فسطائیت کا گھناؤنا چہرہ۔۔گؤ آتنک واد اور وزیراعظم کی پینترے بازی! (تیسری اور آخری قسط) ۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

03:52PM Mon 24 Jul, 2017
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  گزشتہ قسط میں اس بات کا سرسری جائزہ لیا گیا تھا کہ سابقہ ڈھائی تین سال کے عرصے میں مودی راج میں گائے ماتا کے نام پر دہشت پھیلانے والے گؤ آتنکیوں نے سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہجوم کی شکل میں درجنوں مسلمانوں کو سر عام قتل کرڈالا ہے ۔اس طرح ہجوم کی شکل میں جان لیوا حملے کا کرنے کااہم مقصد قانون کی آنکھ میں دھول جھونکنا ہوتا ہے جس سے انفرادی معاملہ بنانے اورعدالت میں کسی پر جرم ثابت کرنے میں پولیس کو دشواری پیش آ تی ہے۔ ہم نے اسی ضمن میں اس بات کا بھی اشارہ کیاتھا کہ بیف لے جانے، بیف گھر میں رکھنے، مویشی ٹرانسپورٹ کرنے یا گؤ ونش کے جانور ذبح کرنے کے علاوہ مویشی چوری کرنے کے الزام میں بے رحمانہ پٹائی کرنے کے سینکڑوں معاملات ملک بھر میں ایسے ہیں جہاں ہجوم نے مسلمانوں اور دلتوں کو شدید زخمی اور ادھ مرا کرکے چھوڑا ہے۔ عثمان انصاری کا معاملہ : اس قسم کے بے شمار واقعات میں ایک واقعہ جھارکنڈ کے ایک دیہات میں پیش آیا تھا جس میں عثمان انصاری نامی ایک بزرگ کو سینکڑوں افراد پر مشتمل ہجوم نے اس لئے جان سے مارڈالنے کی کوشش کی کیونکہ ان کے گھر کے سامنے ایک مردہ گائے پڑی ہوئی پائی گئی۔ حملہ اس قدر شدید تھا کہ ہجوم کے ہاتھوں مرنے سے عثمان انصاری کو بچانے کے لئے پولیس کو فائرنگ تک کرنی پڑی تھی جس میں دو لوگ زخمی بھی ہوگئے تھے۔ شدید طور پر زخمی عثمان انصاری اور اس کے اہل خانہ کو تو بچا لیا گیا ، لیکن ہجوم نے ان کا گھر جلا کر خاکستر کردیا۔اس واقعے کے تعلق سے یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ عثمان انصاری کو اسپتال منتقل کرنے سے روکنے کے لئے پولیس پر ہجوم نے جو سنگباری کی تھی اس میں50سے زیادہ پولیس اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔اس سچویشن کو دیکھ کر سوچنا پڑتا ہے کہ:

در و دیوار اتنے اجنبی کیوں لگ رہے ہیں خود اپنے گھر میں آخر اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے

سمبت پاترا اوررام مادھوکا متضاد موقف: ابھی چند دن قبل آر ایس ایس کے ایک جانے پہچانے لیڈر اور بی جے پی کے نیشنل جنرل سکریٹری رام مادھو نے بنگلورو میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے گؤ رکھشا کے نام پر تشدد اور قتل و غارت گری مچانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ کہ گؤ رکھشا کرنا ایک مقدس کام ہے، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انسانی جان گائے سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے۔" دوسری طرف بی جے پی کے ہی قومی ترجمانspokepersonسمبت پاترا نے پوری دنیا کے سامنے ٹی وی پر یہ موقف رکھا تھا کہ گائے کا گوبر جو ہوتا ہے وہ کوہِ نو ہیرے سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔اور اس نکتے کو انہوں نے سپریم کورٹ کے جھولے میں ڈال دیاتھا،حالانکہ سپریم کورٹ نے اپنے ایک تبصرے میں صرف اس معاملے میں پیش کی گئی ایک رپورٹ کو حوالہ دیا تھا۔بہرحال رام مادھو کے بیان کو نہ ہی نیشنل میڈیا میں کوئی بڑا کوریج ملا او ر نہ کرناٹکا کے ہوش مند عوام نے اس پر بغلیں بجائیں ۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بی جے پی کا نشانہ مستقبل قریب میں منعقد ہونے والے کرناٹکا اسمبلی انتخابات ہیں، اس لئے زمین کو نرم کرنے کے لئے اس طرح کی عیاری اور منافقت سے کام لینااس کے لئے ضروری ہوگیا ہے۔ یہ سلسلہ گراہم اسٹین سے شروع ہوا ہے: زعفرانی بریگیڈ کے ذریعے ہندوتوا کے مقاصد پورے کرنے لئے" ہجوم کے ہاتھوں انصاف اور قتل" یا mob lynchingکا معاملہ 22اور 23 جنوری 1999کی درمیانی شب میں پہلی بار سامنے آیا جب آسٹریلین عیسائی پادری گراہم اسٹین(۵۸سال) اور اس کے دو کم عمر بچوں فلپ (۱۰سال) اور ٹیموتھی (۷سال)کو بجرنگ دل کے جنونیوں نے اڑیسہ کے منوہر پور دیہات میں قبائلیوں کے ساتھ مل کران کی بند کار میں زندہ جلا کرخاک کردیاتھا۔کہا جاتا ہے کہ اسٹین اپنے ایک قلمی دوستpen freindسانتانوستپاتھی سے ملنے کے لئے 1965میں اڑیسہ کے گاؤں باری پاڑہ آیاتھا، جبکہ وہ محض ہائی اسکول سے فارغ ہونے والا ایک نوجوان لڑکا تھا۔ لیکن اسے ہندوستان کی مٹی اس قدر بھا گئی کہ وہ ہمیشہ کے لئے اسی علاقے کا ہوکر رہ گیا۔اور پھر وہ جذامیوں کے علاج اور راحت کے لئے وہاں پر Leprosy Mission of Australiaکے تحت قائم کیے گئے لیپروسی ہوم میں سماجی خدمات سے جڑگیا اور زندگی بھر سماجی خدمات کے ساتھ عیسائیت کی تبلیغ میں لگا رہا۔زعفرانی بریگیڈ نے اس پر قبائیلیوں میں تبدیلئ مذہب کی تحریک چلانے کا الزام لگاتے ہوئے اس کے خلاف ماحول تیار کیا اورپھر بجرنگ دل سے وابستہ مجرمانہ پس منظر رکھنے والے درندہ صفت داراسنگھ کی قیادت میں اسٹین اور اس کے دو معصوم بچوں کو بڑے اطمینان سے زندہ جلادیاگیا۔اور اس وقت ہوائیں سرگوشیاں کرنے لگیں:

