دہلی اور اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔ ۰۶۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys

Published in - Other

06:46PM Sun 12 Jan, 2020

  صبح دس بجے شاہ منزل میں مولانا نسیم اختر شاہ کے یہاں حاضری ہوئی، آپ مولانا ازہر شاہ قیصرمرحوم سابق مدیر مجلہ دارالعلوم کے خلف الرشید ہیں ، اور اپنے والد کے نقش قدم پر قلم کو سنبھالے ہوئے ہیں، کئی ایک کتابوں کے مصنف ہیں، جنہیں علمی اور ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل ہے، بڑی اپنائیت اور محبت سے ملے۔ یہاں سے ہمیں وقف دارالعلوم جانا تھا۔ یہاں مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب مہتمم وقف اور مولانا محمد اسلام قاسمی صاحب وغیرہ احباب نے پرتپاک خیر مقدم کیا ، دارالعلوم کی عمارتوں اور حضرت حکیم الاسلام محمد طیب رحمۃ اللہ کے نام سے منسوب زیر تعمیر عالیشان مسجد کو دیکھ کر جی بہت خوش ہوا، آج سے ربع صدی پیشتر دارالعلوم کا یہ علاقہ ایک ویرانہ تھا، اس سے متصل ایک مذبح خانہ تھا، جس کی بدبو سے دماغ پھٹا جاتا تھا اور یہاں ٹہرنا مشکل ہوجاتا تھا، لیکن حضرت مولانا محمد انظر شاہ کشمیری رحمۃ اللہ اور حضرت مولانا محمد سالم قاسمی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے رفقاء اور محبین کی کوششوں اور توجہات سے یہاں جنگل میں منگل ہوگیاہے، یہ ان حضرات کے اخلاص ہی کا نتیجہ تھا۔ اب یہ ادارہ بھی علم دین کا عظیم قلعہ اور مینارہ نور بن گیا ہے۔ مولانا سفیان صاحب سے تو پرانی شناسائی تھی، لیکن مولانامحمد اسلام قاسمی صاحب سے کوئی دو سال قبل سرسری ملاقات ہوئی تھی بغیر کسی قابل ذکر تعارف کے، لیکن اب کی بار ملاقات کا رنگ ہیچوکھا تھا، ایک دوسرے سے گہری واقفیت اور سوچ میں یکسانیت کی چاشنی نے مٹھاس بڑھادی تھی، جس وارفتگی اور اپنائیت سے مولانا نے معانقہ کیا ،حقیقت تو یہ ہے اس نے دل پر ایک رقت کی سی کیفیت پیدا کردی ، مولانا علم اور مرتبہ میں بہت بلند مقام رکھتے ہیں، گزشتہ دنوں لقوہ کے حملے اور آنکھوں کی بڑھتی تکلیف کے باوجود جس انداز سے آپ نے اس حقیر کی ایک ایک تحریر کو پڑھا ہے، اور سوشل میڈیا پر ان کی پسندیدگی کے اظہار کا اہتمام کیا ہے، اس کا تو یہ حقیر مستحق نہیں تھا۔ اس پر مستزاد یہ جان کر حیرت بڑھ گئی گزشتہ پچیس سال سے میرا فون نمبر آپ کی ڈائری میں محفوظ ہے، جس پر بات کرنے کا کبھی موقعہ نہیں ملا۔ ایک دوسرے کی لاعلمی کے باوجود یہ تعلق یک طرفہ بھی نہیں ہے، غیر شعوری طور یہ احقر بھی مولانا سے آپ کے دور طالب علمی سے واقف چلا آرہاہے۔ اس وقت کے مولوی بدر الحسن دربھنگوی، ندیم الواجدی ، عتیق بستوی وغیرہ ہم اور آج کے مشاہیر کی ایک ٹیم تھی جو دارالعلوم دیوبندسے فارغ ہورہی تھی یا آخری درجات میں زیر تعلیم تھی، اس زمانے میں اس وقت کے ان نوجوانوں کی ہونہاری کے بڑے چرچے سننے میں آتے تھے، اور ان کے مضامین پر تسلسل کے ساتھ مجلہ دارالعلوم میں نظر پڑتی تھی، پھر جمعیۃ علماء ہند کا پندرہ روزہ عربی ترجمان الکفاح دیوبند جاری