ڈپٹی محمد سعید خاں۔جنہیں زمانے کی ستم ظریفیوں نے تاریخ کے تاریک گوشوں میں دفن کردیا۔۔۔از: ڈاکٹر جسیم محمد

۔از: ڈاکٹر جسیم محمد
ہندوستان کی آزادی کی تاریخ محض ان چند عظیم المرتبت ہستیوں سے عبارت نہیں جن کے نام تاریخ کے روپہلے صفحات پر امر ہوگئے بلکہ ملک کی آزادی میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ایسے مجاہدین اور شہدا ء کی قربانیاں بھی شامل ہیں جنہیں تاریخ کے صفحات میں یا تو جگہ نہیں مل سکی یا پھر زمانے کی ستم ظریفیوں نے انہیں تاریخ کے تاریک گوشوں میں دفن کردیا۔ ایسے ہی ملک کی آزادی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردینے والے عظیم مجاہد تھے ڈپٹی محمد سعید خاں جنہوں نے سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے نہ صرف وطن عزیز کی آزادی کی راہ میں بے مثل قربانیاں پیش کیں بلکہ ملک کی آزادی کے بعد کسی سے ان کا بدل لینا بھی گوارہ نہیں کیا۔
ڈپٹی محمد سعید خاں1894میں غازی پور ضلع کے ایک بڑے گاؤں اُسیاں میں پیدا ہوئے۔ ان کی صحیح تاریخِ پیدائش کا علم تو نہیں ہوسکا لیکن سنہ بہرحال1894ہی ہے۔ انہوں نے ملک کی آزادی کی خاطر اپنی قربانیوں اور سماجی خدمات سے اپنے علاقے میں’’ عظیم المرتبت ہیرو‘‘ کا درجہ حاصل کرلیا تھا۔ ان میں بچپن سے ہی حب الوطنی اور سماجی فلاح کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم اپنے گھر اور گاؤں میں ہوئی لیکن بعد میں وہ اپنے والد کے ساتھ کلکتہ آگئے جہاں انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ان کا دور ملک کی آزادی کی خاطر جدو جہد کا دور تھا اور آزادی کے تعلق سے عوامی بیداری پیدا کرنے والی سرگرمیوں نے تعلیم کے حصول کے ساتھ ہی ان میں آزادی کے حصول کی جدو جہد سے دلچسپی پیدا کردی۔وہ علاقائیت، ذات پات کی لعنتوں سے پرے بلا تفریقِ مذہب و ملت ہر ہندوستانی کو اپنی جان سے زیادہ عزیز تصور کرتے تھے ۔ ان کی نظر میں سارا ملک ایک گھر اور اس کے تمام باشندے اس کے مکین تھے جن کی شناخت صرف اور صرف ہندوستانی تھی۔تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ استاد کے منصب پر فائز ہوئے جس کے دوران عظیم مجاہدِ آزادی اورآزاد ہندوستان کے معروف سیاسی رہنماجناب جے پرکاش نارائن ان کے شاگرد رہے جنہوں نے اپنی سیاسی بصیرت سے ملک کے منظر نامہ پر نہ صرف اپنے واضح نقوش ثبت کئے بلکہ زمانے پر یہ بھی ثابت کردیا کہ ان کی پرورش جس ہستی کی سرپرستی میں عمل میں آئی ہے وہ کس درجہ عظیم ہوگی۔
استادی کے منصب پر فائز رہنے کے دوران ہی ڈپٹی محمد سعید خاں نے بہار۔ بنگال پروونشیل سروسیز کو جوائن کرلیا۔ جب ان کی تقرری بہار کے ہزاری باغ میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر ہوئی اس ملک میں ہر چہار جانب آزادی کی جدو جہد کا ڈنکا بج رہا تھا جس میں بہار، بنگال اور اترپردیش کو اس جدوجہد میں خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ اسی دوران جب ہزاری باغ( بہار) میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کو تحریکِ آزادی کے دوران گرفتار کیاگیا تو ان کا معاملہ ڈپٹی محمد سعید خاں کی عدالت میں پیش ہوا۔ سینئر انگریز افسران نے ڈپٹی محمد سعیدخاں کو مشورہ دیا کہ مہاتما گاندھی کو ضمانت نہ دی جائے لیکن ڈپٹی محمد سعیدخاں پکّے محبِ وطن اور اپنی سرزمین کے وفادار تھے انہوں نے اپنی حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی مجرمانہ بنیاد نہ پاکر گاندھی جی کی ضمانت منظور کردی۔اس کے نتیجہ میں انگریز افسر نے میٹنگ طلب کرکے ڈپٹی محمد سعید خاں کے ساتھ بد سلوکی کرکے انہیں ذلیل کیا لیکن ڈپٹی محمد سعید خاں نے میٹنگ کے دوران ہی انگریز افسر کو منھ توڑ جواب دیا جس کی پاداش میں انہیں معطل کردیاگیا۔
