آنکھ نے جو کچھ کہ دیکھا:ایک تجزیہ ۔۔۔تحریر : ڈاکٹر عباس رضا نیر

محترمہ فرزانہ اعجاز کا شمار ادیبوں کی اس فہرست میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی تصنیف و تالیف سے شہر لکھنو کا نام روشن کیا ہے۔وہ باذوق شاعرہ،افسانہ نگار اور صاحبِ طرز ادیبہ ہیں اور سماجی اور ادبی حلقوں میں کافی معروف و مشہو ر ہیں۔ان کا تعلق لکھنو کے مشہور فرنگی محل خاندان سے ہے۔وہ خاندان جس میں آج سے پچاس برس قبل بھی تعلیم نسواں کا رواج تھا۔علاوہ اس کے گھر کا ماحول بھی بے حد علمی و ادبی تھا۔حیات اللہ انصاری کے خاندان سے تعلق رکھنے والی فرزانہ اعجاز کا بچپن بھی قدآور علمی شخصیات کے درمیان گزرا،یہی وجہ ہے کہ ان کا ادبی ذوق بہت وسیع اور ستھرا ہے۔انہوںنے لکھنو یونیورسٹی میں ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی،ڈاکٹر شبیہ الحسن،ڈاکٹر نیر مسعود اور ڈاکٹر خلیل جیسے اہل علم حضرات سے تعلیم حاصل کی۔خود ان کے والد صاحب ایک مدبر اخبار نویس،عالم دین، مفتی اور ہر دل عزیز ادیب تھے۔ ایسے ماحول میں پرورش پانے والے بچے کی علمی و ادبی صلاحیت پر شک کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
’’آنکھ نے جو کچھ کہ دیکھا‘‘۔۔ فرزانہ اعجاز کے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں خاکے اور انشائیے بھی شامل ہیں ۔یہ سب ان کی یادیں ہیں۔بچپن سے لے کر اب تک کی یادیں۔مختصراً ہم ان کی اس کتاب کو Memoirکہہ سکتے ہیں۔مصنفہ نے بڑی ہی خوبصورتی سے اپنے احساسات و جذبات اور اپنی زندگی کے تجربات کو الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔ساتھ ہی یہ کتاب لکھنو کی تہذیب و ثقافت پربھر پور روشنی ڈالتی ہے۔کہتے ہیں مفلس وہ نہیں جس کے پاس مال دولت نہیں بلکہ مفلس وہ ہے جس کے پاس خوبصورت یادیں نہ ہوں۔ ۔ ۔ جھلمل کرتی چاندنی جیسی یادیں۔ ۔ ۔ جو زندگی کے اندھیرے راستوں میں آپ کی راہیں روشن کردیتی ہیں۔ایسی ہی انمول یادوں کو سموئے ہوئے یہ کتاب قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔
اس کتاب میں مختلف النوع کل ۳۵ مضامین شامل ہیں جن میں خاکے، سفرنامے، یادداشتیں، انشائیے اور ایک انٹرویو بھی شامل ہے۔یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ سارے ہی عناوین بہت خوب ہیں۔اس کا پہلا مضمون’’ آنکھ نے جو کچھ کہ دیکھا‘‘ سب سے طویل ہے اور ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو یہ مضمون کل کتاب کی جان ہے۔ہماری انسانی زندگی وقت اور حالات کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور وقت کے ساتھ تقاضے بھی بدلتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی بچوں کی ذہنی ترجیحات بھی بدلتی رہتی ہیں۔آج کے اس الکٹرانک دور میں کارٹو ن سیریل اور ویڈیو گیمز نے بچوں کے دل و دماغ کو محصورکر رکھا ہے اس کے علاوہ موبائل اور ٹیبلٹ نے ان کی زندگی میں فارغ اوقات کا تقریبا خاتمہ ہی کردیا ہے۔اب بچے سڑکوں پر مٹی کھیلتے اور رسی کودتے نظر نہیں آتے۔اسمارٹ فون نے بچوں کے مزاج اور نفسیات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔اس مضمون میں مصنفہ نے اس بچپن کا ذکر کیا ہے جو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک اور بے حد معصوم ہوا کرتا تھا۔جب بچے یقین کرلیا کرتے تھے کہ انگور کا بیج کھا لیا ہے تو پیٹ سے درخت نکل آئے گا۔
