قرآن کے بعد اب جمعہ کی چھٹی اور درسی کتابیں فسطائی نشانے پر۔۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

01:26PM Tue 6 Dec, 2016
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  وطن عزیز ہندوستان کے حالات مسلمانوں کے لئے جس طرح تنگ ہوتے جارہے ہیں اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ ملت اسلامیہ ہند پر ابتلاء و آزمائش کا ایک کڑا دور آیا ہی چاہتا ہے۔ دن بہ دن وضع کیے جارہے نئے نئے قوانین سے عام آدمی کا جینا جہاں ایک طرف مشکل ہوتاجارہا ہے ، وہیں پر مسلمانوں اور اسلامی شعائر سے متعلقہ معاملات میں سرکاری نظریات اور احکامات الارم بجارہے ہیں کہ اطمینان و سکون کا موسم بس ہوا ہونے والا ہے۔ اور جو لوگ علامہ اقبال ؒ کے اس شعر:

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

کومحض شاعر کا تخیل مان کر نظر انداز کرتے ہوئے جہہوریت اور سیکیولرازم کی بیساکھی کو بہت بڑی نعمت سمجھ رہے تھے انہیں اپنی سوچ اورطرز فکر کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ فسطائیت کا بول بالا ہونے والا ہے: بدلتے ہوئے حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں فسطائی طاقتوں اور ان کے ایجنڈے کا بو ل بالا ہونے والاہے۔اسلامی شعائر اور مسلم معاشرے کو زک پہنچانے کے منصوبے کے تحت یکساں سول کوڈکو عملاً نافذ کرنے کی طرف اقدامات، بیف کے استعمال پر پابندی ، جانوروں کی قربانی روکنے کی مہم،مسلم خواتین کے حجاب کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیزی،مسلم پرسنل لاء کو کالعدم قرار دینے کی کوشش، مدرسوں کو سرکاری دائرۂ اختیارات میں جکڑنے کی سازشیں، لاؤڈ اسپیکرس پراذان دینے سے روکنے کی مہم،قرآن پر پابندی لگانے کی اپیلیں۔۔یہ سب تو کئی برسوں سے چل رہاتھا۔ مگر اب اس میں تازہ اضافہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اسلام کی اشاعت میں مصروف اداروں اور شخصیات کے خلاف دیش سے غداری جیسے سنگین الزامات کا سہارا لیتے ہوئے سرکار کی طرف سے کی جانے والی نام نہادقانونی سرگرمیاں ہیں۔جس کا پہلا شکاراسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن،داعئ اسلام ڈاکٹر ذاکر نائک اور بروج نامی اسلامی نصابی کتب کا اشاعتی ادارہ ہوگئے ہیں۔اس کے علاوہ جن مسلم اسکولوں میں ایک زمانے سے ہفتہ واری چھٹی جمعہ کو دی جاتی تھی ، اب اس رعایت کو ختم کرنے یا اسے محدود کرنے کے حالیہ احکامات فسطائیت کی طرف مزیدپیش قدمی کا اعلان کررہے ہیں۔