ہوا، یہ استاد الجیل مولانا وحید الزمان کیرانوی کی ادارت میں تھا، اس پرچے میں ہمیں خاص طور پر ڈاکٹر عبد الرحمن رافت پاشا کی صور من حیاۃ الصحابہ کی قسطوں کا انتظار رہتا تھا، جو ابھی کتابی شکل میں شائع نہیں ہوئی تھی، اب تو کمپوٹر کی کتابت نے بڑی سہولتیں پیدا کردی ہے، اس زمانے میں عربی ٹائپ پریس بھی ہندوستان میں دو ہی چار ہی تھے، چنئی کا مطبعہ عامرہ اور ممبئی کا المطبعۃ القیمۃ وغیرہ ، دہلی میں بھی کوئی عربی ٹائپ پریس ابھی نہیں آیا تھا، یہاں کا سرکاری عربی رسالۃ ثقافۃ الہند چنئی کے عامرہ میں چھپتا تھا، ثقافۃ الہند کے مدیر مولانا عامرانصاری صاحب اس سلسلے میں چنئی آتے تو کبھی کبھار علیک سلیک ہوجایا کرتی تھی، الکفاح مکمل ہاتھ سے لکھی کتابت پر پرنٹ ہوتا تھا، اس کا خط آج کی کمپوٹر کتابت کی طرح بڑا ہی خوبصورت ہوا کرتا تھا، یہ مولانا محمد اسلام صاحب کے خوش خط اور محنت کی برکت تھی، پھر مولانا بدر الحسن کی ادارت میں الداعی شروع ہوا، اسے بھی مولانا اسلام صاحب کا خوش خط نصیب ہوا، مولانا وقف دارالعلوم میں استاد حدیث ہیں، لیکن ہرفن مولا ہیں،ادب ولسانیات کا اعلی ذوق رکھتے ہیں، اللہ انہیں صحت و امان میں رکھے، اور تادیر آپ کی صلاحیتوں سے قوم کو مستفید ہونے کا موقعہ دے۔ ملاقات کے ان لمحات کو مولانا محمد اسلام صاحب کی دو نئی کتابوں درخشاں ستارے اور دارالعلوم دیوبند اور حکیم الاسلام قاری محمد صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے رسم اجراء نے یاد گار بنادیا ، پہلی کتاب میں مولانا نے آپ کی جھارکنڈ اور دیوبند ابتدا سے آخر تک کے تعلیمی پڑائو میں گزرنے والے اساتذہ کی زندگیوں پر روشنی ڈال کر انہیں زندہ جاوید بنادیا ہے، اور آخر الذکر کے نا م ہی سے ظاہر ہے۔ یہ حضرت حکیم الاسلام پر متفرق اوقات میں لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے۔ مولانا محمد سفیان صاحب تہذیب وشرافت کی علامت ہیں، بڑے باپ کے بڑے بیٹے، امت اسلامیہ ہندیہ آپ کے خانوادے کے احسانات تلے دبی ہوئی ہے، آپ نے وقف دارالعلوم کے ابتدائی ایام میں اس ناچیز کے تعلقات و روابط کا کچھ ایسے انداز سے تذکرہ کیا کہ میں پانی پانی ہوگیا، انسان کو کبھی اس کی حیثیت سے زیادہ تعریف بھی شرمندہ کردیتی ہے،ان کی محبت کایہ انداز انکے اخلاق کی بلندی کا غماز ہے، ہم تو صرف دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالی ان کی خوش گمانیوں کے مطابق ہمیں بنائے۔ ویسے آپ کے جد امجد حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے خانوادے اور دیوبند سے بھٹکل اور خصوصا میرے تایا الحاج محی الدین منیری مرحوم کا عقیدت مندانہ تعلق کافی پرانا ہے۔ ان تعلقات کو مضبوط کرنے میں شہر ممبئی نے حلقہ وصل کا کام انجام دیا ہے۔منیری صاحب کے تقسیم ہند سے قبل حضرت حکیم الاسلام علیہ الرحمۃ کے بھائی مولانا قاری محمد طاہر قاسمی، مولانا مفتی محمد شفیع، شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ سے روابط رہے ہیں، یہ حضرات چکلہ اسٹریٹ میں ایک بھٹکلی تاجر حسین سائب صدیقی کے فلیٹ پر ٹہرا کرتے تھے۔ ء  ۱۹۴۸سے انجمن خدام النبی ممبئی کی ملازمت سے منسلک ہونے کے بعد کے زمانے میں جب کہ صابو صدیق مسافر خانے میں جہاز راں کمپنی مغل لائن کا آفس تھا، اور سفرحج جانا صرف قرعہ اندازی میں نام آنے پر ممکن ہوتا تھا، یہ تڑپتے دلوں کی دعائیں لینے کا بڑا ذریعہ تھا، اس سے اکابروبزرگان سے ربط وتعلق مضبوط کرنے کی راہیں کھلیں،چونکہ یہاں کسی کے کام آنے کے مواقع تھے، لہذا روابط میں صرف نیاز مندی کا پہلو نہیںرہا، بلکہ ان میں کبھی برادرانہ اور بے تکلفانہ تعلقات کا پہلو غالب آجاتا تھا، بزرگوں سے تعلقات کا یہ پہلو منیری صاحب کوآپ کے دوسرے کئی ایک معاصرین سے ممتاز کرتا ہے۔ ء  ۱۹۸۰کی دہائی سے قبل شہر ممبئی میں اہل بھٹکل کی بڑی تعداد آباد تھی، ان میں تاجر بھی تھے، ملازمت پیشہ بھی، بھنڈی بازار میں واقع مسجد اسٹریٹ میں ان کی زیادہ تر رہائش گاہیں تھیں۔ اب مسجد اسٹریٹ کا نام بدل کر عبد القادر حافظکا اسٹریٹ رکھا گیا ہے ۔اس کے نکڑ پر ریاست جنجیرہ کے نواب ایاز کی تعمیر کردہ نواب مسجد ایک بڑی آباد مسجد ہے، یہاں پر پچاس کی دہائی سے کوئی تین عشرے تک بھٹکل کے عبد الرزاق خجندی مرحوم امامت کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ یہاں عرصہ تک ماہ رمضان المبارک میں تراویح کے بعد حضرت حکیم الاسلام علیہ الرحمۃ نے درس قرآن کریم سے ماہ مبارک کی راتوں کو زندہ رکھا ہے۔ منیری صاحب کی کتابوں کی دکان ایجنسی تاج کمپنی مسجد کی گیٹ کے سامنے مسجد کی عمارت میں واقع تھی، اور علماء واہل علم کا مرکز۔ بھٹکل کے عبد القادر حافظکا مرحوم جن کےنام پراس اسٹریٹ کا نام رکھا گیا ہے، منیری صاحب کے آئیڈیل تھے، ۱۹۷۲ء کا ممبئی کا وہ مشہور اجلاس جس کے بطن سے آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کی تشکیل ہوئی تھی اور حضرت حکیم الاسلام علیہ الرحمۃ اس کے اولین صدر منتخب ہوئےتھے، حافظکا صاحب اس اجلاس کے کنوینر تھے۔ بھٹکل کی شخصیات میں حضرت حکیم الاسلام علیہ الرحمۃ سے والہانہ تعلق میں جناب محمد اسماعیل کوبٹے مرحوم کو یک گونہ سبقت حاصل رہی ہے۔ کرناٹک کے شہر ہبلی میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے، یہاں پر دینی تعلیم و تربیت کے نظام کی غرض سے آپ نے ۱۹۵۳ء میں انجمن درس قرآن کے نام سے ایک دینی تعلیمی ادارہ قائم کیا ، اور حضر ت حکیم الاسلام علیہ الرحمۃ سے گذارش کی کہ اس کے لئے دارالعلوم سے ایک عالم دین کو بھیجیں جو یہاں کی دینی ضروریات پوری کرسکے، اور تعلیمی و تبلیغی کاموں کو سنبھال سکے، آپ نے ۱۹۵۴ء میں آپ کو ہبلی اور بھٹکل آنے کی دعوت دی، اس سفر میں حضرت حکیم الاسلام اپنے ساتھ مولانا ریاض احمد فیض آبادی کو بھی لائے، جو کہ مبلغ دارالعلوم مولانا ارشاد احمد علیہ الرحمۃ کے چھوٹے بھائی تھے، اس زمانے میں ہبلی کے مسلم قبرستان میں قادیانیوں کی تدفین کا قضیہ رونما ہوا، جس نے مولانا ریاض احمد کو یہاں پر ابھر نے کا موقعہ دیا، بات کورٹ تک پہنچی، اور فیصلہ قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے پر منتج ہوا، کچھ عرصہ بعد انجمن درس قرآن کا نام تبدیل کرکے اسے جامعہ ریاض العلوم سے موسوم کیا گیا۔ بھٹکل کے اس سفر میں مولانا محمد سالم قاسمی بھی رفیق سفر تھے، سلطان محلہ میں واقع فرحت منزل میں معزز مہمانوں کا قیام ہوا ۔ جب ریاض صاحب کا تذکرہ چل نکلا ہے تو مجاہد ملت مولانا حفط الرحمن سیوہاروی رحمۃ اللہ علیہ کے روابط بھی یاد آتے ہیں ، مجاہد ملت نے ۱۹۵۴ء میں دہلی اور ممبئی میں دو عظیم دینی تعلیمی کانفرنسیں منعقد کی تھیں، ممبئی کانفرنس کے کنوینر احمد غریب سیٹھ مرحوم تھے، منیری صاحب ان کے دست راست تھے، لہذا منیری صاحب سے مجاہد ملت کے تعلقات و روابط بہت مستحکم ہوئے، اس محبت و تعلق میں مجاہد ملت نے منیری صاحب کو سانپ کے کانٹے کے روحانی علاج کی اجازت دی تھی،وہ اس طرح کہ کسی دور گائوں یا دیہات سے کوئی اپنے عزیز کو سانپ کانٹنے کی خبر لے کر منیری صاحب کے پاس آتاتو منیری صاحب پانی کے گلاس پر عمل کر کے پھونک مارتے، اور خبر لانے والے کو پلاتے، اور میلوں دور سانپ کا ڈسا ہوا قدرت خداوندی سے اچھا ہوجاتا، ایک دوسرا عمل بھی تھا جس میں خبر لانے والے کو کچھ پڑھ کر چانٹا مارتے تو مریض ٹھیک ہوجاتا، آخر الذکر عمل کو کرتے ہوئے تو ہم نے نہیں دیکھا، البتہ منیری صاحب نے اس کے بارے میں بتایا تھا، مجاہد ملت کے قلم سے آپ کی ڈائری میں ان عملیات کی اجازت عرصہ تک محفوظ تھی، جو باتیں دیکھیں ہم نے بیان کردیں۔ ہماری حیثیت اس میں صرف ایک ڈاکیہ کی ہے۔ ۱۹۵۹ ء میں مولانا حفظ الرحمن بھٹکل تشریف لائے تھے، یہاں کے سماجی ادارہ مجلس اصلاح وتنظیم کے تحت آپ کے پروگرام منعقد ہوئے تھے، اس مرتبہ مولانا ریاض احمد ہبلی سے شریک سفر ہوئے تھے، اور اپنے ساتھ جمعیۃ علمائے ہند کی رکنیت سازی کے لئے رسید بک لائے تھے، منیری صاحب نے مجاہد ملت کو بھٹکل میں ۱۹۱۰ء سے قائم مجلس اصلاح و تنظیم کا تعارف کیا، اور بتایا کہ اس ادارے کی رہنمائی میں قومی اور جماعتی اور گروہی عصبیتوں سے بلند ہوکر یہاں پر سیاسی ، سماجی اور معاشرتی اصلاحی فیصلے ہوتے آرہے ہیں ، اس وقت مجاہد ملت نے مولانا ریاض صاحب سے مخاطب ہوکر کہا کہ تنظیم ہی یہاں کی جمعیت ہے، یہاں پر مزید جمعیت کی ممبر سازی کی ضرورت نہیں ہے۔ انجمن خدام النبی کے دنوں میں مغل لائن کے پانی جہاز جب عازمین حج کو جدہ لے جاتے تو منیری صاحب کو امیر الحجاج بننے کا شرف حاصل ہوتا، حالانکہ اس وقت بڑے بڑے اکابر ان پر سوار عازم حج ہوتے تھے، ایسے ہی ایک سفر میں جب کہ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت حکیم الاسلام علیہ الرحمۃ عازم سفر تھے، اپنے حوالی موالی کے ساتھ مفتی حشمت علی پیلی بھیتی بھی سوار تھے۔آج کی نسل کو شاید مفتی حشمت علی کے تعارف کی ضرورت پڑے۔ لیکن کوئی ساٹھ سال قبل ان کا شمار بریلوی مکتب فکرکے سب سے زیادہ زبان دراز شخصیات میں ہوتا تھا، اورشاید علمائے حق کے خلاف نت نئی گالیاں ایجاد کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہ بن سکا، اپنے مکتب فکر کے لوگوں میں انہیں شیر بیشہ اہل سنت کا لقب دیا گیا تھا، ان کے بھائی مفتی محبوب علی ممبئی کی بائکلہ مسجد میں امام و خطیب تھے، اور مفتی حشمت علی کا یہاں بہت آنا جانا رہتا تھا ، آپ کی کتاب الصوارم الھندیۃ ایک زمانے میں کافی معروف تھی۔مناظر علماء کی شہرت عموما ان کی زندگی تک محدود رہتی ہے، مناظروں کو جتانے والے نکات چونکہ حیطہ تحریر میں لانے کا اہتمام نہیں ہوتا، لہذا جلدسینوں سے مٹ ہوجاتے ہیں، کبھی مناظرین کا نام یاد رہ بھی جاتاہے، لیکن ان کے برجستہ جملے اور نکات قومی حافظے سے محو ہوجاتے ہیں، یہی دیکھئے آج کی نسل کے کتنے لوگ مولانا ارشاد احمد مبلغ دیوبند اور ان کے کارناموں کو جانتے ہیں، مولانا نور محمد ٹانڈوی مظاہری مرحوم بھی کتنے لوگوں کے حافظے میں محفوظ ہیں۔ حالانکہ آخر الذکر کی مفتی حشمت علی کے رد میں لکھی ایک کتاب تکفیری افسانے بڑی دلچسپ کتاب تھی،اس میں مفتی حشمت کے فتووں کو خود ان پر بڑی چابکدستی سے منطبق کیا گیا تھا۔ مفتی حشمت کو جب حضرت شیخ الاسلام اور حضرت حکیم الاسلام علیہ الرحمۃ کی جہاز میں ہم سفر ہونے کی اطلاع ملی تو ان کا پارہ چڑھ گیا، ان بزرگان دین کو ایسی گالیاں بکنے شروع کردیں کہ لوگوں کے کان پک گئے۔ آخر کب تک معتقدین برداشت کرتے، چند ہٹے کٹے نیاز مندوں نے مفتی حشمت علی کو ایک لکڑی کے تختے سے باندھ دیا، اور اسے رسی لگا کر سمندرکے کھاری پانی میں ایک ڈبکی دینےہی والےتھے کہ منیری صاحب پہنچ گئے، اور لوگوں کو سمجھا بجھا کراس مصیبت سے ان کی جان چھڑائی، لیکنایسے لوگ احسان ماننے والے کہاں ہوتے ہیں؟، سنا ہے کہ ممبئی واپس آکر مفتی صاحب نے منیری صاحب کو بھی خوب گالیاں دیں۔ حضرت حکیم الاسلام علیہ الرحمۃ کی ۱۹۷۶ میں ایمرجنسی کے دور میں بھٹکل آمد ہوئی تھی، چند روز خوب رفاقت رہی، بھٹکل والوں نے خوب فیض اٹھایا، اس زمانے میں ناچیز جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں تدریس سے وابستہ تھا، حضرت نے جاتے جاتے ہم لوگوں کو جملہ کتب حدیث ، ضیافہ، مصافحہ وغیرہ کی اجازت سے نوازا۔ حضرت مولانا محمد سالم قاسمی علیہ الرحمۃ سے وقتا فوقتا شفقتیں ملتی رہیں، اللہ ان سب کے درجات کو بلند کرے۔ اور تا قیامت ان کے فیض کو جاری وساری رکھے، اس سفر میں ڈاکٹر شکیب قاسمی صاحب کی ملاقات نہ ہوسکی، عین وقت پر ان کا سفر ہوگیا، ورنہ کئی روز قبل رابطہ کرکے اہتمام سے اپنے یہاں ٹہرنے پر اصرار کیا تھا، ہم تو ٹہرے اڑتے پنچھی ، لیکن ان کا سفر زیادہ اہم تھا، ۱۹۸۰ کی دہائی میں جو حالات اس خانوادے پر گذرے، اس پر ایک انجانا سا خوف سا لگا رہتا تھا کہ کہیں اس مبارک خانوادے کی علمی روایت کا سلسلہ ٹوٹ نہ جائے، لیکن مولانا سفیان صاحب کا جس طرح انتظام کے ساتھ فکری اور علمی پہلو نمایاں ہورہاہے، اور جس طرح کم عمری میں ڈاکٹر شکیب صاحب کی صلاحیتیں اجاگر ہوئی ہیں، اور ان کا علمی وتحقیقی تشخص ابھرا ہے، ایسا لگتاہے کہ اس خانوادے کی قربانیاں رنگ لا رہی ہیں۔ اللہ کی توفیق شامل حال رہی تو انشاء اللہ چراغ سے چرغ جلنے کی یہ روایت تا قیامت باقی ساری رہے گی۔ جاری۔