مولانا محمد اسحاق خان مدنی ۔۔۔جن کی عمر خدمت قرآن میں گزری ۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Bhatkallys

Published in - Other

06:49PM Wed 27 Jun, 2018

WA:+971555636151

ابھی ابھی سوشل میڈیا کے ذریعہ مولانا ابو طاہر محمد اسحاق  خان مدنی صاحب کے انتقال کی خبر موصول ہوئی ۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے ۔ دو تین ماہ قبل دبی آنے پر آپ کا فون آیا تھا ۔ وہ دبی چھوڑنے کے بعد سال دوسال بعد جب بھی آتے ۔ اپنے پرانے جاننے والوں کو ضرور یاد کرتے ۔ وہ ایک  روادار آدمی تھے ، انہیں دوستیاں نبھانی آتی تھی ۔

آپ کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے قصبے سدھنوتی سے تھا ۔ یہاں پلندری میں مولانا محمد یوسف کشمیری کے دارالعلوم تعلیم القرآن میں آپ نے ابتدائی درسیات پڑھیں ۔ اعلی تعلیم جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاون میں پائی۔ جہاں آپ کو مولانا محمد یوسف بنوری علیہ الرحمۃ سے کسب فیض کا موقع ملا ۔ کراچی میں آپ نے مولانا مفتی محمد شفیع علیہ الرحمۃ سے بھی استفادہ کیا ۔ یہاں سے آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تشریف لےگئے ۔ جہاں آپ نے 1972ء میں لیسانس مکمل کیا ۔اس کے بعد پاکستان لوٹ کرچند عرصہ تدریس میں گزارا، انہی دنوں آپ اسلامی نظریاتی کونسل کشمیر کے بھی رکن منتخب ہوئے ۔

کچھ عرصہ بعد جب دبی میں شیخ عبد العزیز بن باز کی زیر اہتمام مرکز الدعوہ و الارشاد قائم ہوا تواس کے اولین ڈائرکٹر شیخ عمر بن عبد العزیزالعثمان کے زمانے میں اس ادارے سے وابستہ ہوئے ۔ اور تیس سال تک اس ادارے کے ماتحت دینی و دعوتی خدمات انجام دیتے رہے ۔

جب 1979ء میں اس ناچیز کا ذریعہ معاش قدرت میں لکھ دیا گیا تو مولانا کو اس وقت دبی آئے ہوئے چند ہی سال گزرے تھے ۔وہ ابھی جوان تھے ۔ اس وقت مولانا یہاں پر دیوبندی مکتب فکرکے نمائندے کی حیثیت سے اپنی پہنچان بنا رہے تھے ۔ آپ کی تفسیر قرآن کے درس الغریر مسجد سبخہ ،اور الجامع الکبیر ۔ بر دبی میں ہوا کرتے تھے ۔ دبی میں اس وقت جو بھی پاکستان سے علماء آتے عموما وہ آپ ہی کے مہمان ہوتے ، ان کی تقاریر کے شیڈول بھی آپ ہی متعین کرتے ، ہمارا آفس بھی پورٹ سعید میں آپ کے آفس سے قریب ہی تھا۔  یہ آپ کی رہائش گاہ بھی تھا ۔ ان دنوں ہندوستان سے اکابر آتے تو عموماان کی تقاریر کا نظم اس ناچیز کے پاس ہوا کرتا ۔ بڑے اچھے دن تھے ، سرکاری پیچیدگاں وغیرہ نہ ہونے کے برابر تھیں ۔ اس وقت کے مدیر اوقاف شیخ عبد الجبار محمد الماجد مرحوم اور پھر ڈاکٹر عیسی المانع الحمیری کے دور میں فورا اجازت نامے مل جاتے، گزشتہ صدی کے اسی اور نوے کی دہائی میں اکابرین کی بڑی تعداد بقید حیات تھی ۔ اس زمانے میں بڑے یادگار پروگرام رکھنے کا موقعہ نصیب ہوا۔

ہمارے دبی میں قدم رکھنے کے دوسرے تیسرے روز شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان علیہ الرحمۃ نے جامع کبیر بر دبی کے ممبر پر داعی اجل کو لبیک کہا ۔ ان کے بعد کئی ایک اکابر مولانا مفتی محمود ، مولانا عبد الستار تونسوی ، مولانا عبد المجید شاہ ندیم ، مولانا محمد ضیاء القاسمی ، مولانا منظور احمد چینوٹی ، مولانا حسن جان، ڈاکٹر شیر علی شاہ علیھم الرحمۃ  وغیرہ اس زمانے کے تقریبا سبھی اکابر تشریف لاتے تو مولانا کی مجلس میں ان حضرات کے ساتھ بیٹھنا اور تبادلہ خیال کرنا نصیب ہوتا۔ان کے تجربات اور مشاہدات نے دلوں کو روشنی بخشی ۔ یہ مجالس زندگی کا بڑا قیمتی سرمایہ ہیں ۔

