وزیر اعظم ظالم ہیں یا مظلوم فیصلہ آپ کریں

Bhatkallys

Published in - Other

02:10PM Wed 1 Feb, 2017
از: حفیظ نعمانی اپنے ملک کے وزیر اعظم پر بے انتہاظلم ہوں اور اس کے بارے میں کچھ نہ لکھا جائے یہ اس سے بھی بڑا ظلم ہے۔ جالندھر کے ایک انتخابی جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے درد بھرے انداز میں کہا کہ تین مہینوں میں میرے اوپر کیا کیا ظلم ہوئے ہیں یہ میں ہی جانتا ہوں لیکن میں ظلم کے سامنے جھکتا نہیں ہوں۔ یہ بات ہم نہیں کئی حضرات نے کہی ہے کہ مودی جی کو جھوٹ بولنا بہت پسند ہے۔ وہ یہاں بھی شاید اس لیے جھوٹ بول گئے کہ کوئی دوسرا یہ نہ کہہ دے کہ وزیر اعظم گزشتہ تین مہینوں میں ۱۲۵ کروڑ عوام پر جیسے ظلم کیے ہیں ان کو برداشت نہ کرتے ہوئے ۱۲۵ نے تو جان دے دی اور باقی سخت جان تھے جو زندہ تو ہیں مگر مسکرانا اور خوش ہونا بھول گئے۔ مودی جی نے اس سے بھی بڑا جھوٹ بولا کہ میں ایمانداری اور غریبوں کے حق کی لڑائی لڑتا رہا ہوں۔ جب کہ ہوا یہ ہے کہ انھوں نے غریبوں کے حق کی لڑائی نہیں لڑی بلکہ غریبوں سے ان کے منہ کا نوالا چھیننے کی لڑائی لڑی اور اس مہنگائی کے زمانہ میں لاکھوں غریب مزدوروں کو بے کار کرکے واپس گاؤں بھیج دیا۔ جس پنجاب میں وہ یہ سب باتیں کہہ رہے تھے وہاں جتنے کارخانہ ہیں اتنے تو اترپردیش میں بھی نہیں ہیں اور ان کارخانوں میں پوری اترپردیش، بہار اور اڑیسہ کے غریب مزدور کام کرتے ہیں جو ۸؍ نومبر کے بعد تمام کارخانے بند ہونے کی وجہ سے ٹرینوں میں بھر بھر کر آئے اور ان میں سے ۸۰ فیصدی ابھی اس کا انتظار کررہے ہیں کہ سردار جی کب بلائیں اور ہم کب جائیں؟ وزیر اعظم نے جو ظلم کیے ہیں وہ ہندوستان کی تاریخ میں جو سیاہ باب لکھے جائیں گے ان میں ایک اہم باب یہ ہوگا کہ جمہوری حکومت میں اس سے زیادہ آمرانہ کوئی فیصلہ اگر تھا تو وہ ایمرجنسی تھا لیکن اس میں بھی یہ نہیں تھا کہ ملک کی پوری آبادی چیخ پڑی ہو بلکہ چند مخصوص پارٹیاں اور افراد تھے جو بند کردئے گئے۔ لیکن مودی کے ظلم نے تو ماں کی چھاتی کا دودھ بھی خشک کردیا اور دودھ پیتا بچہ بھی اپنا پیٹ نہ بھر سکا۔ وزیر اعظم پر اگر ظلم ہوئے تو صرف یہ کہ وہ اس کے عادی ہیں کہ وہ جو چاہیں کریں اور ان کا نام نہ ہو۔ لیکن نوٹ بندی میں انھوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا اور حکومت کا شوق پورا کرنے کے لیے ۱۰۰۰ اور ۵۰۰ کے نوٹ بند کرنے کا اعلان خود کیا تاکہ لوگ انہیں ملک کا بادشاہ سمجھیں اور اگر فریاد کریں تو صرف ان سے ۔ اسے اور یقینی بنانے کے لیے یہ کہانی گڑھی کہ یہ فیصلہ میرے مکان کے دو کمروں میں کیا گیا اور میں نے راز داری کے خیال سے یہ پابندی لگادی کہ سب لوگ صرف گجراتی میں بات کریں گے تاکہ کسی اور کے کان میں کچھ پڑے تو وہ سمجھ نہ سکے۔ لیکن نوٹ بندی کے نتیجہ میں خودکشی کرنے اور لوگوں کے فاقوں سے مرنے کی خبریں آنا شروع ہوئیں تو ساری بادشاہت نکل گئی اور کہہ دیا کہ ریزروبینگ آف انڈیا کے مشیروں نے یہ فیصلہ کیا تھا میں نے صرف اعلان کیا تھا۔ اتنی بات سچ ہوسکتی ہے کہ وہ اناڑی ہونے کی وجہ سے ایک اعلان کرتے تھے اور جب RBIکی طرف سے کہا جاتا تھا کہ یہ غلط ہے تو عوام کی نظر میں ان کی اہمیت کم سے کم ہوتی جاتی تھی۔ اس طرح کے کم از کم ۲۰ فیصلے ہیں جو وزیر اعظم نے کیے اور ریزروبینک نے اسے الٹ دیا۔ انتہا یہ ہے کہ وہ آخری فیصلہ جسے اب تک برابر سنوایا جاتارہا کہ پرانے نوٹ بدلنے کی آخری تاریخ ۳۰ دسمبر ہے۔ اس کے بعد ہر بینک میں نہیں ریزرو بینک کی برانچوں میں ۳۱؍ مارچ تک نوٹ بدلے جائیں گے۔ ریزروبینک نے ۳۰ دسمبر کے بعد صاف انکار کردیا ۔ ہوسکتا ہے کہ مودی اسے ظلم سمجھ رہے ہو ں یا ان کے نزدیک یہ ظلم ہو کہ جس کانگریس سے بھارت کو ۲۰۱۴ء میں ان کی آواز میں آواز ملا کر نجات دلادی تھی اس کانگریس کے کالے بالوں والے لڑکے نے ان پر سہارا سے چالیس کروڑ روپے کی رشوت لینے کا الزام ہی نہیں لگایا بلکہ سب کو سنایا کہ کس کس تاریخ کو ڈھائی کروڑ اور کس کس تاریخ کو ۵ کروڑ لیے ہیں۔ ا ور وہ انکار نہ کرسکے اور جب پرشانت بھوشن ایڈوکیٹ سپریم کورٹ میں فریاد کی تو انھوں نے یہ کہہ کر سزا دینے سے انکار کردیا کہ ایک ڈائری کے اندراجات ثبوت کے لیے ناکافی ہیں۔اس کے بعد مودی کی عزت جاتے جاتے رہ گئی لیکن داغ لگ گیا۔ اور ہوسکتا ہے وہ اسے بھی ظلم سمجھ رہے ہوں کہ بینکوں کی لائن لگ کر اور اپنے ہی روپے نکالنے میں ناکام رہ کر موت کی نیند سوجانے والے جتنے اترپردیش کے لوگ تھے ان سب کو اکھلیش یادو نے دو دو لاکھ روپے دئے۔ ہوسکتا ہے مودی جی اسے بھی ظلم سمجھ رہے ہوں کہ میں نے کسی کو کچھ نہیں دیا بلکہ بینکوں کی لائنوں کو میں نے آندولن کہا اور کالے بال والے ایک لڑکے نے دو دو لاکھ کے در مجھے ذلیل کردیا۔ بہرحال جو بھی ہوا ان کے اوپر کوئی ظلم کیا کرے گا۔ جن کی پہچان ہی ظلم کرنے والوں کے ہاتھ نہ روکنے کا حکم دینا ہے اور یہ بات 15برس پرانی ہونے کے باوجود ابھی اتنی ہی نئی ہے جتنی ۲۰۰۲ء میں تھی اور کہنے والے کہہ بھی رہے ہیں اور لکھنے والے لکھ بھی رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے ا علان کیا کہ جس کے گھر شادی ہے وہ شادی کارڈ لے کر بینک جائے اور اپنے ڈھائی لاکھ روپے نکال لائے۔ ملک میں لاکھوں شادیاں ہونے والی تھیں۔ یہ اعلان سن کر لوگ کارڈ لے کر دوڑ پڑے۔ وہاں کہا گیا کہ میرج ہال کا بل لائیے، کھانے والے کابل لائیے اور ہر خرچ والوں سے لکھواکر لائے کہ ان کا اکاؤنٹ نہیں ہے۔ یہ ایسی ہی شرطیں تھیں جیسے ایک گرام چیل کا موت لائے ایک ماشہ بلبل کے آنسو لائے اور ۱۰ گرام نرگس کے پھول لائے۔ اب شادی والوں سے معلوم کیا جائے کہ کیا کسی کو ڈھائی لاکھ روپے ملے؟ یہ مودی نے ظلم کیا یا مودی پر ظلم ہوا؟ حیرت ہے کہ جالندھر والوں نے سنا اور چپ رہے۔ انھیں تو وہیں ان سے حساب کتاب کرلینا چاہیے تھا۔ بھارت کا باسی وزیر اعظم پر کیا ظلم کرپائے گا ان پر تو صرف اوپر والا کرے گا جس نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے ا ور جو ۱۱؍ مارچ کو سنایا جائے گا۔