آج کراچی سے جناب سید منور حسن صاحب کی رحلت کی خبرآئی ہے۔ آپ کی جدائی کے ساتھ پاکستان جماعت اسلامی کی تاریخ کا ایک باب بند ہوگیا ہے، مرحوم قاضی حسین احمد کے بعد جماعت کے چوتھے امیر منتخب ہوئے تھے، وہ اپنے من کی بات سیاسی اور وقتی مصلحتوں سے بلند ہوکر کہتے والے انسان تھے،شاید اس لئے دوسری بار امیر منتخب نہ ہوسکے، وہ بانی تحریک کے بعد پہلے امیر تھے جو علمی وتحقیقی کا پس منظر رکھتے تھے، اور امید تھی کہ جو جماعت کتاب اور لٹریچر سے تعلق کی ایک شناخت رکھتی تھی، بجھتی ہوئی اپنی اس شناخت کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہوگی، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
سنہ ۱۹۹۰ کی دہائی تک کراچی کے حلقہ کا مستقل ایک وزن ہوا کرتا تھا، چودھری غلام محمد، محمود اعظم فاروقی، پروفیسر عبد الغفور احمد۔ نعمت اللہ خان، عبد الستار افغانی ، سید منور حسن جیسے نامور یہاں جمع تھے۔پروفیسر خورشید بھی اسی تسبیح کا ایک دانہ تھے، ان حضرات کی دلچسپی اور محنت سے یہاں پر روزنامہ جسارت کے پہلو میں ادارہ معارف اسلامی کا قیام عمل آیا تھا، یہیں سے چراغ راہ کے نام سے ایک معیاری اور دستاویزی نوعیت کا علمی مجلہ نکلا کرتا تھا، لیکن جب لاہور میں بھی ایک نئے ادارہ معارف اسلامی کی داغ بیل ڈالی گئی، اور مرکز کے ذمہ داران کی توجہات اور وسائل اس کی طرف مڑ گئے تو مختصر مدت میں شاندار علمی خدمات کی انجام دہی کے بعد یہ قیمتی ادارہ نام کے لئے رہ گیا، اس کی رمق و دمق جاتی رہی ، اب تو لاہور کے ادارے کا بھی نام سننے میں نہیں آتا۔ سید منور حسن کا میدان بنیادی طور پرعلمی تھا، شاید وہ جماعت کے منفرد چوٹی کے مقرر تھے، جن کے یہاں علم کی روانی ، جوش جذبہ ،اور ششتہ بیانی یکجا ہوگئے تھے۔ جب بولتے تو زبان سے پھول جھڑتے ہوئے محسوس ہوتے تھے،عام لوگوں کو شاید معلوم نہ ہو کہ برصغیر کے مسلمان تقریروں اور خطابت کے رسیا چلے آرہے تھے، انہیں چھ چھ گھنٹے مسلسل تقاریر سننے کی عادت سی پڑ گئی تھی، شورش کاشمیری نے کہیں لکھا ہے کہ نہرو جی نے ایک ملاقات میں ان سے دریافت کیا تھا کہ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کیسے ہیں؟ کیا لوگوں کے پاس اب بھی اتنا وقت ہے کہ ان کی صبح تک چھ سات گھنٹے کی تقاریر سنیں؟، برصغیر کے اردو داں حلقے میں شاید جماعت اسلامی کے خطیبوں نے پہلے پہل تیاری اور ارتکاز کے ساتھ چالیس منٹ کی حد میں تقریروں کو محدود کرنے کی شعوری طور پر کوشش کی تھی ، سید منور حسن بھی انہی خطیبوں میں تھے، ان کے درس وتقاریر عموما ااسی حد میں رہا کرتی تھی۔
ایسا لگتا ہے کہ سید منور حسن مرحوم کو اللہ نے جن صلاحیتوں سے نوازا تھا، ان سے جماعت والوں نے صحیح استفادہ نہیں کیا، ورنہ اپنے اخلاق خداداد علمی صلاحیتوں میں اپنے معاصرین سے وہ بہت بلند تھے۔ وہ ایک بااصول داعی تھےجو اپنے اصولوں پر جھکنا نہیں جانتا، دل کی بات کہنے کے لئے آگے پیچھے نہیں دیکھا کرتا ،جنہیں سیاست کے گندے بازار میں بولی لگانا نہیں آتا۔ گرگٹ کی طرح وہ اپنا رنگ بدل نہیں سکتے ، لیکن دنیا کے اس ماحول میں وہ اجنبی بن کر رہ جاتے ہیں ا، ایسے لوگوں پر دنیا چند روز ٹسوے بہاتی ہے اور پھر انہیں بھول کر نئی رہ گزر پر نکل پڑتی ہے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