دعوتی کام کی پبلسٹی کرنے والو جاگو!۔۔بُرے دن آنے والے ہیں!! ۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
ایک مسلمان کے لئے اپنے دین پر قائم رہنا احسن بات ہے ، لیکن دین کے قیام کے لئے غیر مسلموں میں دعوتی کام کرنامستحسن ترین اور دین کا مطلوب و مقصود کام ہے، جس کی توفیق جس کسی کو بھی ملے اس کے لئے اخروی فوز و فلاح میں بھلا کس کو شک ہوسکتا ہے۔ دین کا درد اپنے دل میں رکھنے والے ہمارے اکابرین اور دانشوروں کو بجا طور پر یہ شکایت رہی ہے کہ ہندوستان میں جس انداز اور جس پیمانے پرماضی میں غیر مسلموں میں دعوتی کام ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا۔ صدیوں تک اس ملک پرکسی نہ کسی زاویے سے مسلمانوں کی حکمرانی رہنے کے باوجود اتنی بڑی خدا نا آشنا اور کافرانہ و مشرکانہ آبادی کے سامنے اللہ کی وحدانیت اور ایمان کی دولت منظم اور منصوبہ بند طریقے پیش نہیں کی گئی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج یہاں مسلمان غیر مسلموں کی آنکھ کاکانٹا بن گئے ہیں اور ان کا دین ، ایمان اور زندگی سب کچھ داؤ پر لگ گیا ہے ۔
الحمدللہ دعوتی کام ہورہا ہے: ادھر پچھلی کچھ دہائیوں سے دین کی تبلیغ و اقامت کے تعلق سے بیدار اور باشعور دینی اداروں، جماعتوں اور تحریکات کی جانب سے الحمدللہ اپنے اپنے انداز اور بساط کے مطابق ملک میں غیر مسلموں کے بیچ دعوت دین کا کام باقاعدہ پالیسی پروگرام کے تحت انجام دیا جارہا ہے ۔اس میں ایک طرف دین کا صحیح تعارف اور دعوت الی اللہ کا پیغام کتابوں اور لٹریچر کے ذریعے پوری مستقل مزاجی کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے تو دوسری طرف غیر مسلم خیموں سے عملاًرابطہ قائم کرنے ، جلسے جلوس، سیمینار وغیرہ منعقد کرنے اور غیر مسلم سیاسی و مذہبی رہنماؤں، دانشوروں اور سوامیوں کو اپنے پروگراموں میں بلانے کا سلسلہ بھی بڑی خوبی سے چلایا جارہا ہے۔اس میں کوئی شک اور دو رائے نہیں ہے کہ اس طرح کی کوششوں او رمہمات سے اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے غیر مسلم عوام کے ذہنوں میں موجود غلط فہمیاں ، تعصب اور دشمنی کو دور کرنے میں بڑی مدد ملی ہے اور فضااس قدر مکدر اور مسموم نہیں ہوسکی جتنی کہ فسطائی گروہ چاہتے تھے۔مگریہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اسلام ہمیں ہرکام حکمت اور دانائی کے ترازو میں تولتے ہوئے انجام دینے کی تلقین کرتا ہے۔اورملک کی بدلتی تازہ صورتحال تو اس کا پرزور تقاضہ کررہی ہے۔
سنائی پڑ رہی ہے اک نئے طوفان کی آہٹ نئی کروٹ پہ مائل زندگی معلوم ہوتی ہے
اسلام کے لئے مٹی نرم ہورہی ہے: حضور اکرم ﷺ کی بعثت کے بعد سے آج تک کی تاریخ کا اگر ہم جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات روزروشن کی طرح سب پر عیاں ہے کہ اسلام اپنے اندر وحدانیت اور روحانی سکون کے متلاشی انسانوں کے لئے جو کشش رکھتا ہے اس سے باطل ہمیشہ لرزہ بر اندام رہا ہے۔اور آج کے دور کی یہ بھی ایک سچائی ہے کہ پورے عالم میں خصوصاً نوجوان نسل دین اسلام کی طرف جوق در جوق رجوع ہورہی ہے۔ خود ہمارے ملک میں اسلام کے دامن رحمت میں پناہ لینے والوں کی تعداد اگر چہ کہ بہت زیادہ کہی نہیں جاسکتی، لیکن مٹی بڑی تیزی سے نرم ہوتی جارہی ہے، اوراس کی زرخیزی بڑھنے لگی ہے جس سے مستقبل میں اس ملک میں اسلامی بہارIslamic Spring کی پیشین گوئی صاف اور واضح ہوتی جارہی ہے۔ فسطائی شدت پسند چونک گئے ہیں: جب صورتحال یہ ہوتو پھرایوان باطل میں کھلبلی پیداہونا لازمی سی بات ہے۔ ہمارے ملک میں بھی فسطائی شدت پسند وں نے حالات کے بدلتے رخ کو پہچان لیا ہے اور وہ چونک گئے ہیں۔ان کی نیندیں حرام ہوجانا ایک فطری عمل ہے۔ اب وہ اپنے معمول اور مینول manualکے مطابق اس طوفانِ خیر کو روکنے کے لئے ہر وہ شرانگیزی کریں گے ، جو ان کے بس میں ہوگی۔ ہراس مکر اور فریب سے کام لیں گے جو ان کی فطرت میں شامل ہے۔ ہر اس جبر و استبدادکو روا رکھیں گے جو ان کی بساط اور طاقت میں ہوگا۔اور ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ پورے ملک میں اقلیتوں اور مسلمانوں کے خلاف وہ خوفناک سرگرمیاں انجام دی جانے لگی ہیں ، جن سے پوری آبادی پر دہشت طاری ہوجائے۔ مسلمانوں کی امیج بگاڑی جارہی ہے: مسلمانوں کی امیج بگاڑنے کے لئے گؤکشی کے علاوہ ان کا سنگین الزام اب یہ ہوتا جارہا ہے کہ مسلمان زور زبردستی یا روپے پیسے کا لالچ دے کرتبدیلئ مذہب conversionکے ذریعے غیر مسلموں کو اپنے دین میں داخل کررہے ہیںیا پھر "لوجہاد"کے راستے سے ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنا رہے ہیں۔ اس طرح غیر مسلموں کا مذہب تبدیل کرکے اور چار چار شادیوں سے زیادہ بچے پیدا کرکے یہاں کی آبادی کا توازن بگاڑ رہے ہیں ۔ اور یوں یہ فسطائی انتہا پسند دستے عام غیر مسلموں کو یہ باور کرانے میں لگے ہوئے ہیں کہ آنے والے دنوں میں مسلمان یہاں پر اکثریت میں ہونگے اور موجودہ غیر مسلم اکثریت جلد ہی اقلیت میں آجائے گی۔اس طرح عام اور غیر متعصب ہندوؤں کے ذہنوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف بغض اور غبارکے ذریعے مسموم اور مسحور mesmerizeکیا جارہا ہے۔زخم کے دن اور درد کی راتیں، نالۂ شام اور آہِ سحر کیا کیا ملا ہے شہر بتاں سے، ہم نہ کہیں تو کون کہے
مگر ہم حکمت سے کام نہیں لے رہے ہیں: ان حالات میں جیسا کہ میں نے کہا ہمیں حکمت اور ہوشمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ لیکن میرا احساس ہے کہ ہم حکمت سے کام نہیں لے رہے ہیں۔ ادھر پچھلے کچھ عرصے سے دیکھا جارہا ہے کہ دعوتی کام میں لگے ہوئے کچھ اکابرین اور رضاکاران غیر مسلموں کے لئے اپنے طور پر کچھ اہم پروگرام اور جلسے منعقد کرنے کے علاوہ براہ راست مٹھوں ، مندروں ، اسکولو ں ، کالجوں اور ہاسٹلوں وغیرہ میں خصوصی مہمات کے طو ر پر دورے کرتے ہیں۔جہاں ان کی آؤ بھگت بھی ہوتی ہے اور ان کے لئے وہاں پر قرآن کے پیغام اورسیرت نبوی کے اہم پہلوؤں پر بیانات اور جلسے منعقد کرنے کے لئے موقع بھی فراہم کیا جاتا ہے ۔پھر غیر مسلم تعلیمی اداروں میں منعقدہ چھوٹے بڑے پروگرام کی تشہیر ، بچوں سے خطاب کی تصاویر، قرآن مجید اور دینی لٹریچر تقسیم کرنے کی ویڈیوکلپس سب کچھ سوشیل میڈیا پر فوری سے بھی پیشتر اپ لوڈ کردیا جاتا ہے۔اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ سوشیل میڈیا پر سنگھ پریوار کی ڈیجیٹل آرمی کے دستے ہر شہر اور ہر گاؤں میں مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ تب ظاہر ہے کہ غیر مسلموں میں اور و ہ بھی ان کے اپنے ادروں میں کیے جارہے ہمارے دعوتی کام اور پھر غیر متعصب اور صاف دل غیر مسلموں کی طرف سے اس کی پذیرائی ان شر پسندوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت ہونے سے تو رہی۔ ایک خدشہ جس کا اظہار کیا جاتا رہا: اس طرح کی سرگرمی میں پیش پیش رہنے والے کچھ احباب کے سامنے ذاتی طور پر میں اکثر یہ خدشہ ظاہر کیا کرتا تھا کہ سوشیل میڈیا پر اپنے کام کی اس طرح کی تشہیر سے پرہیز کرو۔ حالات کی سن گن لیتے رہواور اس کے سگنل سمجھو۔ مندروں اور غیر مسلم طلباء کے بیچ اسلام کے پیغام کو عام کرنایقیناًبڑا اور لائق تحسین کام ہے۔ مگر اس کی تشہیر سے سری رام سینا جیسی تنظیم کے مقامی فدائین بھڑک اٹھے ہیں۔ ان کے اپنے سوشیل میڈیا گروپ میں اس پر بڑی مخالفت اورلعن طعن ہورہی ہے اس طرح کے دعوتی کام کی کھل کر مذمت کی جارہی ہے اور اس پر روک تھام کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔اس لئے بہتر ہے کہ خاموشی اور مستقل مزاجی کے ساتھ بہت ہی دھیمے انداز میں اپنا کام کرو اوراس کی پبلسٹی سے بچو۔ ورنہ کل کو انہی غیر مسلم اداروں کے ذمہ داروں پر دباؤ بناتے ہوئے یہ رام سینا اور بجرنگ دل والے ہمارے اسکولوں میں رامائن، گیتا اور وید کے پاٹھ پڑھانے پہنچ جائیں گے، اور ہم سے اجازت مانگیں گے تو پھر ہمارے لئے نہ جائے ماندن ، نہ پائے رفتن کی سچویشن کھڑی ہوجائے گی۔ مگر دعوت دین کے ہمارے مخلص کارکنان اور ذمہ داران ہماری بات کوسن کر ان سنی کرتے رہے ہیں۔چاہے اس کے پیچھے واہ واہ اور شاباشی بٹورنا مقصود ہو یا نہ ہو مگر وہ اب بھی بس اپنی کارکردگی اور تصاویر کو مشتہر کرنے کی دھن میں مست چلے جارہے ہیں۔یہ سمجھے بغیر کہ:سارے عالم کو بنا دیتا ہے بے خواب کبھی یوں ہی آوارہ ہواؤں کا ہوا دینا
اور وہی ہوا جس کا خدشہ تھا!: پچھلے کچھ عرصے سے نجی مجلسوں میں مذکورہ بالا جس خطرے کا اظہارمیں کیا کرتا تھا، بالآخر اب وہ حقیقت بن کر سامنے آگیا ہے۔معاملہ اڈپی کے پیجاور مٹھ سوامی کی طرف سے مسلمانوں کو دی گئی دعوت افطار اور مٹھ کے احاطے میں نماز ادا کرنے کی سہولت دینے کا ہے۔ اس پر سب سے پہلے سری رام سینا کے چیف پرمود متالک نے مخالفانہ محاذ کھڑا کیا اور اس نے زہر افشانی کی کہ مٹھ کے احاطے میں" گائے کے قاتلوں "یا "گؤ بھکشکوں "کو دعوت دینے ، ان کا اکرام کرنے اور انہیں نماز اداکرنے کی اجازت دے کر سوامی ہندو دھرم کا اپمان کیا ہے۔ گائے کے تحفظ کے لئے جان پر کھیلنے والے ان جیسے گؤ رکھشکوں کی تذلیل کی ہے۔ اس نے بات اسی پر ہی ختم نہیں کی بلکہ سوامی جی سے یہ سوال کیا کہ اگر واقعی ہندو مسلم یکجہتی کی بات ہے توپھر کیا کبھی کسی مسجد میں گنیش اتسوا اور دیگرہندو مذہبی تہوار منانے کی اجازت مل سکتی ہے؟ گوبر اور پیشاب سے ہال کو پاک کیا جائے: اڈپی پیجاور مٹھ سوامی وشوا تیرتھ ہندوؤں کے بہت ہی محترم اور معتبر مذہبی رہنما مانے جاتے ہیں۔ وشوا ہندو پریشد کے سربراہوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ بابری مسجد کی جگہ رام جنم بھومی قرار دیتے ہوئے وہاں مندر تعمیر کرنے کی مہم میں وہ صف اول کے رہنما ؤں میں شامل ہیں۔ اس کے باوجود ان کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ کسی حد دوستی اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوشش کے طور پر جو دعوت افطار کا اہتمام کیا گیا تھااس کے خلاف صرف اب سری رام سینا ہی نہیں بلکہ ہندو مہا سبھا ، بجرنگ دل، ہندو جن جاگرن سمیتی اور دیگر ہندو تنظیمیں کھل کر میدان میں آگئی ہیں۔ہندو جن جاگرن سمیتی نے سوامی جی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہندو عوام سے معافی مانگیں اور جہاں نماز پڑھی گئی تھی وہ ہال چونکہ ناپاک ہوگیا ہے، اس لئے اس ہال کو گائے کے گوبر اور پیشاب سے پاک کرتے ہوئے اس مقام کا تقدس بحال کیا جائے۔ مسجد میں ہنومان چالیسہ کا انتظام کرو!: اس مسئلے پران دنوں سری رام سینا اور دیگر شدت پسندگروہوں نے پریس کانفرنسیں کرکے پیجاور سوامی کے خلاف مذمتی بیانات جاری کرتے ہوئے عام ہندوؤں کوان سے متنفر کرنے کی مہم چھیڑ رکھی ہے۔