کوّا بھی ہنس کے نقشِ قدم پر

Bhatkallys

Published in - Other

12:37PM Sun 6 Mar, 2016
حفیظ نعمانی آگرہ میں وشو ہندو پریشد کے ایک کارکن کی مسلمان لڑکوں کے ہاتھوں معلوم نہیں کیسے موت ہوگئی۔ موت تو ہندو کے ہاتھ سے مسلمان کی، مسلمان کے ہاتھ سے مسلمان کی اور ہندو کے ہاتھ سے ہندو کی ہوتی ہی رہتی ہے۔ لیکن اُترپردیش میں آئندہ سال اسمبلی کا الیکشن ہونے والا ہے اور 25 برس سے بی جے پی نے ہر ممکن کوشش کرلی لیکن اسے حکومت کرنے کا کسی نے موقع نہیں دیا۔ اس لئے اس نے اب وہ پرانا نسخہ آزمانے کا شاید منصوبہ بنایا ہے کہ ہندو مسلمانوں کو لڑا دو جس کے نتیجہ میں ہندو ایک طرف آجائیں۔ آگرہ میں جو ہندو مارا گیا تھا، وشو ہندو پریشد نے اس کی سوگ سبھا منعقد کرنے کا پروگرام بنایا اور اس میں ایم ایل اے ایم پی کے علاوہ فروغ انسانی وسائل کی وزیر اسمرتی ایرانی کے نائب وزیر رام شنکر کٹھیریا کو بھی بلا لیا وہاں ہر کسی نے ایسی تقریر کی کہ سب کو مار مارکر تھانے میں بند کردینا چاہئے تھا۔ اور آگرہ کے ایم پی اور فتح پور سیکری کے ایم پی یہی چاہتے تھے کہ پولیس انہیں گرفتار کرلے اور وہ ملائم سنگھ اور ان کے بیٹے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کو ہندوؤں کی آواز دبانے والا کہہ کر بات کو بھاجپا بنام سپا بنادیں۔ سماج وادی پارٹی کے ہر لیڈر نے یہ تو کہا کہ یہ ملک مخالف بھاشن ہیں۔ لیکن پولیس سے بھی کہہ دیا کہ ان سے بولنے کی ضرورت نہیں۔ مشہور اخبار انڈین ایکسپریس نے اس کی رپورٹ چھاپ دی۔ اس کے علاوہ ٹی وی کے ہر چینل نے دن بھر چرخہ چلایا کہ یہ کہا، وہ کہا اور ایسا کہا کہ سنانے کے قابل نہیں اور ایسے ایسے کہا کہ دکھانے کے قابل نہیں ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بھی نائب وزیر کا نام لے لیا گیا جسے 21 مہینے سے کوئی گھاس ہی نہیں ڈال رہا تھا۔ اور اس نے سنگھ کی شاکھاؤں میں پڑھایا ہوا سبق کہ ’’جتنا چاہو جھوٹ بولو۔ جھوٹ بری بات نہیں ہے‘‘ کو یاد کیا اور کہہ دیا کہ میں نے کسی کا نام نہیں لیا۔ اور وہ جو وزیر اعظم ہیں جنہیں بیچارہ کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے فوراًبیگ میں سے ایک کلین چٹ نکال کر اسے تھمادی۔ وہ بھی کیا کرتے کہ دہلی اور بہار کی ذلت کے بعد ان کے پاس صرف کلین چٹ ہی رہ گئی ہیں۔ ہم اخبار میں تفصیل پڑھ کے اور بار بار ٹی وی پر سن کر یہ سوچنے لگے کہ ایک ہندو کے مرنے پر تو تلواریں سوتی جارہی ہیں۔ اور ہریانہ میں جو ایسے ہی 30 ہندوؤں کو جاٹوں نے مارا ہے۔ اور صرف مارا ہی نہیں بلکہ انہیں اس طرح برباد کیا ہے کہ اب وہ ہریانہ کے اگلے الیکشن تک پیٹ بھر کھانا کھانے کے قابل بھی نہیں رہے۔ اور ان سب سے زیادہ جاٹوں نے جو اُن کی بہنوں، بیٹیوں اور رشتہ کی بہنوں کے ساتھ جو کیا ہے جس کی نشانیاں اس طرح ملیں کہ سڑک سے کھیتوں میں لے جاتے وقت ان کے جسم سے ایک ایک کپڑا اُتارکر راستہ میں پھینکا اور کپڑوں کے اندر پہنے جانے والے کپڑے بھی راستہ میں پڑے ملے لیکن ہم نے نہیں سنا کہ ان کے غم میں کوئی سوگ سبھا ہوئی ہو۔ اور جاٹوں کے بارے میں وہ کہا ہو جو آگرہ میں مسلمانوں کو کہا۔ اور وہاں جاکر بھاجپا کے وزیر اعلیٰ سے معلوم کیا ہو کہ تمہاری پولیس اور وہ جو مرکز نے فوج بھیجی تھی اس نے یہ سب کیوں ہونے دیا؟ اور اگر اس وقت سب جاٹوں سے ڈر گئے تھے تو ہمت کرکے اب کیوں نہیں کرتے؟ کیا اس لئے کہ الیکشن ہریانہ میں اب چار سال کے بعد ہوں گے۔ ہم مسلمانوں سے تو کچھ نہیں کہیں گے۔ اس لئے کہ انہیں وہ سب معلوم ہے جو انہیں ایسے موقع پر کرنا ہے۔ اور وہ جو یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب مسلمان نہ بلوائیوں کو ماریں گے اور نہ فسادیوں کو بلکہ صرف انہیں نشانہ بنائیں گے جو اُن کی مدد کے لئے اپنے اسلحہ کے ساتھ اُن کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔ بس اسی سبق کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ البتہ ہم اکھلیش بابو سے کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کی پولیس بی جے پی کے فسادیوں کو تو مار نہیں سکے گی۔ آپ ان مسلمانوں کو بندوق کے لائسنس دینے میں رعایت سے کام لیں جو اسی حیثیت کے ہیں۔ آپ کے پاس یوں بھی مسلمانوں کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ رہے لائسنس تو اس میں صرف زبان کا ایک جملہ خرچ ہوگا۔ لیکن اس سے اتنا فائدہ ہوگا کہ آپ کی حکومت پھر بن جائے گی۔ وزیر اعلیٰ کو نہ جانے کس نے یہ بتایا ہے کہ چاہے پورا اُترپردیش ہائے ہائے کرے۔ آپ بس میٹرو چلادیجئے۔ پورا اُترپردیش آپ کو ووٹ دے دے گا۔ میٹرو بیشک ایک خوبصورت تحفہ ہے۔ لیکن حکومت تو قصبوں اور گاؤں میں رہنے والے بنواتے ہیں۔ وہ اگر میٹرو کو دیکھنا یا اس پر سواری کرنا چاہیں گے تو یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ لکھنؤ آئیں۔ لیکن لائسنس کی اہمیت یہ ہے کہ اگر فسادیوں اور بلوائیوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ ہر مسلمان گاؤں میں پچاس بندوقیں ہیں تو وہ ادھر کا رُخ نہیں کریں گے اور ایسے بزدل وزیر جو دن میں زہر پاشی کریں اور شام کو کہیں کہ میں نے کسی کا نام نہیں لیا۔ وہ نہ سوگ سبھا کرنے کے بارے میں سوچیں گے اور نہ ایک سر کے بدلے دس سر لانے کی بات کریں گے۔ وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ ہم نے الیکشن مینی فیسٹو میں عوام سے جتنے وعدے کئے تھے وہ سب پورے کردیئے۔ اُترپردیش کے بعض طبقے اس منشور کی ورق گردانی کررہے ہیں۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ سماج وادی پارٹی نے دو منشور چھاپے تھے۔ ایک صوبہ میں تقسیم کرنے کے لئے اور ایک حکومت کے لئے۔ انہوں نے وہ کردیا جو حکومت کے بجٹ میں تھا۔ اور یہ ہر پارٹی کرتی ہے۔ اس لئے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ منشور کا ذکر نہ کیا جائے بلکہ اگلے الیکشن کی تیاری کی جائے۔ اور وہ جو بندوق، ریوالور یا پستول کے لائسنس کی بات ہم نے چھیڑی ہے اسے اگلے الیکشن کی تیاری سے جوڑا جائے۔ ظاہر ہے کہ اگر فسادیوں سے اور ان کی حمایت کرنے والی پولیس سے مسلمان محفوظ رہ گئے تو ووٹ بھی شوق سے دیں گے۔ اور اگر رام شنکر کٹھیریا جیسے وزیر اپنی حرکتوں سے فضا خراب کرنے میں کامیاب ہوگئے تو الیکشن بھی خراب ہوجائے گا۔ ہم نے اسلحہ کے لائسنس کی بات چھیڑی تھی اس کی آخری بات اور کہہ دیں کہ مرکزی حکومت بھی دیکھ رہی ہے اور ہریانہ کی بھاجپائی سرکار بھی کہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی جاٹ مونچھ پر تاؤ دیتے گھوم رہے ہیں۔ کیا اس کی یہ وجہ تو نہیں کہ پورے ہریانہ میں کوئی جاٹ نہیں ہے جس کے پاس بندوق نہ ہو۔ پھر کون ہے جو اُن سے اس لہجہ میں بات کرے جس میں کٹھیریا نام کے نائب مرکزی وزیر کررہے ہیں؟ اور یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ انتظامیہ یعنی اُترپردیش کی سرکار یہ نہ سمجھے کہ وزیر بننے کے بعد میں شریف ہوگیا ہوں۔ بلکہ میں آج بھی وہی ہوں جو ہر وقت لاٹھی ڈنڈے سے بات کیا کرتا تھا۔ اٹل جی نے فروغ انسانی وسائل کا وزیر شری مرلی منوہر جوشی کو بنایا تھا۔ اور ان کا نائب شاہ نواز حسین کو بنا دیا تھا۔ 15 دن کے بعد شاہ نواز نے اٹل جی سے کہا کہ مجھے یہی نہیں معلوم کہ کیا کرنا ہے؟ جوشی جی نے ابھی تک مجھے بلایا بھی نہیں ہے۔ بات یہ نہیں تھی کہ جوشی جی اٹل جی سے ناراض تھے بلکہ یہ تھی کہ کہاں فروغ انسانی وسائل کا محکمہ اور کہاں شاہ نواز؟ لیکن اب مودی صاحب ہیں وہ جب اسمرتی ایرانی کو وزیر بنا سکتے ہیں تو کٹھیریا کو نائب بنانا ہی چاہئے تھا جنہیں آج بھی اس پر فخر ہے کہ میں آج بھی وہی ہوں جو۔۔۔ تھا۔ اور جو کچھ کٹھیریا نام کے وزیر نے آگرہ میں کیا وہ بھی اس لئے تھا کہ ہر چینل پر نیلے بلاوز میں سے تلوار کی طرح لہراتی ہوئی بانہیں تو ہر وقت دکھائی جارہی ہیں۔ اور ہم نائب ہوتے ہوئے کوڑے دان میں پڑے ہیں۔ اس عظیم محکمہ کو مبارک ہو کہ اب دونوں چہرے اخباروں کی بھی زینت ہیں اور اسکرین کی بھی۔ البتہ فرق وہی ہے جو تلوارمیں اور لاٹھی میں ہوتا ہے۔ وزیر صاحبہ نے تو کہہ دیا کہ اگر مایاوتی جی مجھے جھوٹا ثابت کردیں تو میں اپنا سرقلم کرکے ان کے قدموں میں ڈال دوں گی۔ اور ان کے نائب نے ہندوؤں کو طاقت دکھانے کے لئے للکارتے ہوئے انہیں اطمینان دلایا کہ وہ مایوس نہ ہوں میں وزیر بن کر۔۔۔ نہیں ہوگیا ہوں بلکہ آج بھی۔۔۔ ہوں۔ ہم تو خود کم پڑھے لکھے ہیں اس لئے کیا روئیں۔ البتہ مرلی منوہر جوشی جیسوں کو اپنے بھگوان کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ایسی کابینہ میں وہ نہیں ہیں۔ رہی بات مخالف پارٹیوں کے اس مطالبہ کی وزیروں کو نکالو تو پھر وہی بات آئے گی کہ پہلا پتھر وہ مارے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ یعنی جھوٹا وعدہ نہ کیا ہو یا جھوٹ نہ بولا ہو؟ اور اس کا جواب صرف کلین چٹ ہے جس کے دینے میں کوئی تاخیر نہیں ہوتی۔ فون نمبر: 0522-2622300