زوال کا یہ سفر ہے محیط صدیوں پر یہ سانحہ ہے ہماری ہوا اکھڑ نے کا

قرآن کریم نشانے پر: ہندوستان میں جس وقت فسطائی طاقتوں کی تاج پوشی نہیں ہوئی تھی ، تب سے ہی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کی منظم اور منصوبہ بند سازشیں چل رہی تھیں جوکہ ان کے پالیسی پروگرام کاحصہ ہے۔ مسلمانوں کو ٹارگیٹ بنانے اور غیر مسلم عوام میں اسلام کو بھیانک روپ میں پیش کرنے کے لئے سنگھ پریوار نے جو چال چلی تھی، اس میں قرآن حکیم ہی کو نشانے پر لیا گیا تھا۔ ایک طرف قرآن کی تقریباً دو درجن آیات کوسیاق و سباق سے ہٹ کر منتخب کرکے کتابچہ شائع کیا گیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ(نعوذباللہ) قرآن مسلمانوں کوشدت پسندی اور کافروں کے قتل کی تعلیم دیتا ہے۔یہ کتابچہ پڑھنے والے کے ذہن و دل کو متاثر اور مسموم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ حالانکہ جماعت اسلامی ہند کی طرف سے ان آیات کے پس منظراور قرآن کے اصل احکام کی مدلل وضاحت پر مبنی جوابی کتاب بھی اسی وقت شائع کی جاچکی ہے، لیکن غیر مسلم تعلیم یافتہ نسل کے سامنے سنگھ پریوار کی کتاب ہی ہوتی ہے جس سے اسلام کی ایک نفرت انگیز اور خونخوار قسم کی تصویر ابھرتی ہے۔ جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں: سنگھ پریوار نے اس محاذ پر بھی اپنا کیسا تربیت یافتہ کیڈر تیارکر رکھا ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔بھٹکل فسادات کی تحقیقات کے لئے بٹھائے گئے جسٹس جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں جب مجھے اپنا بیان درج کروانا تھا، تو سنگھ پریوار کے آدھے درجن سے زیادہ وکلاء پوری تیاری کے ساتھ موجود تھے ۔ انہوں نے پالیسی یہ بنارکھی تھی کہ بھٹکل فسادات کو قرآنی شدت پسندی کا نتیجہ اور پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی کارستانی ثابت کرنا ہے۔ اسی پالیسی کے تحت ان وکلاء نے میری جرح کے دوران اپنا پورا فوکس اسلامی شعائر ، اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کی جنگوں اور خونریزیوں کے ارد گرد رکھا۔ الحمدللہ اس وقت تین دن تک چلنے والے انتہائی پیچیدہ سوال و جواب کے مرحلے کو میں نے اپنی بساط بھر بڑے ہی حوصلے کے ساتھ انگیزکیا تھا۔ قرآنی آیات اورقتل و غارت گری ؟!: اس وقت سنگھ پریوار کے وکلاء کی ٹیم کے بی ایم اڈیگا نامی ایک نوجوان وکیل نے بڑی مضبوطی سے محاذ سنبھالتے ہوئے مجھے گھیرنے کی جان توڑکوشش کی تھی۔اس نے باقاعدہ سورۂ توبہ کی کافروں کو گھیر گھیر کرقتل کرنے کی ہدایات والی آیات نقل کرتے ہوئے مجھ سے پوچھاتھا کیا یہ قتل و غارت گری پر اکسانے والی کتاب نہیں ہے؟اس کے جواب میں ، میں نے کہا کہ یہ تو حالت جنگ کے احکامات ہیں۔ ہر ملک اور قوم کی یہی جنگی اسٹریٹجی ہوتی ہے۔ میں نے پلٹ کر اسی سے سوا ل کیا کہ اگر پڑوسی ملک ہم پر حملہ کردے تو ہم کیاکریں گے؟ کیا انہیں پھولوں کے ہار پہنائیں گے یا دشمن کو قتل کرکے دم لیں گے؟ اس پر اس وکیل نے مجھ سے پوچھا کہ اگر یہ قرآنی آیات جنگی حکمت عملی ہے تو پھر امن کی حالت میں قرآن کی پالیسی کیا ہے؟الحمد للہ اس وقت فوری طور پر میری زبان سے نکلا: لکم دینکم ولی الدین، تمہارا دین تمہارے لئے ، ہمارا دین ہمارے لئے۔(یہاں یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ اس طرح ہمارا آمنا سامنا ہونے کے بعد میں نے اسے اسلامی لٹریچر اور قرآن کا ترجمہ پیش کیاتھا جس سے الحمدللہ اس کے اندر موجوداسلام مخالفانہ رجحان اور تعصب کو بدلنے میں بڑی کامیابی ملی! اور بعد کے دنوں میں اس کے اندر واضح تبدیلی دیکھی گئی) ہائی کورٹ میں قرآن پر پابندی کی اپیل: اسی فسطائی پالیسی کے تحت چاند مَل چوپڑا نامی ایک بنگالی نے کلکتہ ہائی کورٹ میں 29؍ مارچ 1985 کو رٹ پٹیشن داخل کرتے ہوئے مانگ کی تھی کہ قرآن پراس ملک میں پابندی لگادی جائے۔ اس کا موقف بھی وہی تھایعنی قرآن (نعوذباللہ) انسانوں کے بیچ نفرت پیدا کرتا ہے،مسلمانوں کوکافروں کے خلاف خونریزی پر اکساتا ہے اور تشدد کے ذریعے نقض امن عامہ کا سبب بنتا ہے ۔اس سے پہلے چاند مل چوپڑا اور بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آنے والے ایچ کے چکربورتھی نے مغربی بنگال کے ہوم ڈپارٹمنٹ کو کئی مراسلے بھیج کر مانگ کی تھی کہ قرآن پر پابندی لگادی جائے۔مگر مغربی بنگال حکومت سے کوئی مثبت رد عمل نہ پاکر اس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔اپنے موقف کی حمایت میں اس نے درجن بھر قرآنی آیات بھی اپنی پٹیشن کے ساتھ منسلک کی تھیں۔ احتجاجی مظاہرے اور فسادات: مگر اس زمانے میں ملک کے اندرفسطائیت کے حق میں حالات سازگار نہیں تھے۔اس لئے مرکزی حکومت کے وزیر قانون اشوک سین اور اٹارنی جنرل نے خود اس کیس کے خلاف عدالت میں پارٹی بننے کا عندیہ دیا۔ جبکہ مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ نے اس رٹ پٹیشن کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک گھناونی حرکت قراردیا تھا۔اس کے علاوہ لوک سبھا میں دیگروزاء اور سیاستدانوں نے بھی اس اقدام کی مذمت کی تھی۔پھر اٹارنی جنرل آف انڈیااور ایڈوکیٹ جنرل آف ویسٹ بنگال نے عدالت میں حاضر ہوکر اس پٹیشن کی مخالفت میں بحث کی۔جس کے بعد مئی1985میں اس پٹیشن کو عدالت نے خارج کردیاتھا۔ دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے بینر تلے 20ہزار افراد نے اس کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ اس دوران کلکتہ کے مضافات، بنگلہ دیش، بہار اور جموں و کشمیر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں تشدد بھڑکنے سے 12افراد کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔

باقی ہے بہت کچھ ہونے کو ، اک عمر پڑی ہے رونے کو اٹھ اٹھ کے نہ تڑپا اتنا بھی ، اے درد ! ذرا دھیرے دھیرے

(اب اسلامی درسی کتابیں نشانے پر۔۔۔جاری ہے۔۔۔آئندہ قسط ملاحظہ کریں)

haneefshabab@gmail.com

ضروری وضاحت:اس مضمون میں پیش کئے گئے خیالات مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ اس میں پیش کردہ مواد کی صحت کے سلسلہ میں ادارہ بھٹکلیس ذمہ دار نہیں ہے۔ ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