پنچوں کا حکم سرآنکھوں پر نالہ وہیں گرے گا

Bhatkallys

Published in - Other

01:54PM Sun 8 Jan, 2017

پنچوں کا حکم سرآنکھوں پر نالہ وہیں گرے گا

از: حفیظ نعمانی سپریم کورٹ کا یہ حکم کہ مذہب، ذات اور زبان کے نام پر ووٹ مانگنا جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ ایسا حکم ہے جس پر ملک کو فخر کرنا چاہیے لیکن ہندوستان میں جب ان کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہ ہو تو پھر الیکشن سے کسے دلچسپی ہوگی؟ آج نہیں برسوں سے ایک نعرۂ وکاس نریندر مودی نے عام کردیا۔ وہ ہر الیکشن میں وکاس کے نام پر لڑنے کا اعلان کرتے ہیں اور وکاس کے علاوہ سب کچھ کرتے ہیں صرف وکاس نہیں کرتے۔ 2014میں انھوں نے لوک سبھا کا الیکشن اپنے لیے لڑا۔سب کا ساتھ سب کا وکاس اس کا خاص نعرہ تھا۔ وکاس کی تفصیل جو وہ اشارہ کرتے تھے یہ تھی کہ دنیا کے ملکوں سے کالا دھن آئے گا اور سب کو تقسیم کردیا جائے گا اس سے ہر کسی کا وکاس ہوجائے گا۔ مہنگائی کم ہوجائے گی اور ہر چیز سستی ہوجانے کی وجہ سے روپیہ بچے گا اس سے وکاس ہوجائے گا۔ اور منہ میں پانی بھر کے جوانوں سے کہتے تھے کہ ہائے ہائے کانگریس نے تمہیں روزگار نہیں دیا۔ مجھے آجانے دو سب کو روزگار دوں گا اور وکاس ہوجائے گا۔ وہ وکاس کر نہیں رہے تھے بلکہ برسا رہے تھے اور حکومت کے ۳۰ مہینے ہونے کے بعد جب وہ کچھ نہ کرسکے اور چرخی الٹی چلتی رہی تو انھوں نے آخری قسم کا وکاس کردیا کہ سب کو فقیر بنادیا تاکہ نہ رہے باس اور نہ بجے بانسری۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے مقابلہ میں ہماری حیثیت ہی کیا لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ اس ملک میں جمہوریت اور سیکولر ازم کے بانی پنڈت جواہر لال نہرو جب پہلے الیکشن میں اترے تو وہ اپنے سب سے زیادہ محترم اور معتبر ساتھی مولانا آزاد کو کلکتہ، دہلی یا الٰہ آباد سے لڑانے کی ہمت نہ کرسکے۔ انھوں نے مولانا کو رام پور سے لڑایا جو اترپردیش میں سب سے زیادہ مسلم اکثریت کا ضلع ہے اور نواب رام پور کی حیثیت اس وقت وہاں ایک ایسے سربراہ کی تھی جس پر رام پور کے لوگ جان دیتے تھے اور پانچ سال کے بعد جب ۵۷ کا الیکشن آیا تو پنڈت جی نے مولانا کو گوڑ گاؤں سے لڑایا جو مسلمانوں کا ایک مضبوط قلعہ تھا اس کے باوجود الیکشن انچارج پنڈت گوبند بلبھ پنت کو بنایا تاکہ ہندو کوئی سازش نہ کرسکیں۔ مسلمان کو ووٹ دینے کے لیے نہیں کہا لیکن کیا یہ سیکولرازم پر بھروسہ نہ ہونے کی بات نہیں تھی؟ اس دن سے آج تک جب کوئی پارٹی کسی مسلمان کو ٹکٹ دیتی ہے تو یہ دیکھتی ہے کہ وہاں مسلمان کتنے ہیں اور جس ذات کے امیدوار کو ٹکٹ دیتی ہے وہاں یہ دیکھتی ہے کہ ان کے کتنے ہیں؟رہاں زبان کا مسئلہ تو وہ شمالی ہند میں نہ تھا نہ ہے۔ یہ جنوبی ہند کا مسئلہ ہے جہاں ہندی لاؤ اور ہندی بھگاؤ کی جنگ ہمیشہ سے ہے اور رہے گی۔ ہندوستان میں غلطی جس کی بھی ہو لیکن ہے یہ ہی کہ حکومت الگ ہے اور عوام الگ ۔