ملک و ملت کے گلِ صد رنگ قاضی عدیل عباسی (چوتھی قسط)۔۔۔از: حفیظ نعمانی

Bhatkallys

Published in - Other

12:20PM Tue 6 Jun, 2017
’’زمیندار کے ایڈیٹر کے ساتھ میرا نام پرنٹر پبلشر بھی درج کرادیا گیا جس کا مجھے اب علم ہوا۔ زمیندار کا طریقہ یہ تھا کہ پرنٹر پبلشر نہ جانے کتنے تھے۔ کہیں فضل محمد خاں انصاری کہیں قندھاری کہیں لالہ ڈونگر مل اور کہیں لالہ رام سرن دت یا حافظ سلطان احمد یا حافظ نظام الدین۔ مجھے جب مدیر مسؤل لکھتے تھے تو قاضی عدیل عباسی بی اے لکھتے تھے اور جب پرنٹر پبلشر لکھتے تھے تو صرف قاضی محمد عدیل لکھتے تھے۔ حالانکہ میں نے کبھی پرنٹر پبلشر کا ڈکلیئریشن نہیں دیا۔ اس کا نتیجہ تھا کہ میرے اوپر سات مقدمے 124-A میں قائم ہوئے۔ چار تو روزانہ رکھے گئے اور تین چلا دیئے گئے۔ میں نے تو بیان دینے سے انکار کردیا تھا لیکن مجسٹریٹ نے خود ڈکلیئریشن منگوائے اور دو میں مجھے رہا کردیا اور تیسرے میں سزا دی۔ یہ تھی موت و حیات کی وہ لڑائی جو ہر طرح کے حربوں سے لڑی جارہی تھی۔‘‘ ’’میں (ایک سال کی سزا پوری کرکے) جیل سے نکلا تو غلام رسول مہر پھاٹک پر ملے سراج احمد کاتب بھی موجود تھے جو برابر میری مدد کیا کرتے تھے بھائی صاحب نے روپیہ بھیج دیا تھا۔ انہوں نے کرایہ اور خرچ کے لئے میرے حوالے کیا۔ جیل جانے سے قبل میری صحت ابتر ہوچکی تھی جیل میں بس ایک روٹی صبح آٹھ بجے اور ایک روٹی شام کو دونوں وقت نمک مرچ سے کھاتا تھا۔ جو وہاں کے باورچی کا طریقہ تھا۔ ایسے بھی ساتھی تھے جن کا پیٹ چار روٹی سے بھی نہیں بھرتا تھا وہ میری بقیہ تین روٹی بھی لے جاتے تھے۔ باورچی نے چوری چوری یہ کام بھی کیا تھا کہ ہری مرچ سوراخ کرکے کڑوے تیل میں ڈال دی تھیں چند روز کے بعد جب وہ تیار ہوگئیں تو مجھے نذر کردیں۔ اس کی اس عقیدت اور محبت کی جو داد میرے دل میں تھی اس کا بیان مشکل ہے۔ ان ہری مرچوں سے روٹی کھانے کا لطف کباب یا بریانی سے کم نہ تھا۔ ایک دن جب میں یرقان میں مبتلا ہوکر اسپتال میں داخل تھا ہم اور ایک ہندو رئیس زادے ایک چھوٹی کوٹھری میں بند کردیئے جاتے تھے تو ایک دن میں نے ایک روٹی ہاتھ پر رکھ کر اور اسے نمک مرچ سے کھاکر ہاتھ جھاڑے تو ہمارا رفیق جو بڑی حسرت سے یہ منظر دیکھ رہا تھا، بولا، کیا یہاں آنے سے پہلے کبھی یہ سوچا تھا کہ ایسا کھانا بھی کھایا جائے گا؟ لاہور میں اییک ممتاز حکیم فقیر محمد چشتی بڑے حاذق تھے ان کے کارنامے مجھے یاد ہیں۔ میرے بڑے کرم فرما تھے انہوں نے میرے لئے ماء اسح اور معجون بناکر بھیج دی ماء اسح اس درجہ خوش رنگ اور معجون کتنی دیدہ زیب تھی؟ حکیم صاحب پہلے کہا کرتے تھے کہ جاڑے آئیں تو علاج کروں۔ یہ دونوں دوائیں آئیں اور جیلر صاحب کے کمرے کی زینت بن گئیں۔ باہر نکلنے پر منتظمین زمیندار نے مجھ سے کہا کہ میں گھر نہ جاؤں اور اخبار کا چارج لے لوں۔ مجھے یہ بات بہت گراں گذری۔ ان لوگوں کو معلوم تھا کہ زمیندار میں کام کرنے کے اوقات اور جیل کی رہائش ملاکر مجھے 21 ماہ کے قریب ہوگئے تھے اور اس درمیان میں میں صرف ایک ہفتہ کے لئے گھر گیا تھا۔ اسی دوران میرے جدمکرم کا انتقال ہوگیا تھا، میری صحت بھی خراب تھی ان حالات میں یہ مطالبہ کہ میں پھر کام شروع کروں اور گھر نہ جاؤں، مجھے بہت شاق گذرا اور یہ پہلا جھٹکا تھا جو میدانِ صحافت میں محسوس کیا۔ میں نے سوچا کہ یہ منتظمین اخبار بڑے ہی خودغرض اور تنگ دل ہوتے ہیں۔ قاضی صاحب گھر پر رہے اور صحت کے بعد کیا کیا جائے کہ کشمکش میں مبتلا رہے؟ اپنے وقت کے صحافت کے امام سید جالب دہلوی بھی قاضی صاحب کی اہلیت کی قدر کرتے تھے۔ قاضی صاحب چاہتے تھے کہ دو چار گھنٹے کوئی اور کام کرکے اس کی آمدنی سے وکالت کا امتحان دے لوں۔ قاضی صاحب سید جالب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے تمام حالات سننے کے بعد فرمایا کہ چار گھنٹے یا دو گھنٹے اخبار میں کام کیجئے اور شام کو وکالت کا کلاس ہوتا ہے وہاں تعلیم شروع کردیجئے۔ نہ جانے کیسے ان ہی دنوں میں انجمن اسلامیہ دہلی سے پبلسٹی انچارج ہونے کا پیغام آگیا۔ ایک سو پچاس روپئے تنخواہ قاضی صاحب جالب صاحب سے اجازت لے کر دہلی چلے گئے یہاں مولانا مظہر الدین کے ساتھ رہنے لگے جو ’’الامان‘‘ کو نگینہ سے دہلی کے حکیم اجمل خاں صاحب کی سرپرستی میں اٹھا لائے تھے اور ایک وسیع مکان میں رہتے تھے۔ کچھ دنوں بعد ان کے قدیم رفیق مجید الدین صاحب مل گئے دہلی میں ان کے والد خان بہادر بہاء الدین صاحب ڈپٹی کلکٹر کا مکان تھا۔ اور خود علی گڑھ میں لیکچرار تھے۔ قاضی صاحب نے دہلی میں کچھ پیسے کما لئے اور علی گڑھ جاکر داخلہ لے لیا۔ قاضی صاحب لکھتے ہیں کہ۔ ’’علی گڑھ کا داخلہ جرأت رندانہ ہی تھا کچھ سوچا ہی نہیں کہ خرچ کہاں سے آئے گا؟ لیکن اللہ کی دین کہ اسی زمانہ میں کان پور سے ایک اخبار ’’صدائے مسلم‘‘ نکلا اس نے مجھے تیس روپئے ماہوار دین یکو کہا اور اس شرط پر کہ ہر روز میں ادارہ لکھ کر بھیج دوں۔ چنانچہ میں سہ پہر کو لائبریری جاکر وہیں ایک ایڈیٹوریل گھسیٹ دیتا اور سپردِ ڈاک کردیتا۔ لیکن ابھی تو صرف تیس روپئے کا بندوبست ہوا تھا۔ فاروق صاحب میاں صاحب گورکھ پور کے منیجر تھے ان کے چھوٹے بھائی کو لاکر انہوں نے داخل کیا تھا اور تیس روپئے ماہوار میرا ٹیوشنی کردیا۔ اب اس زمانہ کے لئے یہ رقم کافی تھی۔ اب تو میرا حال ہدہد اشعراء منقارِ جنگ بہادر سے بھی بہتر ہوگیا۔ میری ہیئت میں تو کوئی فرق نہیں آیا لیکن سرسید ہال کی اس زمانہ کی امارت پسندو کے سامنے شرمندہ بھی نہیں ہونا پڑا۔ اور نہ کسی سے کچھ مانگنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس وقت ایم اے پریویس کا امتحان نہیں ہوتا تھا۔ وکالت کا امتحان دیا اور یونیورسٹی میں فرسٹ آنے کی وجہ سے بیس روپئے ماہوار وظیفہ مقرر ہوا۔ بھائی صاحب نے سوچا کہ لڑکا ہاتھ سے گیا اور اب تو وظیفہ بھی پاگیا۔ انہوں نے لکھا کہ تم کو خرچ گھر سے ملے گا اس طرح یہ آزمائش ختم ہوئی۔ قاضی عدیل عباسی صاحب جب علی گڑھ گئے اور مسلم یونیورسٹی کو ہر طرف سے دیکھا تو پھر اس سے وہ رشتہ قائم کیا جو آخری سانس تک رہا۔ اپنی پوری زندگی علیگ ہونے پر فخر، علیگ برادری کے اہم ستون ہونے کی وجہ سے وہ کورٹ کے ممبر بھی برسوں رہے اور حکومت سے جو اختلافات ہوئے ان میں اپنی علیگ برادری کے ساتھ ہی نہیں آگے آگے رہے بلامبالغہ اس کے لئے سیکڑوں تقریریں کیں اور سیکڑوں مضامین لکھے۔ مسعود الحسن عثمانی نے جو کتاب میں جھلکیاں دی ہیں وہ کتاب کے 147 صفحات میں سما سکی ہیں۔ قاضی صاحب لکھتے ہیں۔ ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے جو لوگ وابستہ نہیں رہے ہیں وہ علی گڑھ کی روایات کا نام سن کر مسکرا دیتے ہیں اور اکثر طنز کرنے لگتے ہیں اور بعض بے راہ رویوں یا بے عنوانیوں یا غلط کاریوں کو روایات قرار دے کر ان کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ علی گڑھ اپنی روایات کی وجہ سے زندہ تھا اور اگر وہ زندہ رہے گا تو ان ہی روایات کی بدولت زندہ رہے گا۔ میں جب علی گڑھ میں تعلیم پاتا تھا اس وقت میں نے اس کا کچھ حصہ دیکھا اور بہت سا دوسروں کی زبانی سنا۔ ان میں کچھ باتیں ضرور استعجاب انگیز تھیں جنہیں زمانۂ حاضرہ میں قابل قبول یا قابل عمل قرار نہیں دیا جاسکتا مثلاً علی گڑھ سے محبت رکھنے کے سلسلے میں یہ واقعات سنے کہ لڑکے جو اچھے گھرانے کے تھے اور روزی کمانے کی فکر سے آزاد علی گڑھ میں رہنے کے لئے قصداً فیل ہوجایا کرتے تھے۔ ایک صاحب کا ذکر ہے کہ الہ آباد امتحان دینے گئے اور امتحان ختم ہونے سے پہلے واپس آگئے۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا، تو کہا کہ ٹینس کا میچ تھا ایک پرچہ رہ گیا اب مزید پرچے کرنا بیکار تھا۔ دوستوں نے فہائش کی کہ یہ کیا کیا؟ کہ پرچہ چھوڑکر دیا تو گرم ہوکر بولے کہ آپ لوگ بھی عجیب ہیں۔ میں میں امتحان کے لئے ٹینس کا میچ چھوڑ دیتا؟ پھر کچھ دیر کے بعد سنجیدگی سے کہا کہ بھائی بات یہ تھی کہ پرچے اچھے ہوگئے تھے اندیشہ ہوا کہ کہیں پاس نہ ہوجاؤں۔ آخری سال ہے پھر اباجان کب علی گڑھ میں رہنے دیتے؟ ان حضرات کی ایک غول تھی جو اچھے کپڑے پہنتے تھے گھومتے تھے اور بس برائے نام اپنی تعلیم کی جانب دھیان دیتے تھے لیکن یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ یہ طبقہ بیکار یا مضرت رساں تھا۔ یہ سب علی گڑھ کی اخلاقی بلندی طالب علموں کے اونچے کردار اور کسی قسم کی بے عنوانی نہ ہونے پائے اس کے امین تھے۔ بہت چھوٹی سی چھوٹی چیز پر نگاہ رکھتے تھے اور کہیں لغزش یا کاگذر نہیں ہونے دیتے تھے۔
(جاری)