زیر نظرمضمون کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں تعلیم نسواں کا رواج عام نہ تھا۔شہر لکھنو میں صرف دو ہی ادارے تھے جہاں مسلم لڑکیاں پردے کے پورے اہتمام کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے جاتی تھیں۔مصنفہ نے بھی اس زمانے کے رواج کے مطابق ابتدائی قرآن کی تعلیم گھر کے بزرگوں سے حاصل کی اور پھر تعلیم گاہ نسواں اسکول میں قدم رکھاجہاں ان کے خاندان کی دیگر خواتین بھی جایا کرتی تھیں اس مضمون میں انہوں نے اسکول کی تمام کھٹی میٹھی یادوں کو سمو دیا ہے۔
’’آنکھ نے جو کچھ کہ دیکھا ‘‘اس وقت کے لکھنو کی تہذیب و معاشرت کا ایک مرقع ہے۔اس وقت کا معاشرہ ،رسوم و رواج،لباس ،رکھ رکھاؤ اور روزمرہ کی وارداتوں کا بڑے دلچسپ انداز میں ذکر کیا ہے۔چھوٹی بچیوں کے کھیل گڑیا کے بیاہ اور ہنڈکلیا کا مصنفہ نے خوب مزے لے کر تفصیلی ذکر کیا ہے۔اس کے علاوہ اکھٹ دکھٹ،اکڑ بکڑ اور کوڑاجمال شاہی وغیرہ وہ سب کھیل جو بچے ان دنوں شوق سے کھیلتے تھے۔تب بچے عید پر سلمان خان کی فلموں کی ضد کرنے کے بجائے بھالو اور بندر کے ناچ دیکھنے کی فرمایش کرتے تھے۔مضمون کے ایک حصے میں آج سے چالیس پچاس برس قبل پہنے جانے والے خواتین کے لکھنوی ملبوسات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔بچے کی پیدائش سے لے کر شادی بیاہ اور وفات تک کی ساری رسومات کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ایک ایک رسم کو اس کی پوری جزئیات کے ساتھ یوں بیان کیا ہے کہ نگاہوں کے سامنے تصویر گھوم جاتی ہے۔
اسی مضمون میں مصنفہ نے کئی قدآور شخصیات کے ساتھ اپنے تعلق اور ملاقات کا بھی ذکر کیا ہے۔جن میں مولانا حسرت موہانی،پنڈت جواہر لال نہرو،آنند نرائن ملا،سید احتشام حسین،علی عباسی،حیرت بدایونی،نشور واحدی،اثر لکھنوی،حیات اللہ انصاری،سمپورن آنند،خلیل الرب،جوش ملیح آبادی اور کنور مہندرسنگھ بیدی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔مختصرا یہ مضمون لکھنوی تہذیب و معاشرت کے حوالے سے بے حد قیمتی ہے۔انداز بیان سلیس اور شگفتہ ہے جو قاری کو بور نہیں ہونے دیتا اور اس کی دلچسپی برقرار رکھتا ہے۔
’’چلنا ہے تو سیر کو چلئے امریکہ‘‘ کتاب میں شامل یہ مختصر سفرنامہ بے حد دلچسپ ہے جس میں امریکہ ،کناڈا اور لندن کے سفر کی روداد بیان کی گئی ہے۔امریکہ کے مشہور شہروں نیویارک،شکاگو،بوسٹن،نیوجرسی،کنیٹکٹ،لانگ آئی لینڈ،مشی گن،اوکلاہوما،سان فرانسسکو،ہیوسٹن،لاس ویگاس اور سینٹ لوئس میں گزارے ہوئے وقت اور حاصل کئے ہوئے تجربات کا بیان مصنفہ نے بڑی خوبصورتی سے کیا ہے،ان شہروں کی ثقافت،صفائی ستھرائی،ڈسپلن،سڑکوں کا بہترین نظام اور وہاں کی مشہور عمارتوں اور تفریحی مقامات کا ذکر بہت باریک بینی سے کیا ہے۔سفر نامہ پڑھتے ہوئے قاری کو یہ محسوس ہو تا ہے گویا وہ خود ان مقامات پر پہنچ گیا ہو۔
امریکہ بھی ایک الگ ہی دنیا ہے،ہر شہر کی اپنی ایک الگ پہچا ن ہے۔کہیں زندگی پورے جوش سے رواں دواں ہے ،کہیں افراتفری ہے تو کہیں جھیل کا سا پرسکون ماحول ہے۔رنگوں ،روشنیوںاور خوشبووں کا شہر امریکہ جس کی تصویر کشی مصنفہ نے اس مہارت اور چابکدستی سے کی ہے کہ حق ادا کر دیا۔مشہور وال اسٹریٹ،ٹوئن ٹاور جو کہ اب ماضی کا حصہ ہو گیا،اسٹیچو آف لبرٹی،شکاگو کا حیدرآبادی ماحول،ہارور ڈ یونیورسٹی ،ہوٹل میریٹ،لاس ویگاس کا مشہور جوا،گلینا کا بھوت بنگلہ،سٹی میوزیم،میرامیک کا غار،سینٹ لوئیس کا تتلی گھر غرض یہ کہ ہر جگہ کی مخصوص و مشہور چیزوں سے بخوبی واقف کروادیا ہے قاری کو۔اس کے ساتھ ہی کناڈا اور امریکہ کے درمیان کی آبی سرحد نیاگرافال کی سیر کا بھی مختصراً ذکر کیا ہے۔