یہاں اگر صرف ترقی منصوبے، جنگی جہاز اور تمام ندیوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے اور گزشتہ سال کی طرح خشک سالی سے مہاراشٹر یا دوسری ریاستوں کو بچانے کے لیے ووٹ مانگے جائیں تو شاید ۲۵ فیصدی پولنگ بھی نہ ہو۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ملک کی ترقی کو عوام اپنی ترقی نہیں سمجھتے اور نہ حکومت انہیں سمجھنے دیتی ہے۔سپریم کورٹ کے جج صاحبان اخبار بھی دیکھتے ہیں اور ٹی وی بھی دیکھتے ہوں گے۔ انہیں بھی معلوم ہوگا کہ عوام کسی بات پر ناراض ہوتے ہیں تو سب سے پہلے سڑک جام کرتے ہیں اور زیادہ زور سے مطالبات منوانا ہوں تو ریل کی پٹری پر آکر لیٹ جاتے ہیںیا ریل کی پٹریاں اکھاڑ دیتے ہیں۔ وہ ہر اس چیز کو حکومت سمجھتے ہیں جو حکومت کے ہاتھ میں ہے اور عوام اگر اسے استعمال کرتے ہیں تو اس کا کرایہ دیتے ہیں۔ ہندوستان میں جو الیکشن ذات اور مذہب سے جیتنا قریب ہوگا اس میں اتنی ہی دلچسپی لی جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کے الیکشن میں ووٹنگ کا اوسط سب سے کم ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ اسمبلی کے الیکشن میں ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کارپوریشن کے اور سب سے زیادہ پنچایت کے الیکشن میں ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کے ممبروں کا تو یہ حال ہے کہ وہ ا پنے ووٹ دینے والوں کو نہیں جانتے اور ووٹ دینے والے انہیں کم جانتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد بہوجن سماج پارٹی کی صدر مس مایاوتی نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ انھوں نے کتنے کتنے ٹکٹ کس کس مذہب اور ذات کو دئے ہیں۔ اور برابر کہہ رہی ہیں کہ مسلمان سماج وادی پارٹی کو ووٹ دے کر اسے بیکار نہ کریں اور میری پارٹی ان کے لیے کیا کیا کرے گی، ان سے بھی آگے ایک صاحب ہیں وہ کئی مہینے سے کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں نے ۷۰ برسوں سے ہندو کو وزیر اعلیٰ بنایا ہے اب مسلمان کی باری ہے کہ ہندو اسے ووٹ دے کر مسلمانوں کی حکومت بنوائیں جس کے وزیر اعلیٰ مسلمانوں کے لیڈر فلاں ہوں گے۔ اب سپریم کورٹ یا تو الیکشن کمیشن کو حکم دے کہ وہ ایسے لوگوں کے خلاف کاروائی کرے یا حکومت کو لیکن اس کا بھی خیال کرے کہ پھر برسوں مقدمہ نہ چلے اور بات جہاں تھی وہیں رہ جائے۔ سپریم کورٹ نے جنم اشٹمی کے موقع پر مہاراشٹر کو حکم دیا تھا کہ دہی کی ہانڈیاں۲۰ فٹ سے زیادہ اونچی نہ باندھی جائیں۔ وہ حکم باقی رہا اور نہ کتنی جگہ ۴۰ فٹ پر ہی باندھی گئیں اور حکومت جان بوجھ کر تماشا دیکھتی رہی۔ اب حکم کی پابندی صرف الیکشن مینی فیسٹو میں ہوگی کہ بی جے پی رام مندر کا ذکر نہیں کرے گی لیکن تقریریں کیا ہوں گی؟ یہ سب کو معلوم ہے جس کا نمونہ سبرامنیم سوامی کا سپریم کورٹ پھر جانا ہے تاکہ ہندوؤں کو معلوم ہوتا رہے کہ بی جے پی جلد سے جلد رام مندر بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت آر ایس ایس کے غلاموں کی حکومت ہے اور اس کے سربراہ صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ وہ سیکولرازم کو نہیں مانتے۔ کیا اس کے بعد بھی سپریم کورٹ کے حکم پر عمل ہوسکتا ہے؟