ڈپٹی محمد سعید خاں نے اپنی معطلی کے خلاف بہار کے گورنر کی خدمت میں اپیل پیش کی اور طویل عرصہ تک ملازمت سے معطل رہتے ہوئے ذہنی دباؤ اور اقتصادی دشواریوں کا سامنا کیا مگر معطلی کے خلاف اپنی جنگ کو جاری رکھا۔ وہ جھکنا نہیں جانتے تھے اس لئے نامساعد حالات میں بھی کسی کے آگے جھکنے سے باز رہے۔اسے اتفاق ہی کہئے کہ جس افسر نے ڈپٹی محمد سعید خاں کو معطل کیا تھا وہی بہار کا گورنر مقرر ہوا۔ اس نے ڈپٹی محمد سعید خاں کو طلب کیا اور اپنی غلطی کا احساس ہونے پر ان کی معطلی ختم کی لیکن ایک جملہ ان کے خلاف لکھ دیا کہ تمام دورِ ملازمت میں انہیں کبھی ترقی نہ دی جائے۔
1947میں ملک کی آزادی کے بعد ڈپٹی محمد سعید خاں کے شاگردِ رشید جے پرکاش نارائن نے کافی چاہا کہ ڈپٹی صاحب کو ترقی دی جائے لیکن انہوں نے جواب دیا کہ شاگردوں کے ہاتھ سے استاد کی ترقی زیب نہیں دیتی کیونکہ یہ ہماری تہذیب و ثقافت کے برعکس ہے۔ ڈپٹی محمد سعید خاں کو اپنے ملک، اس کی مٹی، اس کی تہذیب و ثقافت اس درجہ عزیز تھے کہ انہوں نے ان کے وقار کو پامال نہیں ہونے دیا اور اپنا ذاتی نقصان منظور کرلیا۔بہار حکومت نے ان کا معاملہ اسمبلی میں پیش کرکے یہ منظور کرالیا کہ جب تک وہ ملازمت میں رہنا چاہیں ان کی خدمات لی جائیں اور ان کو اسپیشل ڈپٹی مجسٹریٹ کے عہدے پر رکھا جائے ۔ جہاں سے وہ اسی عہدے سے سبکدوش ہوئے۔
اس کے علاوہ ضلع غازی پور کے کمسار میں ڈپٹی محمد سعید خاں کے ذریعہ قائم کردہ اسکول آج ایس کے بی ایم ڈگری کالج کی شکل میں جس سطح پر ملک کی تعلیمی خدمات انجام دے کرڈپٹی محمد سعید خاں کی علمی فضیلت کی گواہی دے رہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈپٹی محمد سعید خاں نے ملک سے ناخوانگی کو ختم کرکے ایک تعلیم یافتہ ملک کا خواب بھی دیکھا تھا اور وہ جانتے تھے کہ ملک اسی صورت ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے جب ملک کی شرح خواندگی میں خاطر خواہ اضافہ ہو۔ انہوں نے تعلیم کا ایک چراغ روشن کیا تھا جو ایک عظیم الشان قندیل کی شکل میں روشن ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں ڈپٹی صاحب کی قربانیوں کے پیشِ نظر اس ڈگری کالج پر خصوصی توجہ مبذول کریں۔ ملک کا ایسا فرزند جو ملک کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردینے کو باعثِ فخر سمجھے آج تاریخ کے صفحات میں کہیں کھوگیا ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے موجودہ نظام نے اس مردِ مجاہد کوتاریخ کے صفحات میں تلاش کرنے کی موہوم سی کوشش بھی نہیں کی۔ ڈپٹی محمد سعید خاں نے کبھی خود کو علاقائیت، ذات پات اور مذہب کے بندھنوں میں قید نہیں رکھا۔ وہ سب کے تھے اور سب ان کے تھے۔ انہیں اپنی مٹی سے پیار تھا، اس سرزمین میں رہنے بسنے والے ہر انسان سے پیار تھا اور اس پیار کا تقاضہ ہے کہ آج جب کہ وہ اس دنیا میں نہیں ہیں حکومت ان کی ایک ایسی یادگار قائم کرے جو آنے والی نسلوں کو حب الوطنی، ہم آہنگی، امن اور انصاف کا درس دیتی رہے۔ یہی ہندوستان کے اس عظیم فرزند کو خراجِ عقیدت ہوگا۔