’’کھُد بُد‘‘ اور ’’گُڈمُڈ‘‘

Bhatkallys

Published in - Other

04:05PM Fri 15 Apr, 2016

مجاہد بک اسٹال، کراچی کے راشد رحمانی نے لکھا ہے کہ آپ کو پڑھ کر ہم نے اپنی اردو درست کی ہے لیکن 11 اپریل کے اخبار میں مشتاق احمد خان کے کالم نقارہ کا عنوان ’’لمحہ فکریہ‘‘ ہے۔ ہے نا فکر کی بات! صحیح ’لمحہ فکریہ‘ ہے یا ’لمحہ فکر‘؟

عزیزم راشد رحمانی، جن لوگوں نے سید مودودیؒ کو نہیں پڑھا وہ کچھ بھی لکھ سکتے ہیں۔ سید نے ہمیشہ ’لمحہ فکر‘ ہی لکھا اور یہی صحیح ہے۔

وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار، داخلہ کے وزیر بھی ہیں اور وزیروں کے چودھری بھی، اس لیے ان کو بجا ہے کہ وہ ذمے دار کو ’’ذمے وار‘‘ کہتے رہیں، ان کا کچھ نہیں ہوسکتا۔ تاہم پیر 11 اپریل کو انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں کہاکہ ’’دو معاملات کو آپس میں گُڈمُڈ نہ کریں‘‘۔ حضرت گاف اور میم دونوں پر زبر ہے جسے فتح کہتے ہیں، یعنی گَڈمَڈ ہے۔

یہ صراحت اس لیے ضروری ہے کہ ’’کلام الملوک، ملوک الکلام‘‘ کے مصداق عام لوگ تلفظ میں بھی حکمرانوں کی پیروی کررہے ہیں۔ ممکن ہے کہ ٹی وی چینلز پر بیٹھے ہوئے حضرات بھی معاملات کو گُڈ مُڈ کر دیں۔

ایسا ہی ایک لفظ ’کھدبد‘ ہے۔ یہ کھد بد دال میں بھی ہوتی ہے اور دل میں بھی۔ ہم ایک عرصے تک اسے کُھد بُد (پیش کے ساتھ) کہتے اور اسی کو صحیح سمجھتے رہے۔ لیکن یہ کھد بد کہیں بھی ہو، یہاں بھی دونوں جگہ زبر ہے یعنی کَھد بَد۔

کئی الفاظ ایسے ہیں جن کی جمع الجمع بن گئی ہے مثلاً دوا کی جمع ادویہ اور جمع الجمع ادویات۔ لیکن ٹی وی چینلز پر خواتین اور روابط کی جمع الجمع سننے میں آئی یعنی ’’خواتینوں‘‘، ’’روابطوں‘‘۔ اخبارات میں ’’ایک ذرائع کے مطابق‘‘ تو عام ہے۔

ویسے تو یہ ’’قولِ پرویزی‘‘ ہے اور یہ والے پرویز، رشید بھی ہیں، یعنی پرویز رشید، جن کو حکومت کی طرف سے عمران خان کا شعبہ تفویض کیا گیا ہے، چنانچہ انہوں نے عمران خان کے طویل خطاب پر بلاغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ان کی بچگانہ باتیں تین سال سے سن رہے ہیں‘‘۔ یعنی یہ راج ہٹ اور بالک ہٹ کا مقابلہ ہے، لیکن بچگانہ کو کچھ اخبارات نے ’ک‘ سے یعنی ’بچکانہ‘ لکھا ہے۔ اب دونوں میں سے صحیح کیا ہے، بات بچگانہ ہے یا بچکانہ؟ الفاظ تو دونوں ہی ٹھیک ہیں لیکن لغت کے اعتبار سے دونوں میں معنوی لحاظ سے فرق ہے۔ شاید اس پر پہلے بھی لکھا گیا ہے لیکن ’’باز خوانی‘‘ میں کوئی حرج نہیں۔

بچکانا ہندی کا لفظ ہے اور مطلب ہے: بچوں کے لائق، کم عمر کا، بچوں کا، بچے کا جوتا، کپڑا وغیرہ۔ اس کی تانیث ہے ’بچکانی‘۔ اور بچگانہ فارسی صفت ہے یعنی بچوں کے متعلق، بچپنے کا، طفلانہ، بچوں کے قابل، بچوں کی طرح۔ پرویز رشید نے عمران خان کی باتوں کو ’’بچگانہ‘‘ کہا ہوگا۔ لیکن اس کاف، گاف کی وضاحت جناب پرویز رشید ہی کو کرنی چاہیے، آخر وزیراطلاعات بھی تو ہیں اور تین سال سے برداشت کررہے ہیں۔

