نئے سال کا جشن۔۔۔ہنگامہ ہے کیوں برپا ؟۔۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
نئے سال کے جشن اور اس کے منفی مضمرات پر میں نے اپنی سابقہ قسط میں بات ختم کی تھی۔اوراس بار گریگورین کیلنڈر اور نئے سال کی حقیقت کے تعلق سے کچھ تفصیلات پیش کرنا چاہتا تھا۔مگر مجھے با ت پھر جشن سالِ نو کے ہنگامے سے ہی شروع کرنی پڑ رہی ہے ۔کیونکہ مضمون پوسٹ ہونے کے بعد اسی سلسلے کی مزید کچھ باتیں ایسی سامنے آئی ہیں کہ اس سے دامن بچا کر نکل جانا میرے لئے ممکن نہیں تھا۔ملک اور دنیا کی خبروں پر نظر رکھنے والا ہر شخص اس بات سے واقف ہے کہ جشن سال نو کے موقع پرہمارے ملک میں ہر سال کبھی دہلی ،کبھی گوا، کبھی ممبئی یاکسی نہ کسی مقام سے خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور بے انتہا بھیڑ بھاڑ کے موقع سے فائدہ اٹھاکر جنسی ہراسانی کرنے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ لیکن میڈیا والے اور خواتین کی ترقی و آزادی کی علمبردار تنظیمیں ہر بار ان معاملات کو کچھ اس طرح پروجیکٹ کرتے ہیں جیسے زندگی میں پہلی بار ایسی انہونی ہوگئی ہو۔ لہٰذافطری حالات اور زمینی حقائق سے پردہ پوشی کرتے ہوئے اسے پولیس اور حکومت کی ناکامی قرار دینا اور آسما ن سر پر اٹھا لینا عام بات ہوگئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے بھی دیکھے گئے ہیں کہ :
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے ڈاکہ تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے
بے چارے ہوم منسٹر کی شامت: امسال بھی نئے سال کے جشن کی رات کو بنگلورو میں جنسی چھیڑچھاڑ اور ہراسانی molestationکے مناظر کیمروں میں قید ہوئے اور قومی سطح پر بحث و مباحثے کا موضوع بن گئے۔حالانکہ دستیاب فوٹیج کی وجہ سے بنگلورو کی سڑکوں پر جنسی ہراسانی کے ملزموں کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔لیکن اس دوران کرناٹکا کے ہوم منسٹر ڈاکٹر پرمیشور کی شامت آگئی۔ وزیر موصوف نے جشن سال نو کے موقع پر پیشگی حفاظتی انتظامات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ" ہم نے بنگلورو کے دوتین اہم ترین مقامات پر 1500پولیس والوں کو حفاظت اور نگرانی کے لئے متعین کردیا ہے۔ مگر ہجوم کی صورت میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔" ان کے اس بیان کو لے کر نیو ایئر کے جشن سے پہلے ہی مذمتی بیانات آنے شروع ہوگئے تھے کہ ہوم منسٹر نے ان واقعات کو معمولی قرار دیا ہے اور اس کی سنگینی کو محسوس نہ کرتے ہوئے عورت کی اہمیت کو گھٹا نے کاکام کیا ہے۔لیکن جب حقیقت میں پھر یہ واقعات رونما ہوگئے تو ہوم منسٹرنے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ" بدقسمتی سے ایم جی روڈ،بریگیڈیئر روڈ، کمرشیل اسٹریٹ وغیرہ پرایسے نوجوانوں کی بھیڑ ہوجاتی ہے جو نہ صرف ذہنی طور پر بلکہ لباس سے بھی مغربی تہذیب اپنائے ہوتے ہیں۔اور شراب کا نشہ بھی اپنی جگہ کام کرجاتا ہے۔" ابو عاصم اعظمی بھی بولے : کرناٹکا ہوم منسٹر کے اس بیان پر انہیں میڈیا اور سوشیل میڈیا میں آڑے ہاتھوں لیاجانا لازمی تھاہی۔ اس دوران ممبئی میں سماج وادی پارٹی کے لیڈر ابو عاصم اعظمی نے بھی اسی تناظر میں کچھ حقیقت پسندانہ تبصرہ کیا، جو جلتی پر تیل کا کام کر گیا۔ انہوں نے کہا کہ" ایک تو لڑکیوں کا نیم عریاں لباس ہی ایسے واقعات کا سبب بنتا ہے دوسرے آدھی رات کو جوان لڑکیوں کا سڑکوں پر نکلنا مصیبت کو دعوت دیتا ہے۔ انہیں تنہا باہر نکلنے کے بجائے اپنے گھر کے مردوں کے ساتھ نکلنا چاہیے۔" ابو عاصم نے خواتین کے لئے نازک صورتحال کا موازنہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ "آگ اور پٹرول کا ایک جگہ جمع ہونا خطرناک ہوتا ہے۔ اور جہاں شکر ہوتی ہے وہاں چیونٹیاں آ ہی جاتی ہیں۔عورتیں عریانیت کو فیشن قرار دیتی ہیں۔اس لئے یہ تو ہونا ہی تھا۔" خواتین کے حقوق کے علمبردار تلملا اٹھے: بس پھر کیا تھا، نیوز چینلس، ویب سائٹس اور نیوز پورٹلس پر ہر جگہ ابو عاصم اورڈاکٹر پرمیشور کے بیانات کی مذمت شروع ہوگئی۔سماج وادی پارٹی کی جوہی سنگھ اور دیگر سیاسی شخصیات نے بھی مذمتی بیانات دئے۔دوست کرتے ہیں ملامت ، غیر کرتے ہیں گلہ کیا قیامت ہے مجھی کو سب برا کہنے لگے
حالانکہ ڈاکٹر پرمیشور اور ابوعاصم کے یہ بیانات مبنی بر حقائق تھے ۔مگر سماجی حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ کوئی بھی اس کڑوی سچائی کو قبول کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ سب نے ان کے خیالات کو مردانہ بالادستی اور عورتوں کو حقیر اور ذلیل سمجھنے والی ذہنیت کا مظاہرہ قرار دیا۔ ٹائمز ناو کے سابق ایڈیٹران چیف اور اپنی شور شرابے والی نیوز اینکرنگ کے لئے بدنام ارنب گوسوامی کو شکایت ہے کہ اس مسئلے پر اس طرح شور اور ہنگامہ نہیں مچایا گیا جس طرح کے ہونا چاہیے تھا۔اسی طرح عورتوں کے حقوق ، مساوات اور آزادی کے لئے سرگرم عمل نیشنل کمیشن فار ویمن بھی حرکت میں آگیا۔ کمیشن کی چیر پرسن للیتا کمارا منگلم نے ابو عاصم، پرمیشور اور ان جیسے خیالات رکھنے والوں کی نہ صرف جم کر مذمت کی، بلکہ ان بیانات کو خواتین کے لئے ہتک آمیز قرار دیتے ہوئے باز پرس کرنے کے لئے پرمیشور اور ابو عاصم کے نام پر سمن بھی جاری کردئے۔ کیا یہ صنفی تعصب ہے؟!: سیاست دانوں ، مذہبی لیڈروں، پولیس افسران وغیرہ کی طرف سے جب بھی عورتوں کی کمزوری یا خلقی نامساوات کا تذکرہ کرکے عورتوں کو ان کا حقیقی مقام دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مشرقی تہذیب اور اخلاقی حدود میں رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو پھرمساوات مر د وزن کی غیر فطری تحریکات اور مہمات چلانے والوں کی طرف سے واویلا مچایا جاتا ہے کہ یہ صنفی(sexist) امتیاز اور تعصب ہے جو مردوں نے پھیلا رکھا ہے۔ ڈاکٹر پرمیشور اور ابوعاصم جیسے بیانات دینے والوں کو بھی اسی زمرے میں رکھا گیاہے۔ لیکن اسی سے ملتاجلتا ایک بیان وزیر اعظم نریندرسے بھی منسوب ہے جس پر ان کے خلاف کوئی ہنگامہ نہیں ہوا تھا بلکہ ان کی بڑی ستائش ہوئی تھی جب انہوں نے کہا تھا کہ "جب لڑکیا ں 12سال کی ہوجائیں تو پھر والدین کو ان پر نظر رکھنا چاہیے۔ ان سے پوچھنا چاہیے کہ وہ کہاں جاتی ہیں؟وہ کب واپس لوٹیں گی؟ اسی طرح لڑکوں سے بھی پوچھنا چاہیے کہ تم کہاں اور کیوں جارہے ہو؟ تمہارے دوست کون ہیں؟ کیونکہ جو کوئی بھی عصمت دری کرتا ہے وہ کسی نہ کسی کا بیٹا ہی ہوتا ہے۔"بالکل اسی انداز کا ایک بیان آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے بھی دیا تھا ۔انہوں نے کہا تھا کہ "عصمت دری شہری زندگی کی پیداوار ہے۔ اور rape انڈیا میں ہوتا ہے ، بھارت میں نہیں!"اس دوسرے جملے کی منطق اور وضاحت تو خیر موہن بھاگوت ہی کرسکتے ہیں۔ مگر اس پر بھی کوئی واویلا نہیں ہواتھا۔پتہ نہیں اس وقت صنفی تعصب کی رٹ لگانے والوں کی بولتی کیوں بند ہوگئی تھی۔ ماتے مہادیوی نے پتے کی بات کہی!: لیکن اس موضوع پرجنوبی ہند کی ایک ہندو مذہبی اورروحانی شخصیت ، بسوا دھرما پیٹھا کی صدر ماتے مہادیوی نے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ انہوں نے بنگلورو میں عورتوں کے ساتھ حالیہ جنسی ہراسانی کے مسئلے پر بولتے ہوئے کہا:" آج کل عورتوں پر جنسی حملے کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں آزادانہ طور پر راتوں کو گھومنے پھرنے لگی ہیں۔لڑکیوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ سالِ نو کا جشن منانے کے نام پر تنگ اور ناکافی کپڑے پہن کر باہر نکلیں۔ اس طرح کا رویہ گویا شہوت زدہ ذہنیت والوں کو (جنسی حملے کے لئے ) دعوت دینے کے برابر ہے۔"ماتے مہادیوی نے آئندہ اس طرح کی جنسی ہراسانی کو روکنے کے لئے پورے جسم کو ڈھانکنے والا لباس پہننے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ:"عورتیں بھی ان کے ساتھ ہونے والی عصمت دری کے لئے ایک حد تک ذمہ دار ہیں۔ عریاں اور فحش فلمیں بھی اس کا سبب ہیں۔اس کا سد باب کرناہوتو عورتوں کے لئے ڈریس کوڈ(مخصوص لباس) لاگو کرنا چاہیے ۔ ہندوستان میں بھی عورتوں کے لئے عربی ممالک کی عورتوں جیسابدن ڈھانکنے والا لباس متعارف کرنا چاہیے۔"اگرچہ کہ ماتے مہادیوی کے اس بیان پر بھی بڑی لے دے ہورہی ہے۔ ایک عورت ہونے کے باوجود عورتوں کے تعلق سے اس طرح کے بیان کو ہتک آمیز قرار دیا جار ہے۔ مگر زندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے غیر فطری طرز زندگی اپنانے والے اگر ٹھنڈے دل سے سوچیں اور زمینی حقائق کو کھلے دل سے قبول کرتے ہوئے مرد وزن کی فطری حیثیت کے مطابق جینے کا انداز اپنائیں توماتے مہادیوی کی خدالگتی بات ہی بہت سارے مسائل کا حل ثابت ہوگی۔کاش کہ دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان مسموم ذہنوں کو زندگی کی کڑوی سچائیوں سے ہم آہنگ کرسکیں!اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا
haneefshabab@gmail.com
ضروری وضاحت:اس مضمون میں پیش کئے گئے خیالات مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ اس میں پیش کردہ مواد کی صحت کے سلسلہ میں ادارہ بھٹکلیس ذمہ دار نہیں ہے۔ ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