بازار  بن گئی ہے اب زندگی یہاں۔۔۔!!از: ندیم صدیقی

Bhatkallys

Published in - Other

01:00PM Mon 1 Aug, 2016

ہمارا ملک کل سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا یقیناً ایسا رہا  بھی ہوگا  اور آج بھی آنکھیں جدھر دیکھتی ہیں مال وزر کی فراوانی ہی فراوانی نظر آتی ہے۔ مگر ایسا ہے نہیں  چھوٹے شہروں ہی میں نہیں بڑے شہروں میں بھی ایک  نہایت سنگین  صورت حال ہے اور ایسا بھی نہیں کہ ہمارے ذمے داران ان حالات سے  بے خبر ہوں مگر ساون کے اندھے کو سوکھے کی کیا پڑی وہ تو ہریالی  ہی ہریالی دیکھ رہا ہے۔۔۔ جہاں  معاشرے  کا ایک خاص طبقہ معمولی   پزّا(Pizza)    ،ستّر روپے سے ۴۰۰ روپے میں لے کر   ناشتے کے طور پر کھا تا ہے اور  پزّْے کی  شانداردُکانیں  ہمارے علاقوں میں بھی خوب پھل پھول  رہی ہیں او ر ان کے پاس طلب  پرگھر پہنچانے کیلئے ایک دو نہیں درجنوں کارندے کام کر رہے  ہیں۔ انہی علاقوں میں  اعلیٰ درجے کے ایک نہیں کئی  ہوٹل بھی موجود ہیں جہاں اگر کبھی آپ کو جانے  کی اللہ توفیق دے تو آپ کوہوٹل  میں بیٹھنے کی  جگہ فوراً نہیں ملے گی۔ اس کے بر عکس صورتِ حال یہ ہے کہ اسی معاشرے میں ایسے  لوگوں کی بھی اچھی  خاصی  تعداد موجود ہے کہ جن کی ماہانہ آمدنی بمشکل تین  چار ہزار روپے ہے اور ان کے ذمے کئی افراد کی دال روٹی ہے اور  ہمارے اِرد گِرد ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو ایک وقت میں تین  چار ہزار روپے  پانی کی طرح خرچ کر جاتے ہیں۔ معاشرتی سطح پر یہ   تضادات کس کس طرح کے مسائل  پیدا کر رہے ہیں اس کے  بارے میں عام طور پر ہمارے ہاں خاموشی ہی اختیار کی جاتی ہے  یا پھر بہت ہوا تو کسی مجلس ،محفل میں کچھ’’ہمدردی فروش لوگ‘‘ لفظوں سے رو دھو لیتے  ہیں۔  بعض ’ مستحقین‘ کو کچھ دے دِلا بھی دیا جاتا ہے اور پھر اخبارات  وغیرہ میں اس حاتم طائیت کی  خوب تشہیر بھی کروائی جاتی ہے۔۔۔لیکن   غربت اور امارت کی خلیج ہے کہ و ہ  اسی طرح موجود  ہے۔ ’’ایک خاتون ڈاکٹر نے(دوسری عورت کی) چھ ماہ کی بچّی کو فروخت کر دیا۔‘‘ ایسی خبریں آج  تعجب خیز نہیں رہیں کیوںکہ جس معاشرے میں شدید قسم  کا تضاد پایا جاتا ہو وہاں  ایسا ہونا کسی بھی طرح سے حیرت کی بات نہیں رہ گئی۔ البتہ ہم اس پر ضرور چونکے کہ جس نے بیچا  اور جس نے خریدا دونوں عورت  ہیں۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں عورت ہمدردی اور درد مندی کی پُتلی سمجھی جاتی ہے مگر  ایسا بھی ہے کہ عورتوں ہی کی  ایک اچھی خاصی تعدادبھولی بھالی لڑکیوں کوجسم فروشی کی دلدل میں بھی پہنچا تی ہیں آج تو ایک خبر یہ بھی پڑھی کہ چودہ سال کی لڑکی سے شادی کی اسے دہلی سے ممبئی لایا گیا او جس  نے اس سے شادی کی تھی اسی نے  اسے  پچاس ہزارروپے میں فروخت کر دیا۔ ہمیں جس واقعے نے آج  یہ سب لکھنے پر مجبور کیا  اس واقعے سے آپ بھی باخبر رہیں لہٰذا  اِس کی تفصیل ذیل میں درج ہے۔ ضلع تھانے کے ایک مشہور شہر جسے آپ سب الہاس نگر (۳)کے نام سے جانتے ہیں وہاں گزشتہ دنوں ایک پرائیویٹ ہسپتال کی لیڈی ڈاکٹر نے چھ ماہ کی بچی کو وسئی کی ایک لاولد خاتون کے ہاتھوں بیچ دِیا۔ واقعہ یوں ہے کہ  روشنی سنگھ نے اپنی ۶سالہ بچی کو جس کے بدن پر پھوڑیاں ہو گئی تھیں علاج کیلئے    ہسپتال میں داخل کیا۔ اس بچّی کا علاج کرنے والی  خاتون ڈاکٹر نے بچی کو بیچ دیا اور بچی کی ماں سے یہ بہانہ کیا کہ اس کی  بیٹی کا اس ہسپتال میں علاج ممکن نہیں ہے لہٰذا اُسکو علاج کیلئے دوسرے ہسپتال میںبھیجا گیا ہے۔ جب دو دِن تک  وہ بچّی ہسپتال نہیں  لوٹی  اور    خاتون ڈاکٹر کے رویے میں بے رُخی اور بے اعتنائی  دیکھ کر بچّی کی ماں نے مقامی سماجی کارکنوں  سے شکایت کی اور پھر ان لوگوں کی مدد سے پولس میں شکایت کی گئی اور جب پولس نے  خاتون ڈاکٹر سے سختی  کی تب  خاتون ڈاکٹر  نے اپنا جرم  قبول کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بچی کو وسئی کے ایک لاولد خاندان کو بیچ چکی ہے۔ پولس نے کارروائی کرکے  بچّی کو بر آمد کر لیا ہے اور بچّی کو اس کی ماں کے  حوالے کر دیا گیا ہے۔۔۔ ڈاکٹر اور وہ بھی خاتون ڈاکٹر کے ہاتھوں ایسے گھناؤنے جرم کا سرزد ہونا  واقعی افسوس ناک ہے ۔ ڈاکٹر وں کو ہمارے ہاں جو عزت اور سمان  دیا جاتا ہے وہ سب جانتے ہیںمگر اس محترم شعبے سے جڑے ہوئے لوگ ہی جب اس طرح کے   جرم کے مرتکب ہوں تو پھر آدمی کس پر اعتبار کرے اور کیوں کرے۔ میڈیکل شعبے کی  یہ خبر تو  میڈیا کے ذریعے عام ہوگئی ہے مگر نجانے کتنے  معاملے  ایسے  ہوتے ہیں جو وہیں کے  وہیں دبا دیے جاتے ہیں۔ انسانی اعضا کی خرید و فروخت بڑے دھڑلے سے جاری ہے اور  اِس جرم میںڈاکٹر حضرات ہی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔ غربت کے مارے ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنا خون  اور اپنے گردے اور دیگر اعضا فروخت کرنے پر آمادہ ہیں۔۔۔ حا ل ہی میں  ہمارےشہر عروس البلاد میں گردہ فروشی کرنے والا ایک بڑا  گروہ پکڑا گیا ہے۔ جس میں ڈاکٹروں کی گرفتاری بھی عمل میں آئی  ہے۔ ملک کے   غریب اور پسماندہ علاقوں سے نوکری  وغیرہ دِلانے کے بہانے اچھی خاصی تعداد میں لڑکیاں قحبہ خانوں میں پہنچائی جارہی ہیں۔ واضح رہے کہ اب  بدنام ریڈ لائٹ علاقوں ہی میں قحبہ خانے نہیں بلکہ اب یہ  ہمارے نہایت متمول علاقوں  میں بھی پھیل گئے ہیں۔ اس کی  ایک وجہ  فلیٹ سسٹم بھی ہے کہ جہاں  پڑوسیوں کو یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ ان کے  فلیٹ سے متصل گھر میں کیا ہو رہا ہے  بلکہ  یہ بھی ہے کہ زندگی ایسی میکانیکی عمل بنا دی گئی ہے کسی کو اس کی پڑی ہی نہیں کہ وہ اپنے پڑوس کی خبر  لے۔ ہر بڑا شہر  اس تجارت کی ایک بڑی منڈی بنا ہوا ہے۔ اس پیشے میں ہر سطح پر کاروبار جاری ہے۔ مبینہ طور پر پولس خود   اس  پیشے میں راست نہ سہی مگر کسی نہ کسی سطح  پر ملوث  ہے۔ لہٰذا  اِس  بازار کی رونق کہیں سے ماند نہیں  پڑتی۔ غربت اور افلاس کے  مارے لوگ    ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں اسی  طرح کی دلدل میں پھنستے رہے ہیں  اور پھنس رہے  ہیںمگر’’ ہماری ترقی جاری ہے اور ہم   ا ب پسماندہ بھی  نہیںہیں۔ ‘‘یہ باتیں کہنے میں کیا جاتا ہے کہتے رہئے اور ان مسائل سے آنکھیں موندے رہئے۔ مگر کسی دن ایسا نہ ہو کہ ہم آپ بھی فروخت ہو جائیں اور ہمیں پتہ بھی نہ چلے!