تنظیم میڈیا ورکشاپ۔ مثبت سمت میں بڑھتے قدم۔ کیا ایک بڑی چھلانگ لگانا ممکن ہے! (پہلی قسط)۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

03:46PM Fri 19 Oct, 2018
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  الحمدللہ مجلس اصلاح و تنظیم کی طرف سے منعقدہ صحافتی کارگاہ (جرنلزم ورکشاپ) بحسن و خوبی کامیابی سے ہمکنار ہوا جس کا اندازہ شاندارختتامی اجلاس( n veledictory functio)سے ہوا۔ دراصل اس ہفتے میں LGBTQکمیونٹی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے پس منظر میں مضمون لکھنے کے پروسیس میں تھا، لیکن تنظیم کے میڈیا ورکشا پ کے اختتامی اجلاس میں شرکت اور کچھ مقررین کے خطابات سننے کے بعدمیڈیا میں مسلم نمائندگی مسائل کے موضوع کو ہی ترجیح دینے کا ارادہ کرلیا ۔لہٰذا اسی حوالے سے آئندہ دو تین قسطوں میں کچھ تجزیاتی مطالعہ اورindepthاسٹڈی کریں گے۔ سب سے پہلے تو میڈیا میں اپنا کیریئر بنانے میں دلچسپی رکھنے والوں کو اور ذراسا بھی ایسا رجحان رکھنے والے طلبہ کو ترغیب دینے کی اس کامیاب کوشش پر تنظیم کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے ، لیکن اس کو عملی طور پر بڑے متاثر کن اور نتیجہ خیز انداز میں مکمل کرنے کا سہرا یقینی طور پر میڈیا واچ کمیٹی کے کنوینر جناب آفتاب حسین کولا، معاون کنوینر جناب عنایت اللہ گوائی ، ان کی ٹیم اور پھر سب سے بڑھ کر مادھیما کیندرا منگلورو اوراخبار’ وارتھا بھارتی ‘کے چیف ایڈیٹر عبدالسلام پُتّگے کے سر جاتا ہے جن کی منظم منصوبہ بندی سے یہ مرحلۂ دشوار جو تھا وہ آسان ہوگیا۔

میڈیا او رمسلم دشمنی کا رجحان: میڈیا میں مسلم دشمنی کا رجحان کوئی بہت زیادہ پرانا مسئلہ نہیں بھی ہے تو بالکل نیا نیا بھی نہیں ہے۔ لیکن اس میں شدت یقیناًپچھلی دو تین دہائیوں میں آگئی ہے اور اس کا توڑ کرنے کی کوششیں بہرحال ہوتی رہی ہیں۔سارے ملک میں بلکہ سارے عالم اسلام اور مسلمانوں کے خلاف میڈیا کی جو صف بندی ہوئی ہے اس سے ہر کوئی باخبر ہے ۔اس پر زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہم بھٹکل کی بات کریں تو یہاں بھی گزشتہ چالیس پچاس برسوں سے ہی ریجنل اورvernacularمیڈیا میں فسطائی ذہنیت والے دو ایک اخبارت نے یہ مہم چھیڑ رکھی تھی۔ مگر ۱۹۹۰ ؁ء کی دہائی کے ساتھ ہی کنڑا میڈیا کا ایک بڑا طبقہ زعفرانی رنگت کا مظاہرہ کرنے لگا۔ پھر۱۹۹۳ ؁ء بھٹکل فسادات کے ساتھ یہ سلسلہ بہت ہی تیز اور زہرناک ہوگیا۔ اور تنظیم نے اسے سنجیدگی سے لیا: فسادات کے بعد1994 ؁ء میں تنظیم کی قیادت سنبھالنے والی ٹیم کے سامنے جہاں جگن ناتھ شیٹی کمیشن کی تحقیقات۔ چترنجن مرڈر کیس میں رامچندریا کمیشن کی تحقیقات۔اسی سے متعلق سی بی آئی کی تحقیقات۔ پولیس اور آر اے ایف کے چھاپے۔ مسلمانوں کے ٹھکانوں ، یہاں تک کہ قبرستان سے ہتھیارات،بندوقیں،اے کے 47کے میگزین، آر ڈی ایکس اور گولہ بارود برآمد کرنے کی سازشیں اور پھر فسادات میں پولیس کی طرف سے ملوث بتائے گئے نوجوانوں کے مقدمات کی پیروی جیسے اہم اور سنگین معاملات کے ساتھ ہی ساتھ اس وقت میڈیا کے محاذ پربھی مخالفانہ اور شرپسندانہ پروپگنڈے کے مقابلے بھی جمے رہنا اور ممکنہ حد تک اپنے موقف کو میڈیا میں پیش کرنا ایک دشوار کن مسئلہ تھا۔لیکن الحمدللہ اس وقت کی ٹیم اور قیادت نے ہی میڈیا واچ کمیٹی قائم کرکے حتی المقدور بڑے احسن طریقے پر اس مسئلے سے نمٹنے کی کامیاب کوششیں کی تھیں۔

میڈیا کے ساتھ بہتر روابط: اُس وقت تنظیم کی متحرک ٹیم میں راقم الحروف بھی شامل تھااور بڑی حد تک میڈیا سے متعلق ایشوز پرمیں ہی زیادہ توجہ دیا کرتاتھا۔ ہم نے مقامی رپورٹرس کے علاوہ ضلعی اور ریاستی سطح کے رپورٹرس کے ساتھ برابر رابطہ بنائے رکھا تھا۔ایک طرف زہریلی سوچ رکھنے اور خفیہ ایجنڈہ رکھنے والے اخباری نمائندوں کے ساتھ پورے دلائل اور حقائق کے ساتھ الجھنے یا پنگا لینے میں بھی ہمیں کوئی باک نہیں تھاتو دوسری طرف صاف ذہن اور معاملہ فہمی کا مزاج رکھنے والے رپورٹرس کے ساتھ دوستانہ روابط بھی مستحکم کرلیے گئے تھے۔ اس وقت بھی دو ایک بڑے انگریزی اورکنڑا اخباروں سے منسلک نمائندے ایسے تھے جن کی تھوڑی بہت ضرورت ہم پوری کردیتے تھے اور وہ تنظیم کے تعلق سے حقائق پر مبنی مثبت نیوز بنانے اور ہمارے تردیدی بیانات کو ہمارے منشاء کے مطابق اپنے اخبار میں شائع کروانے میں ہمارا تعاون کیا کرتے تھے۔اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ کہ اخبار والوں کے ساتھ یہ rapportبنانے میں ہمیں اس وقت کڑی محنت اور پلاننگ کرنی پڑی تھی اور الحمدللہ بڑی حد تک ہم اس میں کامیاب بھی ہوگئے تھے۔

کھیل تو نہیں یارو راستے کی تنہائی کوئی ہم کو دکھلائے چل کے دو قدم تنہا

 

ہمارے اپنے میڈیا کی صورتحال: اس زمانے میں مقامی طور پر ہمارے بھٹکلی مسلمانوں کے پاس ویب سائٹس یا سوشیل میڈیا جیسی کوئی چیز نہیں تھی۔ پرنٹ میڈیامیں اردو کا ایک اخبار’ الاتحاد‘ تھا۔ دوسری طرف جناب آفتاب کولا نے انگریزی اخبار ’بھٹکل ٹائمز ‘ شروع کیا تھا۔عنایت اللہ گوائی صاحب نے’ الاتحاد‘ کے علاوہ انقلاب ممبئی اور دہلی کے ہفت روزہ اخباروں کے لئے فری لانسر کے طور پر رپورٹنگ کی شروعات کردی تھی۔کنڑا اور انگریزی محاذ پر ہمارے پاس ریاستی سطح پربھی اپنا کوئی اخبار نہیں تھاجو سنگھی ذہنیت کے مقابلے میں ڈٹ کر مسلم موقف کو پیش کرتا۔ساحلی پٹی پر ایک’ سنمارگا ‘ اخبار تو جب بھی تھا اور اب بھی ہے ، لیکن اس کے ساتھ تحریک اسلامی ٹیگ ہے اور اس کی حیثیت نیوز پیپر کی بجائے ایک نظریاتی ہفت روزہ (ویوزویکلی) رہی ہے۔ اس پس منظر میں کہا جا سکتا ہے کہ بھٹکل کی سطح پرمیڈیا کے آنگن میں ہم نے 93 ؁ء کے بعد لڑکھڑاتے قدموں سے چلنا شروع کیا تھا۔

میڈیاکا پہلا ورک شاپ1998میں: میڈیا میں ہمارے موقف کو پیش کرنے کے لئے اس زمانے میں تنظیم کے توسط سے جو دو اہم اقدامات ہوئے اس میں تنظیم کی ’میڈیا واچ ‘ کے عنوان سے ایک ذیلی کمیٹی کا قیام تھاجو میڈیا سے متعلقہ مسائل کو دیکھنے کے لئے بنائی گئی تھی۔اور اسی میڈیا واچ کمیٹی کے تحت جناب آفتاب کولا کی کنوینرشپ میں ہی پہلا دس روزہ جرنلزم ورکشاپ 1998 میں منعقدہواتھا،جو 21 سے 30اکتوبرتک چلایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ جناب آفتاب کولا کا نام اس وقت لیمکا بُک آف ریکارڈس میں (Youngest Editor of any Registered News Paper in India)جواں سال جرنلسٹ کے طور پر درج ہوچکا تھا۔ اس میڈیا ورکشاپ میں غالباً پندرہ بیس طلبہ نے حصہ لیا تھا اور اس وقت بھی جناب عبدالسلام پُتگے نے ورکشاپ کے انعقاد اور بالخصوص صاحب وسیلہ (ریسورس پر سن ) کا انتظام کرنے میں پوری دلچسپی لی تھی۔ جناب عبدالسلام نے اس وقت میڈیا کی معروف ترین شخصیات کو مدعو کرکے ورکشاپ کے شرکاء کو استفادے کا موقع دیا تھا۔

  [caption id="attachment_179383" align="aligncenter" width="640"] (فائل فوٹو: میڈیا ورکشاپ1998... بشکریہ آفتاب حسین کولا)[/caption]

فالو اَپ نہیں ہوسکا: جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اُس ورکشاپ میں جن لوگوں نے شرکت کی تھی ان میں سے دو ایک نے تھوڑے عرصے تک میڈیا سے وابستگی رکھی تھی، مگر کتنے لوگ عملی طورآج بھی میڈیا سے وابستہ ہیں اس سلسلے میں وثوق کے ساتھ کہنا مشکل ہے ، کیونکہ ایک تو ہمارا follow up اس سلسلے میں برابر نہیں رہااور کچھ میری یاد داشت بھی ساتھ نہیں دے رہی ہے۔لیکن سچائی یہ ہے کہ چاہنے کے باوجود بھی ہم نوجوانوں کو تنظیم کی معرفت سے میڈیا میں بھیجنے کے منصوبے پر عمل کرنے پر پوری طرح توجہ نہیں دے سکے۔ اس لیے کہ ایک تو ان پانچ دس برسوں کے دوران دوسرے سنگین مسائل کا انبار سامنے پڑا رہا اور اس سے نکلنے کی کوششوں میں ہی ساری توانائی اور صلاحیت صَرف ہوئی جارہی تھی۔ دوسری طرف ہمارے اپنوں میں ہی کچھ کرم فرما ایسے تھے، جو ہمارے قدموں میں بیڑیاں اور منصوبوں میں رخنے ڈالنے کا سبب بن رہے تھے۔ وسائل بہت ہی زیادہ محدود ہوگئے تھے بلکہ کردئے گئے تھے۔جن کی تفصیلات میں جانا ایک نیا پنڈورا باکس کھلوانے کے برابر ہوگا۔بس اتنا کہنا کافی ہے کہ بعض دفعہ ہماری صورتحال کچھ ایسی ہوجاتی تھی کہ: ؂

 

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

 

لہٰذا اس پہلو سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے اگر ہم اس موضوع پر سوچتے ہیں تو لگتا ہے کہُ اس میڈیا ورکشاپ سے عوام اور نوجوانوں کو میڈیا کی راغب کرنے اور شعوری بیدار لانے میں ایک حد تک کامیابی ضرور ملی تھی۔

تنظیم کا دوسرا بڑا مستحسن اقدام: اسی دور میں تنظیم کے بینر تلے ہماری ٹیم سے جو ایک مستحسن اور بہت بڑا کام ہوا۔ وہ کنڑا زبان میں صحافتی خدمات انجام دینے کے لئے منگلورو میں مادھیما کیندرا (میڈیا سینٹر)کے قیام کی کوششوں میں دو حوصلہ مند اور پرعزم نوجوان جناب یاسین ملپے اورجناب عبدالسلام پُتّگے کی بھٹکلی مسلمانوں کی جانب سے ہمت افزائی اور ان کی پشت پناہی کی راہیں ہموار کرنا تھا۔ یہ دونوں نوجوان تحریک اسلامی کی طلبہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او)کے cadreسے نکلے تھے۔ فکری طور پربالغ النظر اور اجتماعی وملی مفادکے لئے تربیت یافتہ ذہن کے ساتھ آگے آنے والے ان نوجوانوں نے جب اپنے پروجیکٹ کے ساتھ ہم سے رابطہ کیا تو تنظیم میں ہم لوگوں نے معززین شہر، اہل خیر اور اصحابِ زر کے ساتھ ان نوجوانوں کی خصوصی نشست منعقد کی ۔ اس پروجیکٹ کی اہمیت اور ضرورت کو پوری طرح اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ جس کی وجہ سے قائد قوم جناب سید خلیل الرحمن صاحب اور جناب محتشم عبدالغنی صاحب مرحوم وغیرہ اس منصوبے سے جڑ گئے ۔(ایک نشست میں تورئیس قوم جناب مظفر کولا صاحب نے بھی بڑی رقم بطور تعاون دینے کا وعدہ کیاتھا، مگر بعد میں عملاً وہ بات بنی یا نہیں اس کی خبر نہیں ہے) پھر اس کے بعدجناب سید خلیل الرحمن اور محتشم عبدالغنی مرحوم کے عملی تعاون سے کنڑا روزنامے ’وارتا بھارتی‘ کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔جو الحمدللہ آج کنڑاپرنٹ اور ویب میڈیامیں مسلم کاذ کو اجاگر کرنے اوربے باکی کے ساتھ حق پرستی کا مظاہرہ کرنے میں اپنا مقام اور اپنی پہچان بنا چکا ہے۔ آج بھی ہمیں اس بات سے دلی تسکین ہوتی ہے کہ ’وارتابھارتی‘ کاپودالگانے اور اس کی جڑوں کو پانی پہنچانے کا انتظام کروانے کی کوشش میں ہمارا بھی اک ذراسا حصہ رہاہے۔ الحمدللہ!۔۔یہ الگ بات ہے کہ: ؂

اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں

 

ایک قدم سے دوسرے قدم تک20برس ؟: اس طرح اجمالی خاکہ پیش کرنے کا ایک سبب آج کی نوجوان نسل کو ماضی کی صورتحال سے باخبر کرنے کے علاوہ یہ بھی تھا کہ اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حالیہ میڈیا ورکشاپ کے لئے رات دن کوشاں رہنے والے ہمارے دوست جناب عبدالسلام پتگے صاحب نے یونہی سرسری تبصرہ کیا تھا کہ ایک میڈیا ورکشاپ سے دوسرے میڈیا ورکشاپ تک آنے میں تنظیم کو 20سال کا عرصہ لگ گیا ۔ اور اب تیسرا ورکشاپ شائد 2038منعقد کیا جائے گا۔مجھے اس سے گمان ہواکہ حاضرین کو اور خاص کر نوجوانوں کو بھی یہ درست لگا ہوگا کہ تنظیم اتنی سست رفتاری سے کام کرتی ہے اور مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتی ہے۔اور اگر ایسا تاثر جاتا ہے تو پھر یہ بات حقیقت کے برخلاف ہوگی۔ عبدالسلام صاحب کی اس بات میں کچھ حد تک سچائی ضرور ہے کہ جس طرح میڈیا کے مسئلے کوعملی طور پر لیا جانا چاہیے تھا، بظاہر اس طرح نہیں لیاگیا۔ مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ بھٹکل کی سماجی قائدین اور نوجوانوں نے اس طرف سے پوری طرح غفلت برتی ہو اور گھوڑے بیچ کر سو گئے ہوں۔ کچھ نہ کچھ کام ہواضرورہے: 98 ؁ء کے ورکشاپ کے بعدچاہے تنظیم کے بینر تلے کوئی بڑا عملی قدم میڈیا کے میدان میں اٹھایا نہ گیا ہو، لیکن عوام کے اندر شعوری بیداری یقیناًآئی ہے۔ایک تو خود’ وارتا بھارتی‘اخبار ہے جو 2003میں ظہور پزیر ہوااورجیسا کہ میں نے بتایابالواسطہ طور پر ہی سہی اس کو وجود بخشنے میں تنظیم کا تعاون بھی شامل رہا۔ اس کے علاوہ انفرادی طور پربھٹکل کے نوجوان مقامی سطح پر دستیاب وسائل کا بہتر استعمال کرتے ہوئے ان20 برسوں کے دوران میڈیامیں اپنا وجود بنائے رکھنے کی بساط بھرکوشش کررہے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ 93 ؁ء میں جہاں اردو میڈیا کے نام پر ایک’ الاتحاد‘ اخبار اور انگلش میڈیا کے طورپر ’بھٹکل ٹائمز‘ہمارے پاس تھا۔ وہاں 98 ؁ء میں بھٹکل نیوز اور 99 ؁ء کے اواخر میں ساحل آن لائن کی شروعات ہوئی۔شائد 2003 ؁ء میں دبئی سے’ بھٹکلیز ڈاٹ کام‘ کی نیوز پورٹل کی شکل میں ابتدا ہوئی ۔اور غالباً 2004 ؁ء میں ’ساحل آن لائن‘ کا دفتر بھٹکل میں کھلا۔پھر اس کے بعد2012 ؁ء ’فکر وخبر ڈاٹ کام ‘نئی آب وتاب کے ساتھ صحافتی میدان میں نمودار ہوا۔ایک اور نیوز پورٹل ’ہر پل آن لائن‘ بھی اپنے طور پر ہلکی پھلکی سرگرمی دکھارہا ہے۔ اس طرح بعد کے دنوں میں پرنٹ میڈیا بند ہونے کے باوجود عصری تقاضے کو پورا کرنے والے ویب سائٹ میڈیا کے دروازے کھل گئے اورآج اردو ، کنڑا اور انگریزی زبانوں میں یہ نیوزپورٹلس اپنے طور پر بڑی اہم خدمات انجام دے رہے ہیں ۔انفرادی طور پر بھی کچھ نوجوان( جن کی تفصیل ان شاء اللہ اگلی قسط میں آئے گی)ماس کمیونی کیشن میں گریجویشن یا پھر اپنی صلاحیت اورskillکی بنیاد پر بڑے میڈیا گروپس سے جڑ گئے ہیں اور وہاں اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا غلط ہوگا کہ بھٹکلی مسلمان اس پہلو سے پوری طرح غافل رہے ہیں۔ البتہ یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کہ جو کچھ پیش قدمی ہوئی ہے کیا وہ ضروریات کے لحاظ سے کافی ہے؟ کیا میڈیا میں ہماری موجودگی سے مسلم کاذ کو اجاگر کرنے میں کوئی کامیابی ملی ہے؟کیا اس سمت سفر سے کوئی اشارہ مل رہا ہے کہ کارواں ہمارے اصل ویژن اور مشن کے مطابق منزل مقصود کی طرف بڑھ رہا ہے؟ !۔۔ اور اس کا جواب صد فی صد اثبات میں دینامیرے زاویۂ نظر سے ممکن نہیں ہے!کیونکہ: ؂

دن کٹا جس طرح کٹا لیکن رات کٹتی نظر نہیں آتی

haneefshabab@gmail.com ( میڈیا ہاؤس کے امکانات اورزمینی سچائیاں کیا ہیں؟!۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔ اگلی قسط ملاحظہ فرمائیں)