ام الخبائث ۔۔۔۔۔۔از:مولانا سید محمد زبیر مارکیٹ

شراب کو ام الخبائث کہا جاتا ہے اس کی کوکھ سے ہزاروں برائیاں جنم لیتی ہیں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں شراب نوشی سے اجتناب کرو کیونکہ شراب نوشی ہر برائی کی کنجی ہے۔
اس کی لت جس کو لگ جاتی ہے وہ ایک بگڑا ہوا انسان بن جاتا ہے اکثر اس کے ذریعہ بیوی اور شوہر کے درمیان نفرت جنم لیتی ہے گھر کے نظام میں خلل پیدا ہو جاتا ہے چوری ڈکیتی عصمت دری اور قتل کے واقعات بھی اس کے ذریعہ پیش آتے ہیں ایکسیڈنٹ کے جو حادثات ہوتے ہیں اس میں نشہ ہی کو اکثر سبب مانا گیا ہے جس کا جوان شرابی ہو وہ سوسائٹی برباد ہوجاتی ہے۔
بقول حفیظ میرٹھی:
میدان کارزار میں آئے وہ قوم کیا جس کا جوان آئینہ خانہ میں رہ گیا
سالم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے تو ان کے پاس گناہ کبیرہ میں سب سے بڑے گناہ کا ذکر ہوا انھیں اس کا علم نہیں تھا انھوں نے اس بارے میں پوچھنے کے لیے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس مجھے بھیجا آپ نے فرمایا سب سے بڑا کبیرہ گناہ شراب نوشی ہے میں نے آکر ان حضرات کو بتایا تو لوگ ان کے گھر میں اس کو دریافت کرنے کے لئے کود پڑے آپ نے بتایا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کے بادشاہ میں سے ایک بادشاہ نے ایک شخص کو گرفتار کیا اور اس کو اختیار دیا کہ وہ چاہے تو شراب پئے یا کسی جان کو قتل کرے یا زنا کا مرتکب ہو یا خنزیر کھائے یا لوگ اسے قتل کریں تو اس نے شراب کو پسند کیا اور جب اس نے شراب پی لی تو یہ سارے کام اس نے انجام دئیے ،رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ارشاد فرمایا جو کوئی شراب پیتا ہے اس کی چالیس روز کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں اگر اس کے مثانہ میں شراب کا کوئی قطرہ جمع ہو اور اس کی موت واقع ہو جائے تو جنت اس شخص پر حرام ہےاور اگر چالیس روز کے اندر وہ مرجائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی ۔(رواه الطبراني بإسناد صحيح والحاكم وقال صحيح على شرط) کتنے نوجوان شراب پیتے ہیں ان کی جوانی نشہ بازی اور آوارہ گردی میں گزرتی ہے ان کے پاس بے پناہ ٹائلنٹس اور خوبیاں موجود ہوتی ہیں مگر نشہ ان کی صلاحیتوں کو گھن لگا دیتا ہے انھیں اپنے محلوں سے فٹ پاتھ پر لے کر آتا ہے جو سڑکوں پر گرتے ہیں نشہ کے عادی ہونے کی وجہ سے ایک زندہ لاش بن کر رہ جاتے ہیں ان کی بیوی دوسرے گھروں میں کام کاج کرکے اپنا گزارہ کرنے پر مجبور ہوتی ہے شرابی اپنی بیوی کی کمائی پر بھی ہاتھ صاف کرتا ہے اس کے منھ سے بدبو کے بھبھوکے پھوٹ پڑتے ہیں کوئی اگر ٹوپی سر پر پہن کر شراب پئے شراب حلال تو نہیں ہوسکتی تعجب ہوتا ہے جن کی مشکوک حالت میں موت ہوجاتی ہے ان پر تعزیتی پروگرام رکھے جاتے ہیں آخر اس کے ذریعہ قوم کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ۔ شراب مفاسد کی جڑ ہے اس کے عادی ہونے کے بعد اس سے باز رہنا جوئے شیر لانے کے مانند ہے عرب معاشرہ میں شراب گھٹی میں پڑی تھی مگر جب اس کی حرمت کا اعلان ہوا چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ: ” میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے گھر لوگوں کا ساقی بنا ہوا تھا اور ابوطلحہ، ابوعبیدہ، ابی بن کعب، ابو ایوب، ابودجانہ سہل بن بیضاءاور اپنے چچاؤں اور کئی دوسرے صحابہ کرام کو شراب پلا رہا تھا۔ اور میں ان میں سب سے چھوٹا تھا۔ اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعلان کرنے والے کو حکم دیا کہ وہ اعلان کر دے کہ شراب حرام ہو گئی ہے۔ ابوطلحہ نے مجھے کہا باہر جاؤ اور سنو کہ کیا اعلان ہو رہا ہے۔ میں باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک شخص اعلان کر رہا ہے، لوگو سن لو شراب حرام ہو گئی ہے۔ اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے پوچھا کیا تمہیں کوئی خبر پہنچی ہے وہ کہنے لگے کیسی خبر؟ اس نے کہا ” شراب حرام ہو گئی ہے “ ابو طلحہ نے مجھے کہا باہر جاؤ‘ مٹکا توڑ دو اور شراب بہا دو۔ میں باہر نکلا اور مٹکے کو توڑ دیا اور شراب بہہ گئی۔ اس دن مدینہ کے گلی کوچوں میں شراب بہہ رہی تھی۔ اس شخص سے یہ خبر سننے کے بعد لوگوں نے نہ اس کی تصدیق کی اور نہ ہی پھر کبھی شراب پی۔ “ ( صحیح مسلم، ص 162 ، جلد دوم کتاب الاشربہ ) دنیا میں آدمی جام و مینا میں مست رہتا ہے گھر سے بیگانہ تصورات کی دنیا میں گم سم رہتا ہے آخرت میں وہ جام کوثر سے محروم رہے گا اللہ کے رسول صلی اللہ نے ارشاد فرمایا جو شراب پیتا ہے روز قیامت وہ پیاسا رہے گا ۔(رواه أحمد بسند حسن عن قيس بن سعد)نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی کٹی ہے رات تو ہنگامہ گستری میں تری سحر قریب ہے، اللہ کا نام لے ساقی