کیا آپ سہا ؔکو جانتے ہیں۔۔۔؟۔۔از: ندیم صدیقی

از: ندیم صدیقی
آج ایک ایسے اہل علم، صاحبِ دانش اور فن کار کا تذکرہ مقصود ہے جو اپنے زمانے میںنابغۂ روزگار جیسا تھا۔ وہ زمانہ جب عرصہ ِ علم و ادب میں ایک سے ایک ماہر اور قد آور موجود تھے۔ انہی اکابر میں سے ایک تھے ممتاز احمد سہا۔ جو اپنے عہد کے قد آوروں سے متضاد تھے۔ قد آور جب کہا جاتا ہے تو اس کے معنی جسمانی قد نہیں بلکہ معنوی قد مراد ہوتا ہے۔ یہ سہا ، جن کے نام کے ساتھ لاحقہ کے طور پر مجددی بھی لگا ہوا ہے۔ اپنے زمانےکےایک ایسے یادگار شخص گزرے ہیں کہ اب ان کے جیسا کوئی صاحبِ علم و دانش اُن کے وطن بھوپال میں بھی شاید و باید ہی ہو۔ یہ موصوف9 فروری1892 میں جنمے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اُس زمانے میں بھوپال عالموں، دانشمندوں اور باکمالوں کے باوصف’’بغداد الہند ‘‘ بنا ہوا تھا۔ اسی دور میں ریاست بھوپال کے نائب ناظم سید یحییٰ حسن کے فرزند ارجمند تھے ممتاز احمد جو بعد میں سہاؔ مجددی کے نام سے ایک زمانے میں اسم بامسمیٰ ثابت ہوئے۔ بتایاجاتا ہے کہ کوئی بیس برس کے رہے ہونگے کہ فن ِ خطابت میں وہ نمایاں ہو چکے تھے اور مستزاد یہ کہ وہ صرف اُردو زبان میں تقریر کرتے تھے ،نہیں جناب، جس طرح اُردو میں خطاب کرتے تھے اسی طرح انگریزی میں بھی وہ خطابت پر قادر تھے۔
کچھ لوگ اپنی ظاہری وضع قطع یا معروف لفظوں میں شخصیت(پرسنالٹی) کے ذریعے بھی لوگوں کو اپنی جانب فوراً متوجہ کر لیتے ہیں ممتاز احمد سہا ؔکا معاملہ اس کے بر عکس تھا قدرت نے ا نھیں ظاہری کشش سے محروم رکھا تھا وہ اپنی کوتاہ قامتی کے سبب، ایک عجوبۂ روزگارتھے ۔ راویت ہے کہ سہاؔ اپنے قد میںسوا تین یا ساڑھے تین فٹ کے تھے۔مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے علم ، اپنی دانش کے سبب بہت سے قدآوروں میں ایک امتیازی حیثیت کے حامل شخص تھے۔ وہ ہمارے ادب میں ’ شارحِ غالب‘ کے طور پربھی اپنا ایک امتیازی تشخص رکھتے ہیں۔ سہا ؔکے معنی ایک مخصوص ستارے کے ہیں جو بہت کم عمر ہوتا ہے۔ ممتاز احمد سہا نے بھی عمرکم ہی پائی ، صرف پچپن برس، مگر انہوں نے اتنی کم زندگی میں بھی وہ کارنامے انجام دِیے ہیں کہ فی زمانہ ایسی مثال تلاشِ بسیار کے باوجود ملنا محال ہے۔
کئی برس قبل جب ہم ایک سفر میں بھوپال پہنچے اور مدھیہ پردیش اُردو اکادیمی کے دفتر میں حاضری دی تو اکادیمی ہٰذا کی ناظم بی بی نصرت مہدی نے اپنی اکادیمی مطبوعات دینے کیلئے فہرستِ کتب ہمارے سامنے رکھدی اور کہا کہ’’ آپ اس میں سے کتابیں منتخب کرلیں توہم حاضر کردیں۔ ہم نے تکلفاً اُن سے کہا کہ اس نوازش کی کیا ضرورت ہے۔ نصرت مہدی کی طرف سےجواب ملا: ہمیں اپنی مطبوعات تو بہرحال پیش کرنی ہیں، اگر وہ آپ کی پسند کی ہوں تو سبحان اللہ، ہمیں خوشی بھی ہوگی۔‘‘