لوٹیں اداس ، چراغوں پہ سوگ طاری ہے یہ رات آج کی ، انسانیت پہ بھاری ہے

اس وقت بھی مرکز میں بی جے پی کی حکومت تھی: یہاں یہ پہلو بڑا ہی اہم ہوجاتا ہے کہ اس وقت کے حالات اور موجودہ سچویشن میں کافی یکسانیت پائی جاتی ہے۔ اس زمانے میں بھی مرکزمیں بی جے پی کی حکومت تھی اورہندوتوا کا ماڈریٹ اور روادار چہرہ کہلانے والے اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان تھے۔اس وقت اٹل جی نے اس درندگی پر شر م سے سرجھک جانے کی بات کہی تھی، جیسے کہ ہندوتوا کے سخت گیر چہرے والے موجودہ وزیراعظم بھی کہہ رہے ہیں۔ اس وقت اس وحشیانہ واقعہ کی سرکاری تحقیقاتی ٹیم کے رکن اوربی جے پی حکومت کے وزیر دفاع جارج فرنانڈیز (جو کہ پیدائشی سوشلسٹ ہونے کے باوجود آخری وقت میں فسطائیت کے علمبرداروں کے ساتھ مل گئے تھے)نے کہا تھا کہ جہاں یہ واقعہ ہوا ہے وہاں کانگریس کی حکمرانی ہے ۔ اس لئے ریاستی حکومت کو دارا سنگھ کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے ۔یہ دراصل ہماری مرکزی حکومت کو کمزور کرنے کی ایک سازش ہے۔اور مزیدار بات تو یہ ہے کہ آج کے حالات میں بھی مودی سرکار کے نمک خوار وزراء ارون جیٹلی،روی شنکر پرساد اور مختار عباس نقوی وغیرہ کا بھی کچھ ایسا ہی موقف ہے۔ مودی ،گجرات اور بابو بجرنگی کے انکشافات : اڑیسہ میں اسٹین گراہم کا سانحہ زعفرانی بریگیڈکے ہجوم کے" ہاتھو ں انصاف اور قتل "کے خونیں منصوبے کا ایسڈ ٹیسٹ تھا۔ اس کی کامیابی کے بعد سربراہِ ریاست نریندر مودی کی پشت پناہی میں اس طریقے کوبڑے منظم اور وسیع پیمانے پر گجرات میں 2002کے مسلم کش فسادات کی صورت میں کامیابی کے ساتھ آزمایا گیا۔مسلمانوں کے اس قتل عام کے دوران جس درندگی کا مظاہرہ کیا گیا اس کی تفصیل خود بابو بجرنگی جیسے زعفرانی بریگیڈ کے وحشی کمانڈر کی زبانی اسٹنگ آپریشن میں سامنے آئی ہے جسے سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اوردل خون کے آنسو رونے لگتاہے۔(یو ٹیوب پریہ ویڈیو کلپس موجود ہیں)اس نے بڑی بے دردی سے اپنی ظالمانہ کارروائیوں کی روداد سناتے ہوئے جو کچھ کہا ہے اس میں میری نظر میں دو بہت ہی اہم نکات ہیں۔ ایک تو اس نے گجرات میں مسلم کشی کے لئے نریندرمودی کے درپردہ حمایتی رول پر بے جھجک روشنی ڈالی ہے۔ دوسرے اس نے چھوٹے چھوٹے اور معصوم مسلم بچوں کے ساتھ خواتین کو بھی چیرنے، کاٹنے اور جلادینے کے واقعات مزے لے کر سنائے ہیں اور اس درندگی کی وکالت کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ زعفرانی دہشت گردوں کا مقصد اس کے پیچھے بس یہ تھا کہ مسلمانوں کی نسل کو ہی ختم کیا جائے،ورنہ اگر انہیں چھوٹے بچے سمجھ کر چھوڑدیا جاتا تو پھر ان کی نسل آگے بڑھتی رہتی۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ" مسلمانوں کو مارڈالنے کے بعد اسے بڑا روحانی سکون ملتا تھا جیسے مہارانا پرتاپ سنگھ جیسا کوئی بڑا کارنامہ انجام دیا گیا ہو!" اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آر ایس ایس کی طرف سے سنگھ پریوار کے کیڈر میں مسلمانوں کے خلاف بھرا گیانفرت کا زہر کس انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ ؂

