جولائى 09 سنه 2017 كى شام كو آكسفورڈ سے لندن ہيتهرو ايرپورٹ كے لئے نكلا، اور جٹ ايرويز كى ايكـ فلائٹ سے هندوستان كے لئے پا به ركاب هوا، يه سفر والد محترم مد ظله كى ملاقات اور وطن كى زيارت كے علاوه علمى، فكرى اور دعوتى اغراض ومقاصد پر مشتمل تها، اس لئے يه بات ذهن كے نهاں خانه ميں جا گزين تهى كه واپسى پر اس سفر كى تفصيلات قلمبند كرنى هے، سفر سے انسان جو كچهـ سيكتها هے كتابوں سے ممكن نهيں، شبلى نے كتنى سچى بات كهى: "مجھ كو معلوم هوا كه انسان جب تک دنيا كے بڑے بڑے حصے نه ديكهے انسان نهيں هوسكتا، افسوس هے ان لوگوں پر جن كى تمام عمر ايكـ مختصر سى چار ديوارى ميں بسر هو جاتى هے" (مكاتب شبلی 1/13)
جهاز كى سيٹ پر بيٹهتے هى برادر مكرم خالد ندوى كانپورى سے فون پر گفتگو هوئى، خالد ندوه كے ساتهى، بهت قريبى دوست، صاحب علم، هوشمند، صالح اور نيک طينت انسان هيں، تقريبا تيس سال سے دبئ ميں امامت وخطابت مين مشغول هيں، زمانه طالب علمى سے ہر دلعزيز رهے هيں، ايكـ دور وه تها جب ندوه كا هر استاذ، هر قديم وجديد طالب علم، بلكه هر مهمان وزائر ان سے واقف تها، كيونكه وهى ندوه كى مسجد مين اذان ديتے اور عصر كى نماز كے بعد نواب صدر يار جنگ كى علمائے سلف يا اور كوئى كتاب پڑهتے، خالد كى آواز بهت بلند، صاف اور پر كشش هے، آج بهى وه آواز اس زمانه كے طلبه واساتذه كے كانون ميں گونجتى هے اور دلوں ميں ايک خاص قسم كا گداز پيدا كرتى هے، خالد كے بعد كسى كے پڑهنے كا انداز كبهى جچا نهيں: وه جنت نگاه يه فردوس گوش هے.
الحاصل خالد ان پيارے اور مخلص دوستوں ميں سے هيں جن كے بارے ميں كها گيا هے: ذوقے چناں ندارد بے دوست زندگانى، خالد سے وقتا فوقتا دبى اور لكهنؤ ميں ملاقات هوتى رهتى ہے، گزشته سال لكهنؤ ميں ان كے دولت كده پر برادران گرامى جعفر مسعود حسنى اور محمد احسان ندوى كى معيت ميں حاضرى هوئى، اور ديرينه اور بے تكلف دوستوں كى ايكـ پر لطف صحبت رهى:
تم سے ملنا خوشى كى بات سهى
تم سے مل كر اداس رهتا هوں
جهاز كى سيٹ پر هى مغرب اور عشاء، اور فجر كى نماز پڑهى، عام طور سے ميرا معمول جهاز كے پيچهے كے حصه ميں قيام وقعود اور سارے اركان كے ساتهـ نماز ادا كرنے كا رها هے، سنه 2015 ميں طلبه كى ايک بڑى تعداد كى رفاقت ميں بيت المقدس كا سفر هوا، ميں نے حسب معمول پيچهے جا كر نماز ادا كى، اور طلبه نے ميرى پيروى شروع كردى، اتنى بڑى تعداد كا وقت كے اندر نماز پڑهنا تقريبا نا ممكن تها، ميں نے غور وخوض كے بعد يه حل نكالا كه لوگ اپنى اپنى سيٹوں پر نماز ادا كريں، اور اس وقت سے اب تک اسى رائے پر عمل پيرا هوں.
دس جولائى كى صبح كو دہلى ايرپورٹ پر پهنچا، ميرے ساتهـ ميرے شاگرد ڈاكٹر شامخ سعيد اور ان كے والد محترم تهے، پهلے سے طے شده پروگرام كے مطابق اس بار دهلى ميں قيام كے بجائے ديوبند اور سهارنپور كے لئے روانه هونا تها، اس كے لئے برادر مكرم جناب مولانا مسعود عزيزى صاحب نے همرهى وضيافت كى پيشكش كر ركهى تهى، ايرپورٹ پر مولانا عزيزى، ان كے صاحبزادے محمد عبد الله عزيزى اور ان كے مركز كے مدرس قارى نديم صاحب كو منتظر پايا۔ سب سے ملاقات كى، مولانا عزيزى صاحب اور ان كے ساتهيوں كى وجه سے بهت سهولت حاصل هوئى اور سفر خوشگوار گزرا.