تو جواباً ہم نے سہا ؔ مجددی کی شرح’’مطالب الغالب‘‘ پر اُنگلی رکھ دی۔ ہمیں اس انتخاب پر نصرت بی بی کی طرف سے یہ بھی سننے کو ملا:اسی کی توقع تھی آپ سے۔ بھوپال سے واپسی کے سفر میںسہا ؔکی یہ شرحِ کلام ِغالب کھولی اور صرف اس کا دیباچہ ہی پڑھ کر اس نتیجے پرپہنچے کہ اگر سہا ؔکے دور میں ہم جیسے ہوتے تو اُن کے منشی بننے کے بھی اہل نہ گردانے جاتے۔
قدرت کے منصوبے عجب ہوتے ہیں وہ پیدا کہیں کرتا ہے پروان کہیں چڑھاتا ہے ، کام کہیں اور لیتا ہے۔ یہ جو بھوپال میں ندیمِ دوست ضیا ؔفاروقی ہیں، ان کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ وہ جنمے تو سندیلےؔ میں ، ایک عمر کانپور جیسے شہر میں گزار کرمنظوم ’کانپور نامہ‘ لکھا، شاعری تو یقیناً ان کی سرشت میں شامل تھی مگر ان کی حالیہ کارکردگی جو ہمارے سامنے ایک کتاب’’ سہا مجددی‘‘ کی شکل میں ہے وہ اس کی شہادت بنی ہوئی ہے کہ صناعِ ازل و ابد کو اس فرزند ِ سندیلہ سےسہا جیسے مجدد پر بھی کام کروانا مقصود تھا۔ اُردو اکادیمی (دہلی) کےلئے لکھا گیا یہ مو نوگراف بظاہر قد و قامت(حجم و ضخامت) میں سہاؔ ہی کی طرح ہے مگر یہ بھی نوٹ کرنے کی بات ہے کہ یہ کتاب اپنے متن کے لحاظ سے سہا ؔکے علم و فضل اور ان کی شخصیت کی طرح بھرپور ایک روشنی کی حامل ہے۔ 128 صفحات کی یہ کتاب ممتاز احمد سہا مجددی کا اِجمالی تعارف ہی نہیں کراتی بلکہ ان کے تعلق سے ہمارے ذہن و قلب میں ایک ایسا چراغ روشن کرتی ہے کہ جس کی روشنی یہ احساس دِلاتی ہے کہ ۔۔۔’’ ہم جو چاہیں خود ہی لکھ دیں سادہ کاغد ہیں تقدیریں‘‘۔۔۔ شاعروں کے تعلق سے بے پروا اور لا اُبالی جیسی باتیں عام طور پر کی جاتی ہیں ۔ اسی کتاب میں سہاؔ کے ایک خط کے اقتباس نے اسکی تصدیق بھی کر دی۔آپ بھی ملاحظہ کریں:’’۔۔۔ ہر اُس شخص کیلئے جو کسی دوسرے ذریعے سے اپنی معاش سےمستغنی نہ ہو ،ادب و شعر کا شغل جرم سمجھتا ہوں۔‘‘ ایسی دانش کی بات سہا ؔ جیسا شخص ہی کر سکتا تھا۔ حیرت ہوتی ہے کہ لفظِ شاعر توشعور ہی سے مشتق ہے مگر ہمارے اکثر شعرا شعور کی اس ’’رَو‘‘ سے نا آشنا ملتے ہیں۔ضیا فاروقی نے اس کتاب کے ذریعے نئی نسل کو سہاؔ جیسے مجدد سے نہ صرف متعارف کروایا ہے بلکہ اُنہوں نے خود بھی اپنے باشعور اور صاحبِ نقد ونظر اور محقق ہونے کا ثبوت فراہم کر دِیا ہے۔ کتا ب کےآخری صفحات پر کلام ِ سہا ؔکا جامع انتخاب بھی ضیا کے فاروقی ہونے پر دال ہے۔۔۔ جو لوگ اپنے با کمالوں اوردانش مندوں سے باخبر ہی نہیں مستفید ہونے کی خٗو رکھتے ہیں اُن کےلئےاس کتاب کا مطالعہ بہر طور مفید تر ہوگا۔ اس کتاب کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگ مستفیض ہوں،یقیناً اسی لئے کتاب کی قیمت برائے نام صرف پینتالیس روپے رکھی گئی ہے۔ اتنی قیمت تو فی زمانہ چھپائی ،کاغذ اور جِلد سازی کی بھی نہیں ہوتی۔ بیش بہا متن کی حامل اس کتاب کو جلد از جلد منگا لینا چاہیے ورنہ جواب یہ ملےگا کہ ’’ختم ہوگئی۔‘‘ اور ہاں سہا ؔمجددی پر کام کرنے والے کی تحسین بھی تو واجب ہے لہٰذا حق بہ حق دار اس موبائل نمبر پر پہنچایا جاسکتا ہے۔: 09406541986