حالانکہ وشوا تیرتھ سوامی نے اپنے اقدام کا بھر پور دفاع کیا ہے ، مگر مخالفین پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔ سب سے اہم اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ سری رام سینا کے لیڈروں نے سنگھ پریوارکی دیگر شدت پسند تنظیموں کے تعاون سے منگلور میں سوامی جی کی مخالفت میں عام احتجاجی مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا اور اس مظاہرے سے باز آنے کے لئے شرط یہ رکھی کہ اگر واقعی مسلمانوں کو بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے میں دلچسپی ہے تو پھر پیجا ور مٹھ سوامی ہندو تنظیموں کے لئے کسی مسجد میں ہنومان چالیسہ کا اہتمام کروائیں۔ واضح رہے کہ ہنومان چالیسہ ہندی صنف سخن چار مصرعوں کے بند" چوپائی" میں گوسوامی تلسی داس کی طرف سے اودھی زبان میں لکھی گئی چالیس بندوں پر مشتمل بجرنگ بلی یا ہنومان کی حمد و ثنا والی دیومالائی نظم ہے۔ جو ذکر و تسبیح کے طور پر ہندوؤں کے یہاں پڑھی جاتی ہے۔ ہاں اس میں برائی کیا ہے؟!: یاد رکھئے ،سری رام سینا کی اس مانگ کو یونہی نظرانداز کرنا بہت بڑی بے وقوفی ہوگی ۔کیونکہ اس اپیل میں ایک عام ہندو کے لئے بھی اچھی خاصی اپیل اور کشش موجودہے۔یہ ان شرانگیزوں کی طرف سے اپنے منصوبے کے تحت چھوڑا گیا ایک ایسا تیر ہے جس کے خطا ہونے کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔اس لئے کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم اپنی مسجدوں میں نہ گنیش تہوار کا موقع فراہم کرسکتے ہیں اور نہ ہی ہنومان چالیسہ جیسی محفلیں سجانے کا اہتمام کر سکتے ہیں۔مگر خدشہ ہے کہ ایک عام ہندو سری رام سینا اور اس جیسی شدت پسند تنظیموں کے اس مطالبے کوبالکل معقول بات سمجھے گا اور پوچھے گا کہ "ہاں! اس میں برائی کیا ہے۔ جب غیر مسلم اسکولوں ، کالجوں اور مندروں میں تک ان کے مذہب کی دعوت تبلیغ کا موقع ہم فراہم کررہے ہیں تو پھر مسلمانوں کو بھی کھلے دل کے ساتھ قدامت پسندی چھوڑ کر ہماری مذہبی سرگرمیوں کے لئے بھی مساجد میں موقع کیوں نہیں دیاجانا چاہیے ؟!"اوراگر ایسا ہوا،تب ہماری کیا پوزیشن ہوگی! کاش !اب بھی ہوش مندی کا مظاہرہ ہو: ظاہر ہے کہ ہم اس قسم کا مطالبہ کسی بھی قیمت پرتسلیم نہیں سکتے ۔اس طرح ہمارے انکار سے ایک نیا تنازعہ پیدا ہوگا اور عام ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف متنفر کرنے اور ورغلانے کے لئے سنگھ پریوار کے شر پسندوں کے ہاتھ ایک نیا ہتھیارآجائے گا۔جس کے نتیجے میں غیر مسلم اداروں میں دعوت دین کے کاموں کے لئے جس حد تک بھی فضا ہموار ہوگئی تھی، وہ مکدر ہوجائے گی اور ہمارے راستے مسدود ہوجائیں گے۔اور خدانخواستہ ایسا ہوتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ہماری اس نادانی کا بڑاہاتھ ہوگا جس میں ہم نے غیر مسلم اداروں میں اپنی دعوتی کوششوں کو بینک آف آخرت میں جمع کروانے کے بجائے سوشیل میڈیا کے اکاونٹس میں جمع کروانے کا شوق پورا کیا تھا! اے کاش! اب بھی ہم ہوشمندی سے کام لیں، اور سنبھل جائیں!۔۔۔ورنہ آنے والے دن اور بھی برے ہوسکتے ہیں۔ خدا خیر کرے !جنگل کے مکینوں کی مگر بات الگ ہے حیراں ہوں بھرے شہر میں کب کیا ہو پتہ کیا!
haneefshabab@gmail.com مندرجہ بالا تحریر مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مشتمل ہے اس تحریر میں سے کسی بھی بات پر ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا ضروری نہیں)