مولانا مسعود عزيزى ايک فعال اور دردمند عالم با عمل هيں، ضلع سهارنپور كے قصبه مظفر آباد كے باشنده هيں، مفكر اسلام حضرت مولانا على مياں رحمة الله عليه سے قربت رهى ہے، اور اب آپ كے جانشين مخدوم معظم واستاذ محترم حضرت مولانا سيد محمد رابع حسنى دامت بركاتهم كا اعتماد حاصل هے، مولانا عزيزى علمى كمالات اور تصنيفى كارنامون كے ساتهـ عزيمت، فنائيت، حلم وبردبارى، تواضع، ايثار وقربانى كى عظيم صفات سے آراسته هيں، يه وه خوبياں هيں جو انسان كا حقيقى جوهر هيں، اور جو ايک فرد كو امامت وقيادت كے منصب پر سرفراز كرتى هيں، افسوس كه آج مدارس كے فارغين اور علماء كے اندر ان قدروں كا فقدان هے، جس كى وجه سے ان كى صحبت كى تاثير ختم هوگئى هے اور وه امامت وقيادت كى اهليت سے محروم هوتے جا رهے هيں، يه ديكه كر شديد صدمه هوتا هے كه ايک عالم اتنى طويل مدت مدرسوں اور قال الله اور قال الرسول كى فضاؤں ميں گزارنے كے باوجود اسى طرح بے صبرى اور غيظ وغضب بلكه كبر ورعونت كا مظاهره كرتا هے جو جاهلوں اور غير مهذب لوگوں كا شيوه هے اور اس پر شكايت يه هے كه لوگ مولويوں كا احترام نهيں كرتے، حلانكه مولويت مدرسه كى چہار ديوارى ميں وقت گزارنے كا نام نهيں، بلكه مولويت علمى، عملى اور اخلاقى فضائل سے بہره ور هونے اور پاكى عقل وخرد سے عبارت هے:
هر هاته كو عاقل يد بيضا نهيں كهتے
جس پاس عصا هو اسے موسى نهيں كهتے
سفر كے ساتهى اگر متحمل مزاج چست اور نشيط هوں تو سفر كا حقيقى لطف حاصل هوتا هے، اور همارا يه سفر اسى پر لطف ماحول ميں هوا، مولانا عزيزى صاحب نے راسته ميں كهانے كى پيش كش كى، ميں نے عرض كيا كه اب ديوبند پہنچ كر كهانا كهائيں گے، مولانا نے پهر بهى كچه كيلے خريد لئے اور ان سے ہمارى ضيافت كى.
راسته ميں مشفق مكرم وبرادرم معظم جناب مولانا ڈاكٹر سعيد الرحمن فيضى صاحب كا فون آگيا، سعيد بهائى استاذ گرامى مولانا محبوب الرحمن ازهرى رحمة الله عليه كے صاحبزادے هيں، ندوه سے عالميت كرنے كے علاوه علي گڑھ مسلم يونيورسٹى سے بى يو ايم ايس كيا، اور سالہا سال سعودى عرب ميں بسلسله ملازمت قيام كرنے كے بعد كناڈا منتقل هوگئے، جهاں ان كى علمى ودعوتى سرگرمياں آب وتاب سے جارى هيں، سعيد بهائى كو قرآن كريم سے خاص شغف هے، جس كى وجه سے ان سے عقيدت ومحبت ميں اضافه هوگيا هے، سعيد بهائى كى زبانى معلوم هوا كه همارے ساتهى نجم الحسن ندوى مقيم بحرين بهى سعودى عرب ميں قيام كے وقت سے يعنى تقريبا تيس سال سے زائد عرصه سے قرآن كريم كى تلاوت، اور تفكر وتدبر ميں مشغول هيں۔ الله تعالى اس عاجز كو بهى اپنى كتاب كا تعلق نصيب كرے، يهاں يه عرض كرنا ضرورى هے كه اس بار ہندوستان كے سفر كو يادگار علمى سفر بنانے ميں سعيد بهائى كى توجهات كا خاص دخل هے، مختصر يه كه آپ وسعت ظرفى، خردان نوازى، حوصله افزائى، اور اصاغر كو اكابر بنانے كے امام هيں.
راسته ميں برادر گرامى مولانا اسلم عزيز صاحب كا بهى فون آگيا، جو قطر ميں مقيم هيں، اور وهاں كى مجلس ابنائے ندوه كے صدر هيں اور بهت ہى فعال، اور نشيط هيں، طبيعت كى نرمى كى وجه سے مقبول خاص وعام هيں، اس وقت هندوستان تشريف لائے هوئے تهے، اور ملاقات كے خواهشمند، انهوں نے توقع ظاهر كى كه شايد ندوه ميں ملاقات هوجائے، اسلم عزيز صاحب كى نيكى كى وجه سے ان سے ايكـ خاص عقيدت هے:
نيت نيک ترى آئينه حسن عمل
عمل نيک ترا جلوه حسن نيت
راسته ميں ايک اور اهم اور غير معمولى شخصيت سے فون پر بات هوئى، اور وه هيں جناب مولانا خالد حسين ندوى صاحب، دهلى كے آبجكٹيو اسٹڈيز ميں پروفيسر منظور عالم صاحب كے دست راست، گزشته سال هندوستان آمد كے موقع پر انهوں نے احقر كے لئے اپنے مركز ميں "امام ابن تيميه اور علامه حميد الدين فراهى كے اصول تفسير كے تقابلى مطالعه" كے موضوع پر ايک سيمينار كا انعقاد كيا تها جس ميں علماء اور دانشورون كى بڑى تعداد سے ملاقات كا موقع ملا تها، خالد صاحب جونير هونے كے باوجود ندوه ميں ميرے معاصر تهے، سرو قد، خوبصورت اور وجيه شخصيت كے مالكـ هيں، انتظامى صلاحيت ميں ممتاز، اور بعض كتابوں كے مصنف، ملكـ كے طول وعرض ميں علمى، فكرى اور فلاحى سرگرميوں كے لئى سفر كرتے رهتے هيں، اور اس وقت انٹرنيشنل ندوى فورم ان كى كامياب انتظامى صلاحيتوں كا رهين منت هے، مجهے محبت ان نفوس سے هے جو همه وقت نشيط وفعال هيں، اور هر لمحه رواں ودواں:
اسى طرح ياں اهل همت هيں جيتے
كمر بسته هيں كام پر اپنے اپنے
زمين سب خدا كى هے گلزار انہیں سے
زمانه ميں هے گرم بازار انہیں سے