سچی باتیں۔۔۔ بدگمانی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:11AM Sat 20 Mar, 2021

 11928-04-06

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (نور۔۴)

جو لوگ پاک دامن عورتوں پر عیب لگاتے ہیں، اور پھر چار گواہ اس پر نہ لاسکے، تو مارواُن کے اسی کوڑے، اور کبھی ان کی گواہی نہ قبول کرو، اور وہی لوگ نافرمان ہیں۔

إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمٌ ، وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ ، يَعِظُكُمَ اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (نور ۱۵۔۱۷)

جب تم اس بہتان کو اپنی زبانوں پر لانے لگے اور اپنے منہ سے وہ باتیں کہنے لگے ، جن کا تمہیں کوئی علم نہ تھا، اور تم اُسے ہلکی بات سمجھتے تھے، حالانکہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات تھی۔ اور جب تُم نے سناتھا، اُسی وقت کیوں نہ کہہ دیا، کہ ہمارے لئے یہ زیبا نہیں، کہ ہم ایسی بات زبان سے نکالیں، توپاک ہے، یہ بہتان عظیم ہے! اللہ تمہیں نصیحت کرتاہے، کہ اگر تم مومن ہو تو اس جیسی بات پھر کبھی نہ کرنا!

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آَمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةِ(نور ۱۸)

یہ کلام مجید کی تین آیتیں ہیں، اور آپ جس فرقہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں، اگر مسلمان ہیں، تو کلام مجید کی ہرآیت پر یقینا ایمان رکھتے ہوں گے۔ پہلی آیت میں یہ ہے، کہ بغیر چار چشمدید گواہوں کے کسی پاکدامن مسلمان خاتون کی عصمت پر عیب لگانے والوں کی سزا یہ ہے، کہ اُن کے اسی کوڑے مارے جائیں، اورآئندہ عمر بھر کے لئے اُن کی گواہی غیر معتبر اور مردود ٹھہرجائے، اور اللہ کی طرف سے اس کا اعلان ہوتاہے کہ ایسے تُہمت لگانے والے فاسق ہیں۔ دوسری آیت میں ، ام المؤمنین بی بی عائشہ صدیقہؓ کی بابت ایک بیہودہ روایت پھیلانے والوں سے خطاب ہے، کہ جس اتہام کا تمہارے پاس قطعًا کوئی ثبوت نہ تھا، تم نے اپنی زبان سے اس کا چرچا کیوں کیا، اور اس روایت کے گڑھنے والوں سے فورًا کہہ کیوں نہ دیا، کہ ہم ایسی بیہودہ بات زبان سے نہیں نکال سکتے، اور آئندہ کے لئے کسی پاکدامن مسلمان بیوی کی عزت وناموس کی بابت ایسی بے احتیاطی اور بے پروائی نہ برتنا۔ تیسری آیت کا مفہوم یہ ہے، کہ جو لوگ قوم میں بدکاری اور بے حیائی کے تذکرے پھیلاتے رہتے ہیں، اُن کے لئے دُنیا اورآخرت، دونوں میں سزا، اور بہت سخت سزا ہے۔ اِن آیات ِ قرآنی ہی کی طرح صحیح بخاری کی ایک حدیث میں، شرک، قتل، سودخواری، وغیرہ سات سب سے بڑے گناہوں میں ایک گناہ تہمت بدکاری کا بھی ارشاد فرمایاگیاہے۔

اللہ اوراُس کے رسول کے یہ احکام اگرمحض سُن لینے اور پڑھ لینے کے لئے نہیں، بلکہ عمل کے لئے بھی ہیں، تو ارشاد ہو، کہ خود آپ کا، آپ کے دوستوں کا، آپ کے عزیزوں کا، آپ کے کنبے اور برادری والوں کا کہاں تک ان پر عمل ہے؟ مانا ، کہ آپ اس قسم کی روایات از خود نہیں گڑھتے، لیکن جب کبھی سُن پاتے ہیں، تو ان کے قبول کرلینے میں، اور پھر اُس کا چرچا کرنے میں، آپ کے کان اور آپ کی زبان نے کبھی احتیاط برتی ہے! آپ کے جاننے والوں میں خدا معلوم کتنے مرد اور کتنی عورتیں ایسی ہیں، جن کی بابت آپ نے بدچلنی، آوارگی وبے عصمتی کی روایات شوق کے کانوں سے نہیں سنیں، اور بے پروائی کی زبان سے نہیں دوہرائیں! حالانکہ شریعت میں اسی کوڑوں اور گواہی کبھی آئندہ نہ قبول ہونے، اور فاسق قرار پاجانے کی جو سزائیں مقرر ہیں، وہ صرف گڑھنے والوں ہی کے لئے نہیں، بلکہ اِن تہمتوں کی تشہیر کرنے والوں، ان کا چرچا پھیلانے والوں کے لئے بھی ہیں۔ آپ کی شریعت نے تو اس باب میں اتنی سختی برتی ہے، کہ اگراس دعوے پر بجائے چار گواہوں کے تین گواہ مل سکے، تواُن تینوں پر بھی حد شرعی جاری ہوگی، اور آپ ہیں، کہ تین گواہ کیا معنی، ایک گواہ کی بھی ضرورت نہیں سمجھتے، اور محض اپنی زبان کے بے احتیاطی کے باعث خدانخواستہ اپنے کو دنیا وآخرت دونوں میں عذا ب الیم کا مستحق بنارہے ہیں!آج ہمارے گھرانوں میں، ہمارے کُنبوں میں، ہماری برادری میں کتنی رنجشیں، کتنی کدورتیں، کتنی عداوتیں، محض اسی بے احتیاطی نے پھیلا رکھی ہیں!آج اگر شریعت کی صرف اسی ایک سیدھی اور سہل ہدایت پر عمل ہوتا، تو ہماری خانگی زندگی پاک محبتوں اور اخلاص مندیوں کی کیسی جیتی جاگتی تصویر بنی ہوتی!

http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/