اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل

Bhatkallys

Published in - Other

12:23PM Wed 27 Apr, 2016
حفیظ نعمانی ہر انسان کی عمر کے کئی دور ہوتے ہیں۔ اور ہر دور ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا کہ جو انی میں جو باتیں یا جومصروفیات بہت اچھی لگتی تھیں وہ ادھیڑ عمر میں کچھ تبدیل ہوئیں اور جب نانا دادا ہوئے تو بالکل ہی تبدیل ہو گئیں۔ وہ جوانی کا دور تھا جب علامہ شبلی کی الفاروق پڑھی تھی۔ اس وقت اسے ایک اسلامی تاریخ کی طرح پڑھ لیا تھا۔ اور اب یہ بھی یاد نہیں کہ کن باتوں سے طبیعت زیادہ متاثر ہو ئی تھی اور وہ کو نسی باتیں تھیں جنہیں پڑھ کر حضرت عمرؓ کی عظمت کا سکہ طبیعت پر بیٹھا تھا؟ اتفاق سے پانچ سال پہلے پھر الفاروق ہاتھ میں آگئی۔ اور اب جو پڑھا تو اسکا اثر ہی کچھ اور تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ڈاکٹر من موہن سنگھ وزیر اعظم تھے اور ان کی دوسری بار بائی پاس سرجری ہو ئی تھی۔ انہوں نے وہ محکمے تقسیم کر دئے تھے جو ان کے پاس تھے اور ان میں زیادہ اہم اور نازک محکمے شری پرنب مکھر جی کو دئے تھے۔ اس زمانہ میں ایک دن ایڈوانی جی پرنب جی کے پاس آئے اور اس کی تعریف کرنے لگے کہ وہ کتنا کام پہلے کرتے تھے اور اب وزیر اعظم کی بیماری میں کتنا کر رہے ہیں! ان کے منہ سے نکلا کہ ’’میں سوچا کرتا ہوں کہ اگر اس حکومت میں آپ کے جیسا وزیرنہ ہوتا تو اس کا کیا ہوتا؟ ‘‘ اور جب میں نے الفاروق کے دونوں حصے ختم کئے تو بے ساختہ میرے منہ سے نکلا کہ اگر حضرت عمرؓ نے اسلام نہ قبول کیا ہوتا اور وہ حضور اکرمؐ کے اتنے قریب نہ ہوتے تو اسلام کا کیا ہوتا؟ حضرت عمر فاروقؓ نے ایسے کئی فیصلے کئے جو حضور اکرمؐ کے زمانہ میں نہیں تھے ان میں سے ہی تین طلاق برابر تین طلاق کا فیصلہ ہے۔ اور رمضان شریف میں تراویح میں پورا قرآن عظیم پڑھنا بھی انکا ہی فیصلہ ہے۔ اور بلا شبہ حافظوں کو قرآن عظیم حفظ رہنے کا یہی سبب بنا۔ اب ہر حافظ قرآن رمضان آنے سے پہلے اپنے کو تیار کر لیتا ہے کہ وہ تراویح میں پورا قرآن سنائے گا۔ ایک فیصلہ یہ کیا کہ اس زمانہ میں جو لونڈی باندی ہوتی تھیں ان میں اگر اس کے مالک کا کوئی بچہ اس کے پیٹ سے پیدا ہو چکا ہوتا تھا تو اس کے مالک کو اختیار تھا کہ وہ چاہے تو فروخت بھی کر سکتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس کی فروخت کو ممنوع قرار دے دیا۔ اس لئے کہ وہ اپنے مالک کے بچہ کی ماں بن جانے کے بعد اس کی حق دار ہو جاتی تھی کہ اگر مالک کے انتقال ہوجائے تو وہ آزاد ہو جائے۔اور اس کا بچہ بھی اسی کے پاس رہے۔ اپنے وقت کے بہت بڑے اور علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ حافظ ابن قسیم نے ایک روایت بیان کی ہے کہ ایک شخص کو حضرت عمرؓ کے پاس لایا گیا کہ اس نے اپنی زوجہ کو ایک ہزار طلاق دے دی ہیں۔ اس سے جب سوال کیا گیا تو اس نے کہہ دیا کہ میں نے تو مذاق میں ایک ہزار طلاقیں دی ہیں۔ حضرت عمرؓ اپنے درّہ سے اسکی خبر لی اور فرمایا کہ ان میں سے تین تیرے لئے کافی ہیں۔ تین طلاق کو تین ماننے کا فیصلہ حضرت عمرؓ کا فیصلہ ہے اور ان کے زمانہ میں صحابہ کرام کی ایک پوری جماعت موجود تھی لیکن کسی نے اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے کہ کسی صحابیؓ نے اس کی مخالفت کی۔ جب کہ تاریخ کا یہ اہم ترین واقعہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنا وقت آخر محسوس کرنے کے بعد انصارو مہاجر بزرگ صحابۂ کرام سے فرمایا کہ میرے بعد کے لئے اپنے امیر کا انتخاب کر لو۔ اور یہ بھی فرمایا کہ جانشینوں میں میرے بیٹے عبداللہ ابن عمر کے نام پر غور نہ کرنا۔ اور جب سقیفۂ بنو ساعدہ (بندساعدہ کی چوپال) میں مشورہ شروع ہوا۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے دریافت کیا کہ کیا وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی سنت کی پابندی کریں گے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ بے شک اس کے بعد سوال کیا کہ کیا اپنے پہلے دونوں خلفاء کی بھی پیروی کریں گے تو فرمایا ہر معاملہ میں نہیں۔ اور جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی تو جمعہ کے خطبہ کے لئے وہ منبر کے سب سے اوپر اس جگہ کھڑے ہوئے جہاں حضور اکرمؐ تشریف فرما ہوتے تھے۔ اور بعد میں حضرت ابوبکرؓ نے اس کے نیچے والی سیڑھی پر کھڑے ہونا شروع کیا۔ ان کے بعد حضرت عمرؓ نے اس کے نیچے والی سیڑھی پر اور حضرت عثمانؓ نے فرش پر کھڑے ہوکر خطبہ دیا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اگراس طرح نیچے اتراجاتا رہا تو وہ وقت بھی آئیگا کہ امام کنویں میں کھڑے ہو کر خطبہ دے گا۔اس طرح حضرت علیؓ نے ثابت کر دیا کہ وہ اپنے سے پہلے والے خلفاء کی ہر معاملہ میں پیروی نہیں کریں گے۔ اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ تین طلاق کو برابر ایک طلاق صحیح مانتے تو وہ حضرت عمرؓ کے فیصلہ کو تبدیل بھی فرما سکتے تھے۔ اور جب صحابہ کرام نے یہ نہیں کیا تو پندرہ سو برس کے بعد کے عالموں سے یہ توقع کرنا کہ وہ اسے تبدیل کردیں گے دانش وری نہیں جہالت ہے۔ ہم کسی کی نہ مخالفت کر رہے ہیں نہ یہ کسی کا جواب ہے۔ صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ دین کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے۔ اور بہت تھوڑے علم کا تو ذکر ہی کیا برسوں علم دین کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی اس انداز میں بات کرنا کہ یہ حرف آخر ہے۔ آسان نہیں ہے۔ ہمارے والد کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کا بھی خوب علم دیا تھا۔ ان کی کتاب قرآن آپ سے کیا کہتا ہے؟ اردو،عربی اور انگریزی تینوں زبانوں میں چھپ چکی ہے اور برابر چھپ رہی ہے۔ اور درس قرآن بھی بہت مقبول ہو چکی ہے اور حدیث تو ان کا خاص موضوع تھا جو معارف الحدیث کی آٹھ ضخیم جلدوں سے ظاہر ہے۔ لیکن ان سے کوئی مسئلہ معلوم کرتا تھا تو وہ مفتی عبدالقادر صاحب فرنگی محلی اور بعد میں ندوہ کے مفتی کے پاس بھیج دیا کرتے تھے کہ مجھے فقہ پر اعتماد نہیں ہے۔ لیکن ہمارے دوست ہر وکیل اور ہر دانشور یعنی انگریزی تعلیم یافتہ کو حق دیدیتے ہیں کہ وہ تین طلاق اور ایک طلاق کا فیصلہ کردیں۔ یا کلام پاک کا ترجمہ پڑھ کر اپنے کو اس قابل سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ عالم دین ہو گئے۔ کون نہیں مانتا کہ قانون ہر وکیل پڑھنے کے بعد وکیل ہوتا ہے۔ لیکن سیکڑوں سند یافتہ وکیلوں میں مشکل سے سو نکلتے ہیں جن کی دلیلوں کو جج بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اور جو سپریم کورٹ میں بھی وکالت کرنے کے قابل سمجھے جاتے ہیں۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ ایک تعلیم یافتہ مسلمان جس دین کو سب سے سچا دین سمجھے وہ قرآن پاک کا ترجمہ اور انگریزی کی دو تین کتابیں پڑھ کر یہ سمجھ لے کہ اب اسے دینی معاملات میں فیصلہ کرنے کا حق مل گیا۔! حدیث کی مشہور کتاب مؤطا امام مالک کی روایت ہے کہ عراق کے ایک حاکم نے طلاق کے ایک معاملہ میں حضرت عمر سے رجوع کیا ۔ جس کی صورت یہ تھی کہ شوہر نے بیوی سے ایسے الفاظ کہے جن میں طلاق کا لفظ نہیں تھا طلاق مراد ہو سکتی تھی۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ اس کو حج کے دنوں میں میرے پاس بھیج دو۔ وہ آدمی آیا تو حضرت عمر طواف کر رہے تھے۔ اس نے سلام کیا آپ نے معلوم کیا کہ کون ہو؟اس نے بتایا کہ میں فلاں ہوں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں اس گھر کے رب کی قسم دے کر تجھ سے معلوم کررہا ہوں کہ تیرے ان الفاظ ’’حبلک علی غاریک ‘‘ ’’تیری ڈور تیرے ہاتھ‘‘ سے کیا مراد تھی۔ اس نے جواب دیا کہ امیر المومنین اگر آپ نے کسی اور جگہ مجھے قسم دی ہوتی تو میں آپ سے ہر گز سچ نہ بولتا۔ مگر اب اقرار کر رہا ہوں کہ میں نے طلاق کے لئے ہی یہ الفظ کہے تھے۔ اور اسے طلاق تسلیم کیا گیا۔ حضرت عمرؓ کی سختی کون نہیں جانتا اور کون نہیں جانتا کہ جب وہ جمعہ کا خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو ایک بدّو نے ٹوک دیا کہ آپ کے جسم پر کپڑے کے دو ٹکرے کیسے ہیں؟ اور انکے فرزند نے کھڑے ہو کر صفائی دی تھی کہ اس میں ایک میرا ہے۔ یا ایک بوڑھی عورت نے مہر کے بارے میں ٹوک دیا تو اس کی صفائی دی۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کی سختی کی وجہ سے صحابۂ کرام نے زبان نہیں کھولی۔ اس زمانہ میں اس کا تصور ہی نہیں تھا۔ لیکن تعلیم یافتہ بھی بدتمیزی سے بات کرنا دینی مزاج کے خلاف سمجھتے تھے۔ مسٹر جناح کے انتقال کو اب تو 68برس ہو گئے لیکن وہ جو اانگریزی تعلیم یافتہ لڑکوں اور لوگوں کو بدتمیزی کی تعلیم دے گئے تھے وہ اس لئے تھی کہ اپنے نواسوں کے بقول وہ مسلمان نہیں بورے خوجے تھے یہ مسلمانوں کی بدبختی ہے کہ انہیں قاعد اعظم بنا کر ان کی پرستش شروع کر دی۔ اور آج بھی ہندوستان میں ایسے بہت ہیں جو دل میں جناح کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور اپنے عالموں کو علم دین پڑھانے کی ایسی ہی کوشش کرتے ہیں جیسی جناح کرتے تھے۔ اور پاکستان کے مسلمان اس کے باوجود ان کے مزار پر فاتحہ پڑھنے جاتے ہیں جب کہ جانتے ہیں کہ انہیں قرآن پڑھنا نہیں سننا بھی گوارہ نہیں تھا۔ اور قانون سازی اور دستور ساز اسمبلی کے جتنے بھی اجلاس ان کی زندگی اور ان کی صدارت میں ہوئے ان کا افتتاح تلاوت قرآن سے نہیں ہونے دیا۔ یہ اس دن ہوا جب مولانا شبیر احمد عثمانی کی صدارت میں جناح کی بیماری کے بعد اجلاس ہوئے ان میں خود مولانا نے تلاوت فرمائی اور اجلاس شروع کیا۔ ہمارے عزیز دوست وقار رضوی صاحب نے نہ جانے کیوں دعوت فکر دے ڈالی؟ اورصلائے عام ہے کہ جو مولویوں کو گالیاں دینا چاہے ان کے لئے اخبار کا پہلا صفحہ حاضر ہے۔ انہوں نے لکھ دیا ہے کہ پڑھائی میں سب سے کمزور بچے کو مولوی بننے کے لئے مدرسے بھیجا جاتا ہے۔ ہمارے باپ پانچ بھائی تھے تین کو دادا صاحب نے مولوی بننے کے لئے مدرسے بھیجا۔ ہمارے باپ اپنے خاندان میں سب سے تیز تھے اور چچا سے بڑا حکیم سنبھل میں کوئی نہیں تھا۔ ہم بھی چار بھائی ہیں تین صرف مدرسوں میں پڑھائے گئے ہیں وقارصاحب کی نظر میں جو تین دانشور سب سے آسمانی ہوں ان تینوں کو 12گھنٹے کے لئے ہم تین بھائیوں کے پاس لے آئیں۔ اور شام کو ان کی علمی لاشیں آکر لیجائیگا۔ چودھری سبط محمد نقوی ،مولانا سید علی نقی، مولانا سید کلب صادق اور اردو دنیا میں پرچم لہرانے والے کتنے ہیں جو سلطان المدارس سے نکلے ہیں؟ ان کی گنتی کسی حساب داں سے کرا لیں۔ جین برادری میں اس لئے کوئی جاہل نہیں ہے کہ ان میں کوئی مولوی نہیں ہے۔ یاد رکھئے یہودیوں میں بھی کوئی جاہل نہیں ہے اور وہ سب اس لئے جہنم میں جائیں گے کیوں کہ ان میں کوئی مولوی نہیں ہے۔ اقتدار فاروقی صاحب چرچ میں پادری کی تقریر سن کر اس لئے متاثر ہوئے کہ وہ پی ایچ ڈی تھا۔ لیکن وہ ہم سے اور آپ سے زیادہ جانتے ہونگے کہ چرچ ویران ہو کر بک رہے ہیں اور یورپ میں انہیں مسجدوں کے لئے مولوی خرید رہے ہیں۔ مسلمانوں میں بہت اچھے بھی ہیں اور بہت برے بھی اس طرح ہر مذہب اور ہر سماج میں ہیں ڈاکٹر ہر مذہب کے ہیں ان میں مسیحا بھی ہیں اور ڈاکو بھی اور زیادہ تر ڈاکو ہیں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے جتنے حرام خور ملیں گے اتنے بڑے مدرسوں میں نہیں ملیں گے۔ اسکول اور کالج جگدیش گاندھی بھی چلا رہے ہیں اور سنی اور شیعہ مسلمان بھی۔ جگدیش گاندھی سے زیادہ نیک نام کوئی مسلمان نہیں ہے اور مسلم کالج اور اسکول جو دانش وروں اور غیر مولویوں کے ہاتھ میں ہیں سنا ہے ان کے قدموں پر سر رکھ کر شیطان یہی کہتا ہے یا استاذ! اخبارات صرف لکھنؤسے ہی سیکڑوں نکل رہے ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جو واقعی اخبار ہیں اور وہ بھی ہیں جس کی 50کاپی چھپتی ہیں اور حکومت کے رجسٹرمیں پچھتر ہزار لکھے ہوئے ہیں۔ اور ایسے اخبار بھی ہیں جنکا ایک پرچہ اگر ضرورت پڑے تو ہزار روپئے میں بھی نہ ملے مگر سرکاری اشتہار سب سے زیادہ انہیں ملتے ہیں۔ ہم بڑی محبت سے لکھ رہے ہیں کہ مولویوں کو گالی دینے سے پہلے تین کلیاں ضرور کر لیں اس لئے کہ مولوی جیسا بھی ہے سو دانشوروں سے اچھا ہے۔ صرف اس لئے کہ وہ دین کو جانتا بھی ہے۔ دانشور تو اس لئے خطرناک ہے کہ نزلہ کاعلاج بھی نہیں جانتا اور کینسر کا علاج کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ پروردگار قلم دے تو لکھنے کی نیک توفیق بھی دے۔