حج کا سفر ۔۔۔ کچھ حج کمیٹی کے طریقہ کار کے بارے میں (۱  )۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

09:46AM Tue 5 Jul, 2022

کچھ کمیٹی کےطریقہ کار کے بارے میں

وہ بیچارہ جو سفر حج کی اجازت، حج کمیٹی یامغل لائن سے حاصل کرنے کے سلسلے میں ایک بار نہیں لگاتار کئی بارنا کام رہا ہو اگر ذرہ بے چین اور بیتاب ہوکر یہ فریاد کرتا نظر آئے

دل کے ٹکڑے، میں بغل بیچ لئے پھرتا ہوں

کچھ علاج اس کا بھی اے شیشہ گراں! ہے کہ نہیں؟

 اور اس کا یہ دلدوز نامہ اراکین کی کمیٹی کے ایوانوں یا مغل لائن کے عالی شان آہنی دفتر کے دیواروں سے ٹکرائے تو شاید برا ما ننے کی بات نہ ہو گی، نہ حج کمیٹی والوں کے لئے نہ مغل لائن کے ذمہ داروں کے لئے اور نہ ان خود مختاروں کے لئے جو حج کمیٹی کی تشکیل کے ذمہ دار ہیں ۔

متواتر نا کام رہنے والے عازم حج کی اس فریاد و فغاں اور اس قلبی کیفیت کی طرف رسما یا محض قیاس یا صرف مشاہدے سے نہیں بلکہ ذاتی تجربے کی روشنی میں اشارہ کیا گیا ہے ۔

آج جو "حج کا سفر" قلم بندکر رہا ہے وہ سفر سعادت کے شرف سے شاد کام ہونے سے قبل لگا تا ر چار سال تک اسی کیفیت میں لاچاری اور بے بسی کے ساتھ مبتلا رہ چکا ہے تھوڑی دیر کے لئے اس سلسلے میں "آپ بیتی" کہہ لینے کی اسے اجازت دیدیجیے

شروع 1961  میں سفر حج کے مصارف کا انتظام ایک ذریعہ سے ہوا جس کا انکشاف، ایک عہد اور قرار کے تحت کیا نہیں جاسکتا، انتظام ایسے وقت ہوا جب حج کی بکنگ کی آخری تاریخ گزر چکی تھی، اب درخواست بھیجنا بے سود تھا اور درخواست بھیجنے کی راہ میں ایک فرض بھی حائل نظر آرہا تھا، یہ فرض خالص شرعی اور دینی تھا یعنی اپنی والدہ سے اجازت حاصل کرنا حج فرض تک کے لئے ضروری ہے چہ جائیکہ حج نفل -

مطلب یہ ہے کہ اگر کسی خوش نصیب کو حج کی استطاعت حاصل ہو چکی ہے اور شرائط حج پوری طرح پائے جاتے ہیں تو اس پر فرض ہوگیا، لیکن اسے اپنے والدین سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے ، اب اگر والدین اجازت نہیں دیتے تو دیکھنا ہوگا کہ ان کا اجازت نہ دینا کیا محض محبت کی وجہ سے ہے کہ اتنے لمبے عرصے کے لئے وہ اولاد سےدور ہنے پر تیار نہیں یا اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنی ضعیفی یا حاجتمندی کی وجہ سے اولاد کی ہر وقت موجودگی کے محتاج ہیں، غربت یا حاجت مندی کی رکاوٹ تو مالی بندوبست کر دینے سے دور ہوسکتی ہے لیکن کبرسنی اور ضعیفی کی وجہ سے جواحتیاج والدین کو اولاد کی ہوتی ہے اس کا رفع کرنا اگر چہ دوسروں کو مامور خدمت کر کے ایک حد تک ممکن ہے لیکن کما حقہ ممکن نہیں ہے ۔

 علماء کی رائے میں ایسی صورت میں جب والدین یاد دنوں میں کوئی ایک، خاص کر والد ہ اولاد کی خدمت کی محتاج ہوں تو اولاد کو اگرچہ اس پر حج فرض ہوچکا ہو۔ بلا اجازت والدین حج کے لئے جانا جائز نہیں ہے۔

یہ تو حج فرض کی بات ٹھہری ، اب اگر کسی پر سرے سے حج فرض ہی نہیں ہے اور اسے حچ کا موقع مل گیا ہے تو اس کا یہ حج نفل حج ہوگا، نفل حج، حج فرض سے درجے میں بہت کم ہے۔

