سچی باتیں۔۔۔ اتحاد واتفاق کا عملی نمونہ۔۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

07:58PM Mon 2 Jan, 2023

1931-06-12

 (مولانا دریابادی کی ادارت میں سنہ ۱۹۲۵ء تا ۱۹۷۷ئ جاری سچ، صدق، صدق جدید  لکھنؤ کے ادارتی کالم سچی باتیں سے انتخاب )

حج کے موقع پر مِنیٰ میں رسول اللہ ﷺ کا طریقہ یہ تھا، کہ نماز بجائے پوری پڑھنے کے، قصر سے ادا فرمایاکرتے تھے۔ حضرت صدیقؓ اور حضرت فاروقؓ کا بھی اپنے اپنے عہد خلافت میں یہی طریقہ رہا۔ جب حضرت عثمان غنیؓ کی نوبت آئی، تو ابتداء میں آپ کا بھی اسی پر عمل رہا۔ بعد کو کسی مصلحت یا ضرورت سے آپ نے پوری نماز پڑھنی شروع کردی۔ اس وقت جو صحابہ مِنیٰ میں موجود تھے ، اُن میں ایک حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بھی تھے ۔ ان کا زہدو ورع عالم آشکارتھا۔ اتباعِ سنت کا ذوق اس درجہ بڑھاہواتھا ، کہ لوگوں کی نظر میں والہانہ جنون کی حد تک پہونچ گیاتھا۔ صرف عبادات ومجاہدات میں نہیں ، رسولِ کریمؐ کی اتفاقی اور بشری عادات تک کی پیروی میں انہماک تھا۔ حج کے لئے نکلتے، تو جن جن راستوں سے حضور انورؐ گزرتے تھے ، خود بھی گزرتے، جہاں جہاں حضورؐ نے منزلیں کی تھیں، خود بھی منزل کرتے، اور انتہا یہ ہے ، کہ جس جس مقام پر حضورؐ نے طہارت فرمائی تھی، وہیں خود بھی طہارت کے لئے بیٹھ جاتے۔

ایسے عاشق صادق، ایسے پیروِ کامل کے دل پر نماز جیسی اہم ترین عبادت کے معاملہ میں سنتِ رسولؐ سے علٰیحدگی (خواہ وہ کیسی ہی مصلحت پر مبنی ہو) دیکھ کر کیا کچھ نہ گزر گئی ہوگی؟ لیکن اہل سیر متفق ہوکر یہ روایت لکھتے ہیں، کہ یہی ابن عمرؓ مِنیٰ میں جب تنہا نما ز پڑھتے، تو حسب معمول وحسب سنتِ رسولؐ قصر ہی کرتے، لیکن جب امامِ وقت، خلیفۂ رسول کی اقتداء میں شریک جماعت ہوتے ہیں، تو خود بھی سب کے ساتھ چار ہی رکعتیں پڑھتے ہیں، اور جب اس پر لوگ حیرت سے سوال کرتے ہیں، تو جواب میں فرماتے ہیں، الخِلَافؑ مُنکَر۔ اختلاف وتفریق پیداکرنا بڑی بُری بات ہے! اللہ اکبر! امت میں تفریق ، اور جماعت میں انتشار پیدا کرنے سے کتنی نفرت اور اس کی کیسی اہمیت دل میں جاگزیں تھی!

اس مقدس وبرگزیدہ صحابی نے اتفاق واتحاد کے فوائد پر کوئی طویل لکچر نہیں دیا، نااتفاقی کے نقصانات پر کوئی’’مقالۂ افتتاحیہ‘‘ تحریر نہیں فرمایا، محض اپنے عمل سے، اپنے کردارسے، اپنے آپ کو دوسرے کے تابع کرکے، دکھادیا، کہ امت کو تفریق واختلاف سے بچانا ، کس قدر ضروری، اور اس غرض کے لئے ہر ایثار کس قدر پسندیدہ ہے……آج زبانوں پر سب کے اتحاد، اتحاد، اتفاق ، اتفاق ، کی پکار ہے، لیکن کوئی صاحب بھی دوسرے کے آگے جھُکنے ، دوسرے کی بات کے سامنے اپنی بات کے دبادینے،دوسروں کی رائے کے مقابلہ میں اپنی رائے کے مغلوب کرلینے پر آمادہ ہیں؟ افسر سب بننا چاہتے ہیں، کسی کو محض سپاہی بن کر رہنا گوارا ہے؟

 http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/