اس زمانے میں ہندوستان سے آنے والے اکابر جن میں خصوصا حضرت مولانا سیدا بو الحسن علی ندوی ، مولانا محمد سالم قاسمی ، مولانا محمد انظرشاہ کشمیری ، مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ، شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان ، مولانا سید ابرار الحق ۔ ہردوئی علیھم الرحمۃ وغیرہ اکابر شامل ہیں ان کے پروگرام کا شیڈول عموما اس ناچیز کے پاس ہوتا تھا ، اس سلسلے میں آپ ہمیشہ ربط میں رہتے ۔ اب یہ سب ماضی کا قصہ ہے ، ان کی صرف یادیں رہ گئی ہیں۔

شاید اس سلسلے کا آخری پروگرام 8 اپریل 1995ء کو مرکز تبلیغ ۔ قصیص میں ہوا تھا ،اس میں مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی ، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی ، مولانا یعقوب اسماعیل منشی وغیرہ نے ملت کے مسائل اور ان کے علاج کے موضوع پر اظہار خیال کیا تھا ۔

اس زمانے میں مولانا محمد فہیم مرحوم بقید حیات تھے ، ان کی رہائش گاہ مرکز کی مسجد میں تھی ،آپ کا تعلق صوات سے تھا ، آپ کی فراغت دارالعلوم دیوبند سے تقسیم ہند سے قبل ہوئی تھی ۔ مولانا مفتی محمد شفیع علیہ الرحمۃ کے زمانے میں آپ نے دارالعلوم کراچی میں تدریسی خدمات انجام دیں تھیں ، آپ دیوبندی مکتب فکر سے وابستہ علماء کے مرجع تھے ، پرانے لوگوں کی آنکھیں دیکھے ہوئے بزرگ ،پٹھان ہونے کے باوجود سنجیدگی کا نمونہ ۔ جمعرات کی جمعرات آپ کی رہائش گاہ پر اکثر علماء کی حاضری ہوتی اور مختلف امور ومسائل پر تبادلہ خیال ہوتا ،مولانا کی رحلت کے ساتھ نہ صرف وہ مجلسیں ختم ہوگئیں ، بلکہ موسم بہار بھی خزاں میں بدل گیا ۔

مولانا محمد اسحاق صاحب بنیادی طور پر دعوت و اصلاح اور درس و تدریس کے آدمی تھے ،  اپنے وقت کی قدر کرنے والے ، دبی میں آپ نے دو سے زیادہ مرتبہ تفسیر قرآن کا دور پورا کیا ۔ اور ایک نہیں تین تفسیریں لکھیں ،جو ایک کارنامہ ہے ۔

مولانا کا ذہنی لگاؤ جمعیت علماء کی طرف تھا ، لیکن وہ عملا سیاسی آدمی نہیں تھے ، وہ سبھی علماء کی قدر کرتے تھے اور ان سے ملنا، بیٹھ کربات کرنا پسند کرتے تھے ۔

انہوں نے تفسیر کے علاوہ کئی ایک کتابیں بھی لکھیں ۔ سنہ اسی کی دہائی میں اپنا ذاتی سرمایہ لگا کر مولانا آزاد کے مجلہ الہلال کی پوری فائلیں اعلی طباعتی معیار پر شائع کیں ۔ جو اس زمانے میں بہت بڑی بات تھی ۔

کوئی پندرہ سال قبل مرکز کی ملازمت سے رٹائرڈ ہوچکے تھے ، چونکہ آپ کا زیادہ تر وقت دبی میں گزرا تھا اور ان کے عقیدت مند یہیںزیادہ تر پائے جاتے تھے تو ان سے ملاقات کے لئے آپ تشریف لایا کرتے تھے۔ گٹھیا اور شوگر کی بیماری نے آپ کو وقت سے پہلے بوڑھا کردیا تھا ، بالآخر وہ گھڑی آہی گئی، جس سے کسی کو مفر نہیں ۔اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے ۔ ان کی یاد مدتوں دلوں میں زندہ رہے گی۔

27-06-2018