سفر نامے کانام تو ویسے امریکہ ہے لیکن مصنفہ نے اس میں لند ن کے سفر کا بھی ذکر کیا ہے وہی لند ن جس کی حکومت کا سورج ایک وقت میں کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔لیکن وہ کہتے ہیں نا ںکہ رسی جل گئی پر بل نہیں گیا۔لندن والے اب بھی صرف خود کو جنٹلمین سمجھتے ہیں اور ہم ہندوستانیوں کو حقیر نگاہ سے دیکھتے ہیں۔لندن کی سیر کے دوران مصنفہ نے جن قابل ذکر مقامات کا سفر کیا ان میںبیکر ایونیو میں واقع مشہور جاسوس شرلاک ہومز کی رہائش گاہ سر فہرست ہے جس کے بارے میں مصنفہ نے تفصیلی گفتگو کی ہے۔اس کے علاوہ بکنگھم پیلیس،البرٹ میوزیم،مادام تساد کا ویکس(موم)میوزیم اوربگ بینگ بھی قابل ذکر ہیں۔
کتاب میں چند خاکے بھی شامل ہیں جن میں صابرہ خالہ،ساڑھے تین بج گیا اور دلارے بھائی بیحد دلچسپ ہیں ۔خاص طور سے ساڑھے تین بج گیا ہے ٹیڑھے میڑھے شاکر کا خاکہ ۔ مصنفہ نے اپنے فطری اور دلکش انداز تحریر سے ان خاکوں کو مزید دلچسپ اور مزے دار بنا دیا ہے جنہیں پڑھ کر بے ساختہ لبوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔اس کے علاوہ متین بھائی،ماسٹر ناٹے محمود،ہجو بجو اور بابو یعنی مصنفہ کے داداکا خاکہ بھی بہتر انداز سے لکھا گیا ہے جس میں خاکہ نگاری کے تمام عنصر بخوبی نظر آتے ہیں۔
زیر نظر کتاب میںکچھ انشائیے بھی ہیں۔جن میں قصہ اس موٹر کار کا،نیوپنچ،ہمارا ڈرائیونگ لائسنس اور عید کا پائجامہ خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔ان تمام انشائیوں میںبے حد روانی اور شگفتگی ہے۔عید کا پائجامہ میں مصنفہ نے اپنے بچپن کی ایک معصوم شرارت کا بھی ذکر کیا ہے کہ جس میں انہوں نے اسکول کی کڑھائی اور سلائی کی غرض سے اپنے والد صاحب کے پائجامے کا کپڑا چوری کر لیا تھا اور پائجامہ بھی کون سا ؟عید کا۔یہ پورے کا پورا انشائیہ بے حد پر لطف ہے۔جس کی دلچسپی میں مصنفہ کے مخصوص انداز تحریر کو خاص دخل ہے۔
ایک بات جو کتاب کے ہر مضمون میں واضح طو ر پر محسوس کی جاسکتی ہے وہ ہمارے پیارے لکھنو کی چھاپ ۔چاہے مضمون ہو انشائیہ ہو یا خاکہ ،کہیں نہ کہیں لکھنو کا ذکر آہی گیا ہے۔لکھنؤ کی صبحیں،لکھنوں کی دوپہریں ،لکھنو کی شامیں اور پھر راتیں ۔ ۔ ۔ کوئی منظر باقی نہیں رہاجس کا مصنفہ نے ذکر نہ کیا ہو۔ٹھاکر گنج سے لے کر بنارسی باغ تک۔ڈالی گنج سے لے کر تال کٹورہ تک،چوک سے لے کر چارباغ تک،میڈیکل کالج سے لے کر کرامت حسین گرلز کالج تک پورے لکھنو کو سمیٹ لیا ہے اپنی کتاب میں۔راجہ بازار،وکٹوریہ اسٹریٹ ،گول دروازہ،نخاس اور امین آباد کا مشہور بازار،حضرت گنج ،آئی ٹی چوک،جی ٹی روڈ،غرض یہ کہ پرانے لکھنو کی مکمل تصویر پیش کردی ہے۔
بہرحال ’’آنکھ نے جو کچھ کہ دیکھا‘‘ میں جو ادبی سرمایہ ہے اسے مصنفہ نے کوئی دوچاردن میں تحریر نہیں کیا ہے بلکہ اس کو فنی اور ادبی اعتبار سے برسوں کے تجربات اور غوروفکر کے بعد صفحہ قرطاس کیا ہے۔ان شہ پاروںمیں سادگی،روانی بے تکلفی اور شیرینی کی آمیزش سے خوبصورتی پیداکی ہے ۔ان کی تحریروں میں کشش اور اثر انگیزی ہے۔انداز بیان فطری اور دلچسپ ہے۔سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ بچے بڑے اور بزرگ ہر عمر کے افراد اس کتاب سے محظوظ ہوسکتے ہیں۔کتاب میں آسان زبان کا استعمال نپے تلے الفاظ اور لہجے کی معصومیت اور ملائمت ان کی تحریری مہارت کا ثبوت پیش کرتی ہے۔
صدر شعبہ اردو ۔ لکھنو یونیورسٹی ۔*
لکھنؤ