لاہور میں ہمارے نادیدہ مگر حقیقی مہربان جناب افتخار مجاز نے پوچھا ہے کہ ’’آپ نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے ’’یہ توہم کا کارخانہ ہے‘‘۔ کیا اس مصرع میں ’’تواہم‘‘ نہیں ہے؟‘‘ حضرت، ہم بھی اسی وہم میں مبتلا رہے کہ یہ تواہم ہے، مگر ایک استاد نے بتایا کہ یہ توہم ہے۔ بات یہ ہے کہ توہم کا تلفظ ایسا ہے کہ اس میں الف چھپا ہوا ہے یعنی تَوَہُمّ…… وہم میں ڈالنا۔ واؤ پر زبر ہے جس سے الف کی آواز نکلتی ہے۔ اس کی جمع توہمات ہے اور اس میں بھی مشکل پیش آتی ہے کہ ہم جیسے لوگ اسے ’تو۔ہمات‘ پڑھتے ہیں۔ اب کیا کریں کہ یہ تَوَہُمّ کا کارخانہ ہے۔ افتخار مجاز کی وجہ سے ممکن ہے دوسروں کا تلفظ بھی درست ہوجائے۔

سہ ماہی ’بیلاگ‘ عزیز جبران انصاری کی کاوشوں اور محنتِ شاقہ کا مظہر ہے۔ اس کے ذریعے ہم اپنا تلفظ و املا بھی درست کرتے ہیں۔ یہ اردو زبان کی بڑی خدمت ہے۔ جنوری تا مارچ کے شمارے میں انتظار حسین مرحوم پر بڑا بھرپور مضمون ہے۔ تاہم صفحہ 51 پر مصنف نے ایک لفظ ’’کورمغزی‘‘ استعمال کیا ہے۔ مغز کے اندھا ہونے کا کوئی قرینہ، کوئی محاورہ نہیں ہے۔ ممکن ہے یہ سہو کاتب ہو اور یہ لفظ کوڑھ مغز ہو (ک پر پیش ہے)۔ کوڑھ مغز کا مطلب ہے: بے وقوف، احمق، مورکھ وغیرہ۔ اب تو یہ کم ہی استعمال ہوتا ہے، ورنہ بزرگ اپنے خردوں کے لیے کثرت سے استعمال کرتے تھے (ذاتی تجربہ ہے)۔ مذکورہ شمارے میں بھی صحتِ الفاظ پر توجہ دی گئی ہے۔ ہم نے بھی استفادہ کیا۔ مثلاً جنجال کو ہم جیم پر زبر کے ساتھ پڑھتے رہے ہیں۔ لیکن عزیز جبران انصاری کے مطابق اس میں جیم پر زیر ہے یعنی جِن جال۔ لیکن ایک نہیں کئی لغات میں جَنجال (جیم پر زبر بالفتح، بروزن کنگال) ہے۔ یعنی ہم تو صحیح پڑھتے رہے۔ امید ہے اگلے بیلاگ میں تصحیح یا وضاحت ہوجائے گی۔

آج کل کا نیا شوشہ، پاناما لیکس کے حوالے سے کچھ لوگوں سے استعفا طلب کیا جارہا ہے۔ لیکن جو لوگ استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں، وہ پہلے تلفظ تو درست کرلیں۔ وہ ہی کیا تمام ٹی وی چینلوں پر جناب پرویزرشید ہی کی زبان چل رہی ہے اور ہر طرف سے ’اَستَعفا‘ طلب کیا جارہا ہے۔ کوئی مستعفی ہو یا نہ ہو اِستِعفا (اِس۔تع۔فا) میں الف اور ت دونوں کے نیچے زیر (کسرہ) ہے۔ عربی کا لفظ ہے اور اس کا مادہ عفو ہے۔ عفو کا مطلب ہے معافی طلب کرنا۔ ویسے ’’عفو‘‘ کا تلفظ بھی عموماً غلط ہی سنا۔

ماہنامہ ’قومی زبان‘ کراچی کے اپریل کے شمارے میں اردو کے استاد ڈاکٹر رؤف پاریکھ کا ایک مضمون ’’صحافت کی زبان اور اردو املا کا انتشار: چند تجاویز‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ اس سے ایک اقتباس:

’’سطورِ بالا میں لفظ ’’گنجائش‘‘ آیا ہے اور ہم نے اس میں ہمزہ لکھا ہے، جب کہ بعض لوگ غالباً رشید حسن خان صاحب مرحوم کی کتاب کے زیراثر اب ایسے الفاظ مثلاً نمائش، فرمائش، فہمائش وغیرہ میں ہمزہ کی (کے) بجاے ’’ی‘‘ لکھ رہے ہیں یعنی ان کا املا نمایش، فرمایش اور فہمایش کررہے ہیں۔ لیکن ہماری دانست میں یہاں ’’ی‘‘ لکھنا غلط ہے۔ ابھی لفظ ’’بجاے‘‘ بھی آیا، اسے ’’بجائے‘‘ لکھا جاتا ہے لیکن اس پر ہم نے ہمزہ نہیں لکھا…… عرض یہ ہے کہ ذیل میں پیش کی گئی گزارشات محض تجاویز ہیں، اہلِ علم اور علمی و ادبی ادارے ان پر غور فرمائیں اور اردو کے ایک معیاری اور یکساں املا کی طرف پیش قدمی کریں۔‘‘

رؤف پاریکھ نے توجہ دلائی ہے کہ بعض اخبارات ایسے بھی ہیں جن میں ایک ہی لفظ کا املا مختلف اوقات میں مختلف ہوتا ہے۔