تبصرات ماجدی۔۔ کیفیہ۔۔۔ ذکر جمیل۔۔۔ تحریر:  مولانا  عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

01:54PM Wed 10 Mar, 2021

(120) کیفیہ

  از:  پنڈت برج موہن ناتھ کیفی

انجمن ترقی اردو، دہلی۔

کیفی صاحب دہلوی اردو کے کہنہ مشق لکھنے والے اور استادانہ معلومات رکھنے والے اہل قلم ہیں۔ یہ مجموعہ ان کی ایک عمر کی ادبی، انشائی اور نحوی تحقیق کا گویا نچوڑ ہے اور کتاب کی حیثیت ایک لسانی کشکول کی سی ہے، جس میں صرف، نحو، عروض، قافیہ، معانی، بیان، املا اور تاریخ اردو سے متعلق سیکڑوں مسائل کا بیان آگیا ہے۔

کتاب متفرق معلومات کے لحاظ سے اچھی ہے اور تاریخ اردو سے متعلق سیکڑوں مسائل کا بیان آگیا ہے، اردو کے ہر طالب علم کے مطالعہ میں آنے بلکہ رہنے کے قابل اور طلبہ سے مراد محض مبتدی نہیں منشی فاضلوں کو بھی ان صفحات میں بہت سی کام کی باتیں مل جائیں گی اور مطالعہ کا وقت ضائع نہ جائے گا، البتہ یہ بھی ظاہر ہے کہ پنڈت صاحب کے بنائے ہوئے اور بتائے ہوئے قاعدے، ضابطے، کلیے ہر جگہ صحیح اور کافی نہیں، ان کی تنقیدیں اور ترمیمیں بجائے خود محتاج تنقید ہیں اور علم و ادب کی دنیا میں یہی ہوتا ہی آیا ہے۔

نقائص کلام و اغلاط کی مثالیں دینے میں کیفی صاحب مختلف ادیبوں، شاعروں اور اہل قلم کے نام لیتے گئے ہیں، یہ کسی طرح مناسب نہیں تھا، خصوصاً بعض جگہ نکتہ چینی حرف گیری کے اور اصلاح زبان زبان پکڑنے کے مرادف ہوگئی ہے، اصلاح و تصحیح کا کام بغیر کسی تصریح کے بھی ہوسکتا ہے۔ مصنف بے پناہ تنقید کی زد میں نذیر احمد ،حالی اور مولانا ابو الکلام سے لے کر نگار لکھنو اور زمیندار لاہور تک سب ہی اچھے برے زندہ اور مرحوم بڑے اور چھوٹے آجاتے ہیں، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ جلال لکھنوی پر عنایت کچھ زیادہ ہے، عجب نہیں جو عالم برزخ سے اس وقت صدا آرہی ہو  ع قصور ڈھونڈ کے پیدا کیے جفا کے لیے۔

پختہ کار و پختہ قلم فاضل مصنف معاف فرمائیں کہ ‘‘شتر گربہ’’ جس سے انہوں نے بچایا اور ڈرایا ہے خود ان کی تحریر بھی اس کا شکار ہونے سے نہ بچ سکی، کہیں تو عربیت کی وہ جزالت و غرابت کہ دہلی کے کشمیری پنڈت پر دیوبند یا فرنگی محل کے مولوی مولانا کا گمان اور کہیں جو ہندی نوازی کی لہر آئی تو اولڈ بوائے کی جگہ زبان ‘‘پاٹھگ’’ پر کھلنے لگی۔ کیفی صاحب کے استاد فن ہونے میں کلام نہیں لیکن ضروری نہیں کہ جو ادیب گر ہو وہ ادیب بھی ہو۔ کتاب ان کی مفید معلومات افزا بہر صورت ہے۔

صدق نمبر  3، جلد  10 ،  مورخہ 16؍ مئی 1944

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(121) ذکر جمیل

از ماہر القادری صاحب

نفیس اکیڈمی، حیدر آباد۔

ماہر القادری صاحب کا کام اب کسی تعارف کا محتاج نہیں، ان کا کلام یوں بھی اچھا اور پڑھنے کے قابل ہوتا ہے اور پھر یہ تو نعتیہ غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ہے دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا۔ بعض نظموں کے عنوانات اور مضامین بالکل تاریخی ہیں اور کلام بہ حیثیت مجموعی ایسا ہی ہے جیسا ایک بیسویں صدی کے مومن شاعر کے قلم  سےادا ہونا چاہیے۔ دیباچہ کے بعض فقرے اور منظومات کے بعض بعض شعر بہت مؤثر اور دلگداز ہیں، البتہ کہیں کہیں جوشِ عقیدت ایک محتاط اور بیدار دیباچہ کے باوجود ہوش و علم پر غالب آگیا ہے۔ لکھائی، چھپائی، کاغذ، جلد سب ایک لمبے غلط نامے کے باوجود پسندیدہ ہیں۔

صدق نمبر  45، جلد  نمبر 10 ،  مورخہ 16؍ مارچ  1945

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/