیکھنے والے یہی کہتے نہیں تھکیں گے کہ :آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصرو
جب ان کو معلوم یہ ہوگا تم نے فراق ؔ کو دیکھا ہے
مضمون نگار ماہنامہ پھول کے مدیر ہیں۔