حج کا موسم آگیا۔ دیار حبیبؐ کی زیارت کی گھڑی آگئی۔ دیوانوں کے جوش جنون کے تازہ ہونے کا زمانہ آن لگا۔ بچھڑے ہوؤں کے ملنے کا وقت آ پہونچا۔ جن جن کے نصیب میں تھا، وہ باوجود ہرطرح کی بے سروسامانی کے، اپنے دوردراز وطن سے چل کر، سخت گرمی کے موسم میں طویل سفر کی کلفتیں اُٹھاکر، عرب کے تمتماتے ہوئے آفتاب، حجاز کی جھُلسا دینے والی لُو، ریگستان کی تپتی ہوئی زمین، کو برداشت کرتے، امیر وغریب ، لاکھوں کی تعداد میں، سب ایک ہی قسم کا لباس پہنے، سب ایک ہی چادر اوڑھے، اور ایک ہی تہمد باندھے، اپنے ایک ہی پیارے کی یاد میں، اپنے ایک ہی دُلارے کی دھن میں، اُسی کا نام جپتے ،اُسی کی بڑائی پکارتے، سعی وطواف ، حج وزیارت میں مشغول ہیں۔ آپ کا شمار اگر ابکی سال کے ان خوش نصیبوں میں نہیں، تو کیا خدانخواستہ ، آپ کے دل میں بھی اس کے لئے کوئی طلب اور تڑپ ، کوئی ذوق وشوق، کوئی جذبہ وولولہ موجود نہیں؟
اگر طلبِ صادق رکھنے کے باوجود ، ابکی سال حاضری کی سعادت آپ نہ حاصل کرسکے، تو زیادہ غم نہ کیجئے۔ کم ازکم، اپنی بستی میں تو اپنے ایمانی بھائیوں کے ساتھ، خانہ کعبہ کی طر ف منہ کرکے ، رب کعبہ کے آگے اپنا سر بہرحال جھکاہی سکتے ہیں۔ او ر اپنے مکان پر رہ کر لامکان کے مکین کی بڑائیاں تو شب وروز پکار ہی سکتے ہیں۔ خانۂ کعبہ کا معمار اولؑ ، دنیا کا پکا اور بڑا موحّدؑ، پروردگار عالم کا دوستؑ، آپ ہی جیسا انسان تھا۔ اُس کی بڑی قربانی کی یاد منانے کو آج ساری دنیائے اسلام قربانیاں کررہی ہے۔ جس خدائے توانا وبرتر نے اُس کی قربانی کو یہ حُسنِ قبول عطافرمایا، کیا وہ آپ کی قربانی کو قبول نہ کرے گا؟ لیکن خود آپ بھی کبھی اپنی قربانی کو مقبول کرانے کی کوشش فرماتے ہیں؟ کیا قربانی محض ایک بے حقیقت رسم ہے، جو محض چند روپیہ کے خرچ سے ایک جانور خرید کرکے ذبح کردینے سے پوری طرح ادا ہوجاتی ہے؟ کیا اللہ کے دوستؑ کی قربانی، اسی مرتبہ اور اسی درجہ ، کی تھی؟
میری زندگی اورمیری موت ، سب کچھ پروردگار عالم ہی کے لئے ہے۔ یہ اُس کا قول تھا۔ اپنی پیاری اولاد کو خدا کی راہ میں چھُری کے نیچے لے آنا، یہ اُس کا عمل تھا۔ آپ کاعمل اس عمل سے کوئی مناسبت رکھتاہے؟ ایک مُسلم وہ تھا، جو اولاد کے حلق پر چھُری پھیر رہاتھا، ایک مُسلم آپ ہیں، کہ جب آپ سے کہاجاتاہے کہ اپنی اولاد کو بجائے فرنگی قالب میں ڈھالنے کے، خدمت دین کے لئے تیار کیجئے، توآپ ایسی تجویزوں کو تمسخر کے قابل سمجھتے ہیں۔ پھر آپ کو کوئی حق ہے ، کہ آپ بھی اپنی قربانیوں کے مقبول ہونے کی کوئی توقع قائم کرسکیں؟ قربانی کا موسم تو خاص ایثار وتحمل، بے نفسی وبے لوثی، خدمت وخلوص، کے جذبات کی ترقی وبالیدگی کا زمانہ ہونا چاہئے، لیکن پھر یہ کیاہے، کہ اپنے وطنی بھائیوں کی نادانیوں کے جواب میں آپ بھی نادان بن جاتے ہیں، اور ان کی ضد کا جواب اپنی ضد سے دینے لگتے ہیں؟ دین کے اہم مقصدوں، اور امت اسلامیہ کے وسیع مصلحتوں کے لئے توآپ کو بڑی سی بڑی قربانیوں کے لئے تیار رہنا چاہئے، فوری انتقامی جذبات کی قربانی، توبہت ہی ہلکی قربانی ہے۔ کیا خدانخواستہ آپ اتنی ہلکی قربانی کے لئے بھی آمادہ نہیں؟