میں کوئی حالِ ستم منھ سے کہوں یا نہ کہوں اے ستمگر ترے انداز کہے دیتے ہیں

اب یہ گیم دیش بھر میں کھیلا جارہا ہے: ظاہر سی بات ہے کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ کے طورگجرات میں اپنی ناک کے نیچے مسلم کش خونیں کھیل کی کھلی چھوٹ دینے والے مودی مہاراج جب دہلی کی راج گدّی پر براجمان ہوگئے ہیں تو پھر کونسی طاقت ہے جو ان درندوں کوقابو میں کرسکے گی جنہیں انسانی خون کا ذائقہ لگایا جا چکا ہے۔لہٰذاساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ دیش بھر میں گائے کی رکھشا کے نام پر یا بیف کھانے کے ایشو کو لے کر وحشیانہ کارروائیاں روزانہ کا معمول بن گئی ہیں۔ ریاست کرناٹکا کے ساحلی علاقے میں تو مسلمانوں اور دلتوں کے علاوہ ہندوؤں کے دیگر ذیلی فرقوں کے ساتھ خود بجرنگ دل کے کارکنوں اور عام غیر مسلم کسانوں پر بھی گائیں اسمگل کرنے یا چُرانے کا الزام لگاکر مارپیٹ اور قاتلانہ حملے شروع ہوگئے ہیں۔اور د ن بدن گؤ آتنکیوں کا تانڈو رقص تیز سے تیز تر ہوتا جارہا ہے۔یعنی جب سئیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا! وزیر اعظم کا ایک او رپینترا: ہندو رراشٹر کے اپنے بنیادی ٹارگیٹ کو پورا کرنے کے لئے عیاری کے ساتھ ہر موقع کا استعمال اپنے حق میں کرنا اب فسطائی طاقت کے ضروری ہوگیا ہے ۔ ایسے میں اپنی شاطرانہ چال اور پینترے بازی کے لئے سر فہرست رہنے والے ہمارے وزیر اعظم نے سول سوسائٹی میں اپنی ساکھ اور بھرم بنائے رکھنے کے لئے ایک گیم اور کھیلا ہے۔ ابھی پارلیمنٹ کے مانسون سیشن کے آغاز سے قبل سیاسی پارٹیوں کی مشترکہ میٹنگ میں انہوں نے گؤبھکتی کے نام پر تشدد برپا کرنے والوں کے خلاف ایک اور"سخت بیان" دیتے ہوئے کہا کہ اسے کسی بھی حالت میں برداشت نہیں کیا جائے ۔ اور ریاستی حکومتوں کو اس کے خلاف کڑے اقدامات کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم کے اس بیان پر بھولے بھالے عوام کی بہت بڑی تعدا دیقیناًخوش ہوگئی ہوگی۔ لیکن حالات پر نظر رکھنے والی آنکھیں اور تجزیہ کرنے والے دماغ ابھی اتنے کمزور نہیں ہوئے ہیں کہ ان پر اس بیان کے پس پردہ وزیر اعظم کے مقاصد عیاں ہونے سے رہ جائیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک مخصوص فرقے کے خلاف مسلسل زہر افشانی سے برین واش کرتے ہوئے جس نوجوان نسل کو پروان چڑھایا اور ذہنی و جسمانی تربیت کے بعد جس طرح میدان میں چھوڑا گیا ہے، اسے اب قابو میں کرنا یا پہلے سے دئے گئے ٹارگیٹ سے پیچھے ہٹانا اب 56انچ کے سینے کے بس میں نہیں رہا۔لہٰذا وزیر اعظم کا یہ بیان بھی سابقہ بیانوں کے طرح بے نتیجہ ہی رہے گا اور اسے یوں ہی ہوا میں اڑا دیا جائے گا۔ اور خود وزیر اعظم کو اس کا احساس نہیں ہوگا اس پریقین کرنا مشکل لگتا ہے۔

چلو کہ عذرِ ستم کی بھی قید ختم ہوئی جو اک نقاب تھا وہ بھی کہاں ہے چہرے پر

سپریم کورٹ میں حکومت کا موقف: ان دنوں گؤ رکھشا کے نام پرگائے کی نگرانی یا cow vigilantismکرنے والے پر تشدد گروہوں پر پابندی لگانے کے لئے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی گئی ہے۔ اس پر سماعت کے لئے سپریم کورٹ نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کوجو نوٹس دیا تھا اس کے جواب میں مرکزی حکومت نے عدالت عالیہ میں اپنا تازہ ترین حلفیہ بیانaffidavit داخل کیا ہے کہ مرکزی حکومت کسی بھی ریاست میں کسی بھی قسم کی گؤ نگرانی cow vigilantismکی حمایت نہیں کرتی۔اور ملک میں قانون کے دائرے میں اس قسم کے گروہوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ (جانکاروں کے خیال میں مرکزی حکومت کا یہ بیان ہاتھی کے دکھانے کے دانتوں جیسا ہے )اس کے بعدسپریم کورٹ نے تمام ریاستی حکومتوں کو اپنا حلف نامہ داخل کرنے کو کہا ہے۔ جبکہ بی جے پی کی اقتدار والی گجرات اور جھاکنڈ کی ریاستی حکومتوں نے اپنا بیان داخل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے پرتشدد واقعات کے لئے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں ۔اب کیا کارروائیاں کی گئی ہیں اور کتنی حد تک مؤثر ہوئی ہیں، اس کی تفصیل ساری دنیا جانتی ہے۔ آر ایس ایس کے منموہن وئیدیا بھی بولے: گائے کے نام پر پھیلائے جارہے آتنک واد کے لئے پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن اور سماج میں سول سوسائٹی کے امن اور انصاف پسند عوام کی مخالفت کے چنگل میں پھنسے سنگھ پریوار اور بالخصوص آر ایس ایس کے لئے فی الحال وقتی طور پر کچھ پسپائی اورالجھن کی صورتحال ضرور پید اہوئی ہے۔ اسی پس منظر میں آر ایس ایس کے اکھل بھارتیہ پرچار پرمکھ مسٹر منموہن وئیدیا کو بھی گؤ بھکتی کے نام پر تشددسے اپنی تنظیم کا پلّہ جھاڑنے والا بیان دینے کی نوبت آگئی۔ مسٹر وئیدیا نے کہا کہ آر ایس ایس کسی بھی قسم کے تشدد کی حمایت کبھی نہیں کرتی۔(یہ الگ بات ہے کہ اس کا پالیسی پروگرام اور کارکنان کی عملی تربیت اس سے الگ کہانی سناتی ہے)وئیدیا نے مطالبہ کیا اس تشدد کو آر ایس ایس کے ساتھ جوڑنے کے بجائے جو لوگ اس کے لئے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے ۔ساتھ ہی مسٹروئیدیا نے یہ بھی کہا گؤ رکھشا کی تحریک صدہا برس سے چلی آرہی ہے۔ تشدد کواس کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہیے۔ چت بھی اپنی پٹ بھی اپنی !: اس وقت ملک میں موجود صورتحال کاسنجیدگی سے جائزہ لیں تو احساس ہوتا ہے کہ بشمول وزیر اعظم دیگربی جے پی کے وزراء اور سنگھی قائدین کی طرف سے یہ جو کبھی کبھارتشدد کی مذمت کی جاتی ہے اس کامقصد ایک طرف امن اور انصاف پسند عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟وزیر اعظم نے" صاف لفظوں" میں ایک طرف یہ کہا کہ گائے کے تحفظ کے نام پر تشدد کو کسی بھی حالت میں برداشت نہیں کرنا چاہیے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک داؤ اور چل دیا ۔ انہوں نے لاء اینڈ آرڈر کو ریاستوں کا مسئلہ بتاتے ہوئے گؤ رکھشا کے نام پر قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف ریاستی حکومتوں کوقانونی کارروائی کرنے کا مشورہ دیا۔ اس سے مودی اور سنگھ کے لئے چت بھی اپنی اور پٹ بھی اپنی والی صورتحال پیدا ہونا یقینی ہوگیا۔ اس لئے کہ جہاں بی جے پی برسراقتدار ہے وہ ریاستیں تو زعفرانی بریگیڈ کے لئے محفوظ گڑھ ہیں ۔وہاں گؤ آتنکیوں کا کوئی بال بھی بیکا کرنے والا نہیں ہے۔اور جن ریاستوں میں غیر بی جے پی سرکاریں ہیں وہاں اگر گؤ آتنکیوں کے خلاف سخت اقدامات نہیں ہوتے تو عوام کی نظروں میں حکومتیں اور سیکیولر کہلانے والی پارٹیاں مجرم ہوجاتی ہیں اور خود بی جے پی کنارے کھڑے ہوکر تنقید کرنے کی پوزیشن میں ہوگی کہ مرکزی حکومت کے سخت موقف کے باوجود ریاستی حکومتیں اگر عملی اقدام نہ کریں تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ اس طرح غیر بی جے پی ریاستی حکومتوں کے لئے ووٹ کا خسارہ یقینی ہوگیا جس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ہونا ہے۔ اور اگر بالفرض ریاستی حکومتیں گؤ آتنکیوں اور زعفرانی غنڈہ گردی پر لگام کستی ہیں تو پھر ہندوتوابریگیڈ آئندہ انتخابات کے دوران پوری آزادی کے ساتھ اس مسئلے کو ہندوؤں کے خلاف غیر بی جے پی ریاستی حکومتوں کا جبر و استبداد بناکر پیش کرے گا۔جس سے ایک طرف بی جے پی کے ووٹ بینک میں اضافے کے ساتھ اس کاسیاسی مفاد پورا ہوگا اوردوسری طرف آر ایس ایس کے ہندو راشٹرکے ایجنڈے کو مزید تقویت ملے گی۔یعنی بات صاف ہے کہ ملک میں زعفرانی دہشت گردی کا عروج ابھی نقطۂ انتہا پر پہنچنا باقی ہے۔ اس سے پہلے اس کےزوال کے امکانات بہت ہی مدھم نظر آرہے ہیں۔ خدا خیر کرے!

وقت کے کتنے ہی رنگوں سے گزرنا ہے ابھی زندگی ہے تو کئی طرح سے مرنا ہے ابھی

(نوٹ: اس مضمون میں تحریر کردہ مواد مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مشتمل ہے۔مضمون نگار کی رائے سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ)