حاجی جمال محمد(۲)...ڈاکٹر عبد الحق کرنول

Bhatkallys

Published in - Other

04:18PM Sun 4 Jul, 2021

حاجی جمال محمد(۲)

جنوبی ہند کے عظیم سپوت اور معمار قوم ، جنہوں نے علامہ سید سلیمان ندویؒ، علامہ پکتھال، اور علامہ اقبال کے خطبات دنیا کو عطا کئے

 ڈاکٹر عبد الحق کرنولی، افضل العلماء ، یم اے ، ڈی فل (آکسفورڈ) کی یاد گار تحریر۔

 مایہ ناز ادیب مختار مسعود کی آخری کتاب حرف شوق آئی تو  اس میں مدراس کے حاجی جمال محمد مرحوم کے بارے میں اس عبارت نے دل میں ہل چل سی پیدا کردی، اور آپ کے حالات زندگی کے تلاش میں  دل میں بجھی ہوئی چنگاری دوبارہ بھڑک اٹھی، مختار مسعود نے لکھتے ہیں″علامہ اقبال سیٹھ جمال محمد کی ذات سے بہت متاثر ہوئے، کیا خوب شخص تھا، ایک کروڑ روپے سالانہ کی تجارت ، عالی شان گھر، روح اور مادہ کےمسائل پر اردو اور انگریزی میں بحث کرنے کی اہلیت، تہمد اور کرتا زیب تن، سرپر پگڑی دل میں اسلام کا درد( حرف شوق۔ ۳۲۳)″

یہی باتیں پھر جسٹس جاوید اقبال مرحوم کی  لکھی علامہ اقبال کی سوانح عمری" زندہ رود ″ میں زیادہ تفصیل سے  نظر آئیں، مزید تلاش پر مدراس کے سفر میں علامہ کے ہمسفر اور آپکے  روزنامچہ نویس ڈاکٹر محمد عبد اللہ چغتائی کی کتاب  ″اقبال کی صحبت میں″ تو سفر کی پوری روداد نظر آئی۔

جستجو پھر بڑھی تو  معارف اعظم گڑھ کے دو شماروں اکتوبر ، نومبر ۱۹۲۵ء میں بھی خطبات مدراس  پیش کرنے کے لئے ہوئے  علامہ سید سلیمان ندوی ؒ کے سفر کی روداد ملی، ا س روداد  کا ذکر آئندہ کبھی، اب صرف علامہ کی زبانی اتنا تبصرہ دیکھ لیں کہ ″ ایم جمال محمد صاحب جو ان خطبات کے اصلی محرک تھے، وہ مدراس کے ایک روشن خیال ، شریف اخلاق، فیاض اور حد درجہ متواضع تاجر ہیں ،دیگر متفرق عطیوں کے 17 سو ماہوار وہ صرف تعلیمی درسگاہوں پر اپنے پاس سے صرف کرتے ہیں، مجھے خوشی ہے کہ میری تحریک پر انہوں نے پچاس روپیہ ماہور بمد وظائف دارالعلوم ندوۃ العلماء کے لئے بھی مقرر کردیا ہے، جزاء اللہ خیرا، ارکان ندوۃ العلماء دل سے انکے شکر گذار ہیں″۔( اس  مستقل تعاون کے علاوہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں جمالیہ ہال آپ کی یاد گار ہے۔ ع۔م۔م)

جب عطیات کا ذکر آئے تو احباب کے  ذہن میں یہ بات رہے  کہ آج سےچھینانوے (۹۶)  سال پرانے زمانے    ۱۹۲۵ء اور آس پاس کی بات ہورہی ہے، جب آٹھ گرام  سونے کی گنی تیرہ (۱۳) ہندوستانی روپئے میں آتی تھی، اس حساب سے ایک گرام سونے کی قیمت  اس وقت دیڑھ روپئے تھی ، اور آج  ایک گرام سونے کی قیمت  ہزارہا گنا بڑھ کر، ساڑھے چار ہزار روپئے(۴۵۰۰) کے قریب ہوگئی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اگر حاجی جمال محمد مرحوم کی جھولی میں صرف علامہ  سید سلیمان ندوی،علامہ محمد مارماڈیوک پکتھال، اور علامہ اقبال کے خطبات ہوتے تو یہی انہیں سربلند کرنے کے لئے کافی تھا،لیکن آپ  کے ماتھے پر قوم کی خدمت  اور  حاتم طائی کی سخاوت کے بہت سارے تمغے سجے ہوئے ہیں، لیکن اب  انہیں قوم کو فراموش کئے ہوئے زمانہ بیت گیا ہے، عرصہ سے آپ کے حالات کی جستجو تھی، اورواقعات کا سرا ہاتھ نہیں آرہا تھا، کہ  اتفاق سے   ۱۹۵۰ کی دہائی میں مدراس(چنئی) سے جاری ادبی رسالہ ((سالنامہ فانوس خیال   ۔ جلد چہارم ۱۳۷۶ھ ؍ ۱۹۵۶ء))   کا ایک شمارہ دستیاب ہوگیا، جس میں ڈاکٹر عبد الحق کرنولی  کے حاجی جمال محمد مرحوم  پر  لکھے مضمون نکو نظروں نے اچک لیا، ڈاکٹر عبد الحق کو مولانا عبد الماجد دریابادی نے جنوب کا سرسید کہا ہے،اس کے بعد کس کی مجال کہ مولانا دریابادی ؒ کی گواہی پر حرف اٹھائے؟، جمال محمد جیسی شخصیات اس قابل ہیں کہ ان پر تحقیقی کام ہو، یونیورسٹیاں ان پر ڈاکٹریٹ کے مقالات تیار کروائیں، اس مضمون کو پڑھنے کے بعد شاید آپ کی بھی یہ رائے ہوکہ کم از کم جامعہ ملیہ اسلامیہ پر ایسے کسی  علمی وتحقیقی کام کروانے کا قرض ابھی باقی ہے،   ڈاکٹر عبد الحق  مرحوم کا  یہ مضمون یوں تو مختصر ہے،  لیکن  اس کی حیثیت عینی گواہ کی ہونے  کی وجہ سے اس کی تاریخی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے، اور یہ اہمیت کیوں نہ بڑھے جب کہ اس کے حرف حرف سے مضمون نگار کی شخصیت سازی میں ممدوح کے اثرات جھلک رہے ہیں۔ تمہید کو طوالت سےبچاتے ہوئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ  آپ کے سامنے اصل مضمون پیش کریں، لیجئے  حاجی جمال محمد مرحوم پر ڈاکٹر عبد الحق کرنولی مرحوم کا مضمون حاضر ہے۔

**************************************************************************** حاجی جمال محمد صاحب مرحوم کی زندگی کے واقعات اور سوانح حیات کو تفصیلی طور پر قلمبندکرنا آسان کام نہیں ہے۔ اس واسطے کہ صاحبِ موصوف کی زندگی کے مختلف پہلو تھے۔ ایک ہی وقت میں وہ چوٹی کے مخیّر رئیس بھی تھے اور ایک سمجھدار سیاست دان بھی ۔علمی اور قومی اداروں کے سرپرست بھی تھے اور قوم کے نونہالوں کی تعلیم وتربیت کے مددگار بھی ۔تجارت میں بھی ماہر تھے اور معاشیات اور پبلک فائنانس میں بھی ایک بلندمرتبہ رکھتے تھے۔ حقیقت میں یہ ایک علمی ادارے کاکام ہے کہ ان کی تفصیلی سوانح حیات مرتب کرائے، تاکہ ان کی زندگی کے مختلف پہلو اجاگر ہوجائیں۔ حاجی جمال محمد صاحب کے والد حاجی جمال محی الدین صاحب مرحوم صوبۂ مدارس کے سب سے جنوبی حصے رام ناڈ کے باشندے تھے۔ ان کے گھرانے کی مادری زبان تامل تھی۔ حاجی جمال محی الدین صاحب خاندانی تاجر تھے۔ چمڑے کی تجارت کے سلسلے میں مدراس آئے اور یہیں مقیم ہوگئے۔ اللہ نے ان کی تجارت میں بڑی برکت دی۔ حاجی جمال محی الدین مرحوم نے اپنی زندگی میں کئی وقف کیے ہیں جن میں مدراس کا عربی مدرسہ ’’جمالیہ‘‘ایک مشہور وقف ہے۔ ترچناپلی میں بھی مسلمانوں کی تعلیم کے لیے انھوں نے وقف کردہ عمارتیں چھوڑیں۔ دینی تعلیم کی اشاعت اور عربی زبان کی تعلیم کا انہیں خاص ذوق تھا۔(چنئی کی جامع مسجد پیریمیٹ ، آپ کی یاد گار ہے۔ع۔م۔م)۔

 ان کے فرزند حاجی جمال محمد غالباً 1881ء میں پیدا ہوئے، تامل اور انگریزی کی تعلیم کرسچین کالج ہائی اسکول مدراس میں ہوئی۔ ففتھ فارم کے بعد یہ اپنی تجارت میں مصروف ہوگئے۔ خداداد ذہنی قابلیت کی وجہ سے اس میں بڑا درجہ حاصل کیا اور نہایت کامیاب تاجر سمجھے جانے لگے۔ پہلی جنگِ عظیم سے قبل تجارت کے سلسلے میں انہیں یورپ کے سفر کا اتفاق ہوا، اور اُس زمانے کی بڑی اہم شخصیتوں سے ان کی ملاقاتیں رہیں۔ انگلستان کے بعض وزراء اور سیاست دانوں سے ملنے کا موقع ہوا۔ جرمنی میں بعض مشاہیر، اور ترکی میں ’’انجمن اتحاد و ترقی‘‘کے اربابِ حل وعقد، اور مصر میں حریت پسند لیڈروں اور عالموں سے ان کی ملاقات رہی۔ شیخ جوہری طنطاوی سے مدارسِ عربیہ کے نصاب میں تبدیلی کے سلسلے میں دو ایک ملاقاتیں ہوئیں، اور خود شیخ طنطاوی مرحوم نے اپنی کتاب ’’تفسیر الجواہر‘‘جلداول میں دوجگہ ان کا ذکرکیا ہے۔ یورپ اور ممالکِ اسلامیہ کا یہ سفر پہلی جنگِ عظیم سے پہلے ان کے لیے بہت مفید ثابت ہوا، جس کے بعد ان کی تجارت کو دن دونی اوررات چوگنی ترقی ہوئی۔ جنگ کے بعد مدراس کے مشہور لیڈروں کے ساتھ خلافت تحریک میں حصہ لیا۔ نقطۂ نظر سیاست میں ہمیشہ قومی رہا، لیکن ہر قسم کے ادارے ان کی سخاوت سے فیض اٹھاتے تھے۔ سمرنا فنڈ کے لیے مسیح الملک حکیم اجمل خان مرحوم نے دہلی میں ان سے چندہ طلب کیا تو انہوں نے بڑے مؤدبانہ اندازمیں چیک بک پیش کردی اور حکیم صاحب کو اجازت دی کہ اپنی جانب سے جو رقم چاہیں بھر لیں، لیکن حکیم صاحب نے انہیں مجبور کیاکہ وہ اپنی جانب سے لکھ دیں۔ حکیم صاحب مرحوم فرماتے تھے کہ انہیں سخت حیرت ہوئی جب یہ دیکھا کہ جمال محمد مرحوم نے ایک لاکھ روپیہ کا چیک لکھ کر حوالے کردیا۔ قوم کے دیگر ملّی اداروں میں ان کی خیرات کا یہی عالم تھا۔ جنوبی ہند کے مدارس ِعربیہ، ’’اسلامی انجمنوں‘‘بلکہ غیر مسلموں کے تعلیمی اور سوشل ادارے بھی ان کے دسترخوان سے زلّہ رباتھے۔( چنئی کے مشہور نیشنلسٹ روزنامہ دی ہندو کو قائم کرنے کے لئے آپ نے ایک لاکھ روپئے دئے  تھے، یہ بات ہم نے مولانا سید عبد الوہاب بخاری ؒ سے سنی تھی۔ ع۔ م۔ م)۔

پیشکش : عبد المتین منیری

00971555636151

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muniri/