 ہمارے محترم حکیم مولانا شاہ واثق الیقین سجادہ نشین خانقاه کرسی (فاضل فرنگی محل) نے اس سلسلے میں اپنا ایک واقعہ سنایا جو یہاں نقل کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

 ۱۹۲۳ میں واثق میاں کے خاندان کے ایک مخلص اور متمول مرید نے جو اپنے متعلقین کے ساتھ حج کو جارہے تھے پیش کش کی کہ ان کے پیر زادے بھی اگر ساتھ چلیں تومزید باعث سعادت ہو گا، اس زمانے میں واثق میاں کی والدہ  علیل تھیں اور لکھنؤ میں اطبائے جھوائی ٹولہ کے زیرعلاج تھیں اس پیشکش نے انہیں بے چین کر دیا اور جانے کے لئے ایک گونہ وہ تیار ہو گئے لیکن عالم دین ہونے کی حیثیت سے مسئلے کا شرعی پہلو ان کے پیش نظر تھا اور وہ آخری فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے، قیام لکھنؤ کے زمانے میں حضرت مولانا عین القضاة رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں وہ حاضر ہوا کرتے تھے، مولانا مرحوم ہی سے انھوں نے اس مسئلے کی بابت استفسار کیا، والدہ کی علالت، مرید کی پیش کش اور سفرحج کے لئے اپنی بے چینی سب کچھ عرض کر دیا، مولانا عین القضاۃ نے جواب میں فرمایا مولوی صاحب ! مولوی صاحب ! نفل کو فرض پر مقدم کر رہے ہیں؟

 گو یا ۔۔۔ اس وقت والدہ کی علالت میں تیمار داری کرنا فرض اور حج جس کی استطاعت بالواسطہ نمودار ہوئی ہے نفل ہے ۔

 یہ محسوس فرماتے ہوئے کہ جواب نے واثق میاں کو اور بے چین کر دیا ہے مولانا عین القضاة  نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا: "مولوی صاحب گھبرانے کی بات نہیں ان شاءاللہ آپ حج کو جائیں گے اللہ تعالی انتظام کرے گا۔"

 یہی فرض اور نفل کی بحث اپنی راہ میں بھی کھڑی نظر آ ئی ۔ یہاں بھی یک سر نفل حج کا معاملہ تھا جو بغیر والدہ کی اجازت کے جائز ہی نہیں پھر نفل حج میں یہ دیکھنے کا بھی موقع نہیں کہ والدین اجازت جو نہیں دے رہے ہیں تو کیوں ؟ ان کی محبت، احتیاج ضرورت اور خدمت کی حاجت وغیرہ پر نظر ڈالنے کا موقعہ شریعت نے صرف حج فرض کے سلسلے میں دیا ہے۔

ہماری والدہ، اپنی اور ہماری تمام بے سروسامانیوں کے باوجود حج کرنے کی بے حد متمنی ، ان کے جانے کی صورت یہی کہ محرم کی حیثیت سے بیٹا سا تھ ہو ۔

ان کی خدمت میں اجازت کے لئے عرض معروض کی تو صاف جواب ملا کہ جب تک ہمارا بھی انتظام نہ ہو جائے تم کیسے جاؤ گے ؟"

 ان کا یہ جواب بے حد دل شکن معلوم ہوا تھا، صاف لفظوں میں یہ ہے کہ بہت کھلا تھا، مناسب الفاظ مگر  نامناسب لہجے میں عرض کیا، "اس کا مطلب یہی ہوا کہ ہم بھی نہ جائیں، کسی ایک مخلص پر یہ بار کون ڈال سکتا ہے کہ ہمارے اور ہماری امی دونوں کے لئے انتظام کر دیجئے۔"

 بات رفت گزشت ہوگئی کچھ دنوں کے بعد غالبا ہماری افسردگی کو دیکھ کر امی نے اجازت دیدی اور ہم نے بھی بیحیائی لاد کر جگہ حاصل کر نے کی تدبیریں سوچنا شروع کردیں، تاریخ تو گزر چکی تھی، براہ راست درخواست پہو نچنے کا سوال ہی باقی نہیں رہا تھا۔

(جاری)