کتب خانہ پیر جھنڈا کا تذکرہ آیا ہے۔ آخری زمانے میں اس کتب خانے سے وابستہ دو بزرگان دین کی قلمی کتابوں کے نادر ذخیرے اور دینی واصلاحی خدمات کی وجہ سے بڑی شہرت رہی ، ان میں سے ایک مولانا محب اللہ شاہ راشدیؒ اور دوسرے مولانا بدیع الدین شاہ راشدیؒ تھے، آخر الذکر سے ہمیں ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے،سعودی علماء کو خاص طور پر ان کا بڑا احترام کرتے ہم نے پایا۔
یہ دراصل سندھ کے صوفی سلسلہ عالیہ راشدیہ قادریہ کی ایک شاخ کے سجادہ نشین تھے، یہ سلسہ امام الاحرار پیر سید محمد راشد شاہؒ کی طرف منسوب ہے، اور یہ سید احمد شہید ؒ کی تحریک کے نقش قدم پر جہادی اورروحانی سلسلہ ہے، ہمارے بزرگان دین میں سے مولانا احمد علی لاہوری اور مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہم کو اس سلسلے سے عقیدت اور ربط و تعلق تھا۔ اس کے ماننے والے حران اسلام یا حر کہلاتے ہیں۔
پیر سید راشد شاہ رحمۃ اللہ کو افغانستان کے بادشاہ تیمور شاہ کے بیٹے زمان شاہ نے دو نشانیاں ایک پکڑی اور جھنڈا بھیجی تھیں۔ پیر راشد شاہ کے بیٹوں میں پیر صبغۃ اللہ شاہ راشدی (اول) اور پیر سید محمد یاسین شاہ راشدی نے بڑی عمر کے ساتھ بڑی شہرت پائی۔ پیر سید راشد شاہ کی ۱۲۳۳ھ میں وفات کے بعد آپ کے عقیت مندوں نے جھنڈا پیر سید محمد یاسین شاہ راشدی کو اور پگڑی پیر سید محمد صبغۃ اللہ کو دی۔ اس طرح یہ خاندان پیر جھنڈا اور پیر پگاڑا کے نام سے دو حصوں میں بٹ گیا۔
پیر پگاڑا کے یہاں سلسلہ بیعت اور انگریزوں کے خلاف جہاد پر زیادہ تر توجہ رہی۔ پہلے پیر پگاڑا پیر صبغۃ اللہ شاہ اول کے زمانے میں سندھ میں انگریزی قبضے کے خلاف پہلی حر تحریک شروع ہوئی، دوسری حُر تحریک (1847ء۔ 1890ء) سید حزب اللہ شاہ تخت دھنی کے دور میں شروع ہوئی، حُر تحریک کا تیسرا مرحلہ 1895ءمیں چلایا گیا جبکہ چوتھے مرحلہ میں پیر سید صبغت اللہ شاہ ثانی المعروف سوریہہ بادشاہ نے 1928ءمیں حُر تحریک کی بنیاد رکھی۔ حروں نے انگریزوں کے خلاف متعدد مرتبہ علم جہاد بلند کیا اورسندھ پر انگریزوں کے قبضے کے بعد بھی کافی عرصے تک چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران حروں نے بغاوت کی تو انگریزوں نے اسے بڑے بے دردی سے کچل دیا اور سید صبغت اللہ شاہ راشد ثانی کو 1943ء میں، پھانسی دے دی گئی۔ ان کے فرزند شاہ مردان شاہ دوم کو تعلیم و تربیت کے لیے انگلینڈ بھیج دیا گیا۔ پیر صاحب قیام پاکستان کے تین سال بعد وطن واپس آئے اور اپنے والد کی مسند پر بیٹھے۔ اور پاکستان کی سیاست میں متحرک رہے، ہمارے زمانے میں پیڑ پگاڑا کے لقب سے یہی مشہور رہے۔
پیر جھنڈا نے سندھ میں رائج بدعات اور خرافات اور عقیدے کی اصلاح کی تحریک چلائی، اور مرکز الدعوۃ والارشاد کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، سندھ کے پس ماندہ اور دیہات میں ہونے کے باوجود انہوں نے حرمین شریفین میں قیام اور تعلیم کے مواقع انہیں ملے، ان کے روابط مصر کے علامہ رشید رضا مصری وغیرہ سے بھی ہوئے، اور ان کے پیروں نے یہاں پر ایک عظیم کتب خانے کی بناء قائم کی۔ جو عالم اسلام کے محققین کا مرجع بنی ۔ علمی و اصلاحی موضوعات پر یہاں سے کتابوں کی بھی اشاعت ہوتی رہی۔ یہ حضرات مسلکی طور پر اہل حدیث مکتبہ فکر سے وابستہ ہوئے۔
ہمارے حلقے میں پیر جھنڈا کی شہرت اور تعلق کا سبب شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ بنے، شیخ عبد الفتاح کا یہ امتیاز رہا کہ انہوں نے نہ صرف اس مرکزکو متعارف کروایا بلکہ علمائے دیوبند کے علمی کاموں اعلاء السنن، فتح الملھم ، اور علامہ عبد الحی لکھنوی ؒ اور علامہ کشمیریؒ کی کتابوں کی اہمیت کو نہ صرف عالم عرب میں متعارف کروایا بلکہ اہل ہند کے دلوں میں میں بھی ان کی عظمت شیخ عبد الفتاح رحمۃ اللہ علیہ کی ان میں بے پناہ دلچسپی کے بعد ہی زیادہ اجاگر ہوئی، ورنہ یہ سب کتابیں پرانی لیتھو پرنٹنگ پر ایک بار چھپی تھیں، اور خال خال ملنے کی وجہ سے گنے چنے اہل علم ہی ان سے استفادہ کرپاتے تھے۔
2020-08-10
https://telegram.me/